پاکستان ایک نظر میں کیا مارچر مارشل لا کے منتظر ہیں

سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے۔


شاہد اقبال August 18, 2014
سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ISLAMABAD: اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے سجائی گئی خوابوں کی جنت کو دو دن بیت چکے ہیں ۔جنتیوں کے جنون اور عقیدت کے پیمانے ابھی لبریز ہیں اورحکومت کو ابھی کچھ اور دن شاید انقلابی لیڈروں کی بے معنی للکاریں برداشت کرنی پڑیں۔ دنیا بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیروکاراپنے اپنے لیڈروں کو وہ مسیحا سمجھتے ہیں جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے ۔ورکر اپنے لیڈر وں کے لئے جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، وہ ان کے اشاروں پر ریلیاں نکالتے، مارچ کرتے اور دھرنے دیتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لئے یہ ہر طوفان سے ٹکراتے ہیں، مصائب و مسائل کی آندھیوں کامقابلہ کرتے ہیں اورانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے ۔ جہاں یہ ایندھن ٹھنڈا پڑتا ہے سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عرش سے فرش پر آ گرتے ہیں۔ فرش نشیں ہونا سیاسی لیڈروں کو چونکہ اتنا پسند نہیں ہوتا اس لیے یہ اپنے ورکروں کے جنون کو جھوٹے سچے نعروں سے ہوا دیتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی ورکر دنیا بھر کے سیاسی ورکروں کی جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی منفرد خاصیتیں بھی رکھتے ہیں جو دنیا کے کسی اور گوشے میں نہیں پائی جاتیں ۔ہمارے سیاسی ورکر اپنے لیڈرو ں میں پیغمبرانہ خصوصیات پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر ہر خطاؤں سے مبرا ہے ۔ جھوٹ ،منافقت ، موقع پرستی اور ابن الوقتی سے کوسوں دور اور ذاتی منفعتوں کی آلائشوں سے یکسر پاک ہے۔ یہ سمجھتے ہیں ان کا لیڈر عام انسانوں سے بلند اللہ کا وہ ولی ہے جس سے غلطی سر زد ہونے کا ایمان رکھنا سیاسی کفر ہے ۔ یہ اپنے لیڈر کے مونہہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو وحی سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے سے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ ایسے الوہی لیڈروں اور ان کے فدائی حشیشین سے بھری ہوئی ہے ا وراگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی '' ہوش ربا ترقی'' کا راز بھی یہ لیڈر اور ان کے سیاسی ورکر ہی ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے عمران خان اور ان کے جنونی ورکر اسی سلسلے حشیشیہ کا جدید ترین ور ژن ہیں۔ عمران خان نے اپنی ولایت کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفوں کی شیطانیت پر ایمان بھی اپنے ورکروں کے عقیدے میں شامل کر دیا ہے چناچہ اب عمران کے پیروکار صدقِ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر سچا اور باقی ساری دنیا جھوٹی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان کا لیڈر پاکستان سے مخلص اور باقی ساری دنیا منافق ہے۔ اپنی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ نون کو سراپا برائی بنا کر پیش کرنے کے بعد عمران خان اب اس طاغوت سے آزادی دلانے کے لیے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں اور کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔

عمران خان کیفہم و فراست کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ماننا مشکل ہے کہ عمران نے ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والی نواز حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ جذبات کی رو میں بہہ کر کر دیا ہے۔ یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ عمران خان سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ دس بیس ہزار لوگ اکٹھے کرکے وہ دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آنے والی پارٹی کی حکومت کو گرا سکتے ہیں ۔ اس امر کا فیصلہ آنیولے دنوں اور ہفتوں میں ہو جائے گا کہ وہ کون سی سیاسی یا غیر سیاسی مجبوریاں یا مصلحتیں تھیں جنہوں نے عمران کو اس انتہا کی طرف دھکیلا۔ لیکن اتنا واضح ہے کہ عمران کے آزادی مارچر جمہوریت کی کوئی خدمت بجا نہیں لارہے۔ اگر منتخب حکومتوں پر جھوٹے سچے الزامات لگا کر گرانے کی روایت پھر شروع ہو جاتی ہے تو مستقبل میں اس کا شکار خود عمران خان بھی ہوں گے ۔ عمران کے پڑوس میں انقلاب کی شمعیں جلانے کی ناکام کوششیں کرنے والے قادری صاحب سے اس لیے گلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ ایک نیم سیاسی اورنیم مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں جس کا سیاست سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ قادری صاحب کا مارچ پچھلے سال کے انقلاب کی یاد میں منائے جانے والے عرس سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا اس لیے ان کی دھمکیوں پر کوئی کان نہیں دھر رہااور سب کی توجہ کا مرکز ابھی تک عمران خان ہے۔

یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عمران خان اور قادری صاحب کے درمیان انقلابی اور سیاسی اشتراکِ خیال ہو نہ ہو ایک جذباتی وابستگی ضرور موجود ہے ۔دونوں کے مطالبات میں بے سرو پائی کے باوجود دونوں کے کارکن نہایت اخلاص سے ان کے پورا ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان اور قادری صاحب کسی ایسی انہونی کے منتظر ہیں جس میں ان کو کچھ ملے نہ ملے نواز شریف سے سب کچھ چھن جائے ۔سیاسی ڈیڈ لاک کے منڈلاتے بادلوں ، انقلابیوں اور نئے پاکستان والوں کی موٹی موٹی اناؤں اور حکومت کی بے تدبیریوں کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ موجودہ بحران کا حل غیر سیاسی قوتوں کو ہی کرنا پڑے گا اور مارچرغالبا اسی ''خو ش خبری ''کے منتظر ہیں ۔ فوجی بوٹوں کی دھول میں شاید مارچ کرنے والوں کی خفت اور شرمندگی وقتی طور پر چھپ جائے لیکن پاکستانی سیاست کے مونہہ پر لگنے والے کالک کئی دہائیوں تک نہ مٹ سکے گی۔

ایک لولی لنگڑی جمہویت بہت طاقتور آمریت سے ہزار درجے بہتر ہے عمران اور ان کے جنونی جتنی جلدی یہ سمجھ سکیں ان کے سیاسی مستقبل کے لیے یہ بہتر ہے !



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں