پیٹرولیم کے اندر زندہ رہنے والے جراثیم کی دریافت
خلائی مخلوق کی تلاش کا نیا دَروا ہوگیا
خلائی مخلوق کی تلاش میں انسان برسوں سے سرگرداں ہے۔ عشروں تک اس نے صرف خلا کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔ ارضی مدار میں موجود دوربینوں کی مدد سے اس نے نت نئے سیارے دریافت کیے۔ مریخ اور دیگر سیاروں کو کھوجنے کے لیے ان کی جانب جدید ترین آلات سے لیس خلائی گاڑیاں روانہ کیں، تاہم وہ اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوسکا۔
سائنس داں اور ماہرین فلکیات ہنوز خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے یا اس کی دریافت میں کام یاب نہیں ہوسکے لیکن برسوں کی تحقیق کے بعد اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ اب وہ خلا کے ساتھ زمین پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ اس کا مقصد زمین پر ایسے مشکل ترین حالات اور مقامات کا جائزہ لینا ہے جن میں جراثیم زندہ رہ سکتے ہوں۔ دراصل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ خلا میں زندگی جراثیمی شکل میں پائی جاسکتی ہے۔ اور وہ زمین پر ایسے مقامات کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں کا ماحول دوسرے سیاروں کے ماحول سے ملتا جلتا ہو۔
تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے تارکول کی ایک قدرتی جھیل میں ایسے خردبینی جان دار دریافت کیے ہیں جو تیل سے گھرے قطرات آب کے اندر زندہ تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ جراثیم ان قطروں کے اندر زندہ رہتے ہوئے پیٹرولیم کی تحلیل کرتے ہیں۔ اپنی آبادی میں تیزی سے اضافہ کرتے ان خردبینی نامیوں کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی انتہائی قلیل مقدار درکار ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ان جان داروں کو آئل پلانٹس اور بحری جہازوں سے سمندر میں بہہ نکلنے والے تیل کی صفائی میں کام یابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس تحقیق کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے، اور وہ یہ کہ ان جراثیم کی دریافت دیگر سیاروں پر حیات کی موجودگی کے امکانات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
سائنس داں پہلے یہ سمجھتے رہے ہیں کہ تیل کی قدرتی تحلیل صرف تیل اور پانی کے مقام اتصال پر ہوتی ہے جیسے کہ تیل سے بھری جھیل یا غار یا سمندر کی تہہ میں ۔ تاہم حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ انتہائی چھوٹے ماحولیاتی نظام جو پیٹرولیم کی تحلیل کرتے ہیں وہ تیل میں گھرے ہوئے پانی کے قطروں میں پائے جاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے یہ تحقیق ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو میں واقع اسفالٹ یا تارکول کی سب سے بڑی جھیل میں کی۔ '' پچ لیک '' نامی اس جھیل کا رقبہ ایک سو ایکڑ ہے۔ دوران تحقیق محققین کو قطرات آب کے اندر مختلف قسم کے بیکٹیریا اور یک خلوی جان داروں کی موجودگی کا علم ہوا۔ تیل کی تحلیل کرنے والے یہ جان دار اسی مایع پر زندہ تھے۔ اس دریافت نے خلا میں زندگی کو کھوجتے ماہرین کے سامنے ایک نیا دَر وا کیا ہے۔
ماہرین فلکیات اور دیگر سائنس دانوں کی توجہ اب تک ایسے سیاروں کی تلاش پر رہی ہے جس کی سطح پر پانی مائع حالت میں پایا جا سکتا ہو۔ مریخ کی سطح پر مصروف عمل گاڑیوں کے ذریعے بھی سائنس داں وہاں پانی کی کھوج میں ہیں۔ کیوں کہ ان کا نظریہ ہے کہ زندگی صرف اسی ماحول میں پنپ سکتی ہے جہاں پانی موجود ہو۔ تاہم حالیہ دریافت نے ان کی سوچ کی نفی کردی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیات کا وجود خام تیل یا تارکول کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین تحقیق کے تناظر میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کا وجود زحل کے چاند ٹائٹن پر پایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس سیارے کی سطح پر ہائیڈروکاربن سے بھری جھیلیں موجود ہیں۔
سائنس داں اور ماہرین فلکیات ہنوز خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے یا اس کی دریافت میں کام یاب نہیں ہوسکے لیکن برسوں کی تحقیق کے بعد اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ اب وہ خلا کے ساتھ زمین پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ اس کا مقصد زمین پر ایسے مشکل ترین حالات اور مقامات کا جائزہ لینا ہے جن میں جراثیم زندہ رہ سکتے ہوں۔ دراصل سائنس دانوں کا خیال ہے کہ خلا میں زندگی جراثیمی شکل میں پائی جاسکتی ہے۔ اور وہ زمین پر ایسے مقامات کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں کا ماحول دوسرے سیاروں کے ماحول سے ملتا جلتا ہو۔
تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے تارکول کی ایک قدرتی جھیل میں ایسے خردبینی جان دار دریافت کیے ہیں جو تیل سے گھرے قطرات آب کے اندر زندہ تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ جراثیم ان قطروں کے اندر زندہ رہتے ہوئے پیٹرولیم کی تحلیل کرتے ہیں۔ اپنی آبادی میں تیزی سے اضافہ کرتے ان خردبینی نامیوں کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی انتہائی قلیل مقدار درکار ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ان جان داروں کو آئل پلانٹس اور بحری جہازوں سے سمندر میں بہہ نکلنے والے تیل کی صفائی میں کام یابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس تحقیق کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے، اور وہ یہ کہ ان جراثیم کی دریافت دیگر سیاروں پر حیات کی موجودگی کے امکانات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
سائنس داں پہلے یہ سمجھتے رہے ہیں کہ تیل کی قدرتی تحلیل صرف تیل اور پانی کے مقام اتصال پر ہوتی ہے جیسے کہ تیل سے بھری جھیل یا غار یا سمندر کی تہہ میں ۔ تاہم حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ انتہائی چھوٹے ماحولیاتی نظام جو پیٹرولیم کی تحلیل کرتے ہیں وہ تیل میں گھرے ہوئے پانی کے قطروں میں پائے جاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے یہ تحقیق ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو میں واقع اسفالٹ یا تارکول کی سب سے بڑی جھیل میں کی۔ '' پچ لیک '' نامی اس جھیل کا رقبہ ایک سو ایکڑ ہے۔ دوران تحقیق محققین کو قطرات آب کے اندر مختلف قسم کے بیکٹیریا اور یک خلوی جان داروں کی موجودگی کا علم ہوا۔ تیل کی تحلیل کرنے والے یہ جان دار اسی مایع پر زندہ تھے۔ اس دریافت نے خلا میں زندگی کو کھوجتے ماہرین کے سامنے ایک نیا دَر وا کیا ہے۔
ماہرین فلکیات اور دیگر سائنس دانوں کی توجہ اب تک ایسے سیاروں کی تلاش پر رہی ہے جس کی سطح پر پانی مائع حالت میں پایا جا سکتا ہو۔ مریخ کی سطح پر مصروف عمل گاڑیوں کے ذریعے بھی سائنس داں وہاں پانی کی کھوج میں ہیں۔ کیوں کہ ان کا نظریہ ہے کہ زندگی صرف اسی ماحول میں پنپ سکتی ہے جہاں پانی موجود ہو۔ تاہم حالیہ دریافت نے ان کی سوچ کی نفی کردی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیات کا وجود خام تیل یا تارکول کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین تحقیق کے تناظر میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کا وجود زحل کے چاند ٹائٹن پر پایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس سیارے کی سطح پر ہائیڈروکاربن سے بھری جھیلیں موجود ہیں۔