بالادستی کا خواب
سیکولر ملک بھارت کا اصل چہرہ یہ ہے کہ یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اتنا تنگ کردیا جاتا ہے ۔۔۔
کہتے ہیں انسان اپنی شخصیت پرکتنی ہی ملمع سازی کرے اور لوگوں کو اس کے بل بوتے پر اپنے گرد اکٹھا کرے مگر ایک وقت آتا ہے جب لوگوں کے سامنے اصل چہرہ آہی جاتا ہے اور اس وقت ارد گرد اکٹھے لوگوں کی بھیڑچھٹ جاتی ہے اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا جو چہرہ دنیا کے سامنے ہے وہ بظاہر بڑا دل فریب نظر آتا ہے اکثر لوگ بھارت کی دوستی کا الاپ لگائے رہتے ہیں کسی کو وہاں جمہوریت نظر آتی ہے تو کوئی وہاں بنیادی حقوق کی سر بلندی کی بات کرتا نظر آتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کیوں کہ بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے جائز و ناجائز ہر کام کرتا نظر آتا ہے۔
ہندوستان کے حکمران دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر اندرون خانہ صورت حال یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو سلب کیا جاتا رہا ہے اور برابر کہا جا رہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں تو گجرات میں ایسے سانحات نے جنم لیا جس نے بھارتی جمہوریت نوازی کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ ہندو تعصب نے مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بناکر رکھ دیا ہے، سیکولر ہونے کے دعوے دار ملک میں یہ حال ہے کہ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف بھی محاذ آرائی جاری ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں میں تشویش پیدا ہو رہی ہے اور ساتھ ساتھ بھارت کا متعصب اور تنگ نظر چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔
سیکولر ملک بھارت کا اصل چہرہ یہ ہے کہ یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اتنا تنگ کردیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لوگ ابھی مشہور مقبول مصور مقبول فدا حسین کا واقعہ نہیں بھولے ہوں گے کہ جنھیں انتہا پسندوں نے اس قدر تنگ کیاکہ ان کی تصویروں کی نمائش پر حملے کیے گئے، دھمکیاں دی گئیں جس کی وجہ سے وہ ملک چھوڑ کر دیار غیر میں پناہ گیر بن گئے کیوں کہ ان کی کردار کشی کی باقاعدہ منظم مہم چلائی گئی۔
بے کسی، لاچاری میں دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ہندوستان واپس نہیں آئے۔ ہمارے ہاں تو بھارت نوازی کا یہ حال ہے کہ کچھ لوگ تو پاکستان بننے کے ہی خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کی تقسیم اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے کی تھی ورنہ متحدہ ہندوستان میں ہی بھلائی تھی مگر ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارتی صحافی جسونت سنگھ کی کتاب جناح کا مطالعہ کرلیں تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح کانگریس کے رہنماؤں کے تکبرانہ رویے اور تعصب نے قائداعظم کا دل اس طرح سے کھٹا کردیا کہ انھوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے کلی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت کرکے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے لیے جد وجہد کو اپنا شعار بنا لیا، پاکستان میں اس وقت میڈیا آزاد ہے۔
آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ ملک کے کسی بھی رہنما یا اداروں کے بارے میں جو دل چاہے کہہ اور لکھ دیا جاتا ہے مگر بھارت کا یہ حال ہے کہ وہاں پر گاندھی کی ذاتی زندگی پر کچھ بولنے اور لکھنے پر سخت پابندی ہے۔ آج پاکستان میں اقلیتیں ہندو ہوں یا عیسائی بہت آرام و سکون سے ہیں۔ اکا دکا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہر طرف سے اس کی مذمت ہی کی جاتی ہے۔ مگر بھارت میں تو مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے گجرات اور کشمیر اس کی بد ترین مثالیں ہیں جس کی وجہ سے بھارت کے اصل عزائم کھل کر دنیا کے سامنے آگئے ہیں کہ بھارت اکھنڈ بھارت کے چکر میں نیپال، بھوٹان کو بھی اپنی راج دھانی کا حصہ سمجھتا ہے اس لیے بھارتی میڈیا بھی وہی راگ الاپتا ہے جس کی اس کو ہدایات دی جاتی ہیں۔
بھارتی میڈیا پر پریشر رہتا ہے جس کی وجہ سے سچ کو سامنے لانے سے ہمیشہ گریزاں رہتا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کے اصل حقائق دنیا کے سامنے آچکے ہیں کہ بھارت نے کس طرح معاملات کو خراب کیا اور اس حملے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور جب اصل حقائق کا علم ہوا تو معاملے کو لٹکا دیا گیا تاکہ مجرموں کو سزا نہ دی جاسکے اسی طرح کی کارروائی ممبئی پر دہشت گردی کے دوران ہوئی جب سارا میڈیا چیخ چیخ کر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا۔
بھارت کا اصل کردار یہ ہے کہ ہر واقعے کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر ایسا واویلا کرو جس سے حقیقت چھپ جائے۔ جھوٹ کو ایسا پھیلا دو کہ وہ سچ لگنے لگے۔ حالانکہ سمجھوتہ ایکسپریس میں کافی گھرانے پاکستان کے تھے۔ ہندوستان کی سر زمین پر حملہ ہوا تھا، ہندوستان کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ ان گھرانوں کو معاوضہ ادا کرتے۔ مگر بھارت پاکستان کو اس کا ذمے دار ٹھہرا کر اخلاقیات سے ماورا ہوگیا اس کے بعد کچھ گھرانوں کو معاوضہ دیا گیا۔
بھارت مسلسل پاکستان اور ہمسایہ ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنے کے لیے مذموم کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔ جیسے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ بھی شامل ہے، پاکستان کی جانب سے کبھی بھی فائرنگ میں پہل نہیں کی گئی مگر بھارت بلا اشتعال فائرنگ کرکے بے گناہ شہریوں اور جانوروں کو ہلاک کردیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا ہے مگر نہتے مچھیروں کو بلا قصور جیلوں میں قید رکھ کر انھیں پاکستانی جاسوس قرار دے کر انسانیت کو شرما دینے والے مظالم کرتاہے آج بھی پاکستان کی ساحلی پٹی کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کے گھر والے مدت ہوئی بھارتی جیلوں میں بند ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ان کی رہائی ممکن نہیں۔
ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ روزگار کی تلاش میں کبھی راہ بھٹک کر بھارتی ساحل کی طرف جا نکلتے ہیں جب کہ پاکستان کا رویہ بالکل برعکس ہے پاکستان میں خیر سگالی کے جذبات کے زیر اثر حکومتیں بھولے بھٹکے آنے والے بھارتی مچھیروں کو معمول کی قانونی کارروائی کرکے بھارتی حکومت کے حوالے کردیتی ہے۔ اس طرح کتنے ہی مواقع ایسے ہیں جہاں بھارت اپنے مذموم مقاصد کے ساتھ دنیا کے سامنے عیاں ہوچکا ہے۔ در اصل بھارت کا معاملہ '' ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ'' کی عملی تعبیر بنا نظر آتا ہے۔
ہندوستان کے حکمران دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر اندرون خانہ صورت حال یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو سلب کیا جاتا رہا ہے اور برابر کہا جا رہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں تو گجرات میں ایسے سانحات نے جنم لیا جس نے بھارتی جمہوریت نوازی کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ ہندو تعصب نے مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بناکر رکھ دیا ہے، سیکولر ہونے کے دعوے دار ملک میں یہ حال ہے کہ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف بھی محاذ آرائی جاری ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں میں تشویش پیدا ہو رہی ہے اور ساتھ ساتھ بھارت کا متعصب اور تنگ نظر چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔
سیکولر ملک بھارت کا اصل چہرہ یہ ہے کہ یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اتنا تنگ کردیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لوگ ابھی مشہور مقبول مصور مقبول فدا حسین کا واقعہ نہیں بھولے ہوں گے کہ جنھیں انتہا پسندوں نے اس قدر تنگ کیاکہ ان کی تصویروں کی نمائش پر حملے کیے گئے، دھمکیاں دی گئیں جس کی وجہ سے وہ ملک چھوڑ کر دیار غیر میں پناہ گیر بن گئے کیوں کہ ان کی کردار کشی کی باقاعدہ منظم مہم چلائی گئی۔
بے کسی، لاچاری میں دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ہندوستان واپس نہیں آئے۔ ہمارے ہاں تو بھارت نوازی کا یہ حال ہے کہ کچھ لوگ تو پاکستان بننے کے ہی خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کی تقسیم اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے کی تھی ورنہ متحدہ ہندوستان میں ہی بھلائی تھی مگر ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارتی صحافی جسونت سنگھ کی کتاب جناح کا مطالعہ کرلیں تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح کانگریس کے رہنماؤں کے تکبرانہ رویے اور تعصب نے قائداعظم کا دل اس طرح سے کھٹا کردیا کہ انھوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے کلی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت کرکے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے لیے جد وجہد کو اپنا شعار بنا لیا، پاکستان میں اس وقت میڈیا آزاد ہے۔
آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ ملک کے کسی بھی رہنما یا اداروں کے بارے میں جو دل چاہے کہہ اور لکھ دیا جاتا ہے مگر بھارت کا یہ حال ہے کہ وہاں پر گاندھی کی ذاتی زندگی پر کچھ بولنے اور لکھنے پر سخت پابندی ہے۔ آج پاکستان میں اقلیتیں ہندو ہوں یا عیسائی بہت آرام و سکون سے ہیں۔ اکا دکا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہر طرف سے اس کی مذمت ہی کی جاتی ہے۔ مگر بھارت میں تو مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے گجرات اور کشمیر اس کی بد ترین مثالیں ہیں جس کی وجہ سے بھارت کے اصل عزائم کھل کر دنیا کے سامنے آگئے ہیں کہ بھارت اکھنڈ بھارت کے چکر میں نیپال، بھوٹان کو بھی اپنی راج دھانی کا حصہ سمجھتا ہے اس لیے بھارتی میڈیا بھی وہی راگ الاپتا ہے جس کی اس کو ہدایات دی جاتی ہیں۔
بھارتی میڈیا پر پریشر رہتا ہے جس کی وجہ سے سچ کو سامنے لانے سے ہمیشہ گریزاں رہتا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کے اصل حقائق دنیا کے سامنے آچکے ہیں کہ بھارت نے کس طرح معاملات کو خراب کیا اور اس حملے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور جب اصل حقائق کا علم ہوا تو معاملے کو لٹکا دیا گیا تاکہ مجرموں کو سزا نہ دی جاسکے اسی طرح کی کارروائی ممبئی پر دہشت گردی کے دوران ہوئی جب سارا میڈیا چیخ چیخ کر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا۔
بھارت کا اصل کردار یہ ہے کہ ہر واقعے کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر ایسا واویلا کرو جس سے حقیقت چھپ جائے۔ جھوٹ کو ایسا پھیلا دو کہ وہ سچ لگنے لگے۔ حالانکہ سمجھوتہ ایکسپریس میں کافی گھرانے پاکستان کے تھے۔ ہندوستان کی سر زمین پر حملہ ہوا تھا، ہندوستان کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ ان گھرانوں کو معاوضہ ادا کرتے۔ مگر بھارت پاکستان کو اس کا ذمے دار ٹھہرا کر اخلاقیات سے ماورا ہوگیا اس کے بعد کچھ گھرانوں کو معاوضہ دیا گیا۔
بھارت مسلسل پاکستان اور ہمسایہ ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنے کے لیے مذموم کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔ جیسے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ بھی شامل ہے، پاکستان کی جانب سے کبھی بھی فائرنگ میں پہل نہیں کی گئی مگر بھارت بلا اشتعال فائرنگ کرکے بے گناہ شہریوں اور جانوروں کو ہلاک کردیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا ہے مگر نہتے مچھیروں کو بلا قصور جیلوں میں قید رکھ کر انھیں پاکستانی جاسوس قرار دے کر انسانیت کو شرما دینے والے مظالم کرتاہے آج بھی پاکستان کی ساحلی پٹی کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کے گھر والے مدت ہوئی بھارتی جیلوں میں بند ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ان کی رہائی ممکن نہیں۔
ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ روزگار کی تلاش میں کبھی راہ بھٹک کر بھارتی ساحل کی طرف جا نکلتے ہیں جب کہ پاکستان کا رویہ بالکل برعکس ہے پاکستان میں خیر سگالی کے جذبات کے زیر اثر حکومتیں بھولے بھٹکے آنے والے بھارتی مچھیروں کو معمول کی قانونی کارروائی کرکے بھارتی حکومت کے حوالے کردیتی ہے۔ اس طرح کتنے ہی مواقع ایسے ہیں جہاں بھارت اپنے مذموم مقاصد کے ساتھ دنیا کے سامنے عیاں ہوچکا ہے۔ در اصل بھارت کا معاملہ '' ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ'' کی عملی تعبیر بنا نظر آتا ہے۔