جن پہ تکیہ تھا۔۔۔۔

برطانیہ کے ایک گاؤں میں لوگوں نے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے کسان کے اقدامات کی مخالفت کردی۔

سولر پیلنلز کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی تنصیب سے ہم وادی کے حسین نظاروں کو دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے۔ فوٹو : فائل

دنیا بھر میں سولر پینلز سے وسیع پیمانے پر بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں، اداروں اور حکومتوں کے علاوہ انفرادی سطح پر ان آلات کے ذریعے دھوپ کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے دورافتادہ عسرت زدہ علاقوں میں بھی سولرپینلز دیکھے جاسکتے ہیں۔

برطانیہ کی سرے کاؤنٹی کے ایک کسان نے بھی اپنی 55 ایکڑ زمین پر سولر پینلز نصب کرکے اسے '' سولر فارم '' کی شکل دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مگر ابھی اس منصوبے کو عملی جامہ بھی نہیں پہنایا گیا تھا کہ اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گاؤں والے اس منصوبے کے مخالف نہیں ہوئے بلکہ خود کسان کی بیوی اس کی مخالف ہوگئی اور اس نے گاؤں کے باسیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی باقاعدہ مہم شروع کردی۔

یہ قصہ ہے سرے کاؤنٹی کے گاؤں لنگفیلڈ کا جس کے رہائشی70 رابرٹ ینگ نے سولر فارم کی تشکیل کا منصوبہ بنایا تھا، مگر ' جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے' کے مصداق رابرٹ کی بیوی سُو ینگ ہی اس کی مخالفت کرنے لگی۔ حال ہی میں 69 سالہ بیوی کی جانب سے شوہر کی مخالفت کا یہ قصہ بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک پروگرام میں بھی پیش کیا گیا۔

مسز ینگ اپنے شوہر کے دھوپ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے سے اس قدر نالاں ہوئی کہ اس نے زبردست طریقے سے اس کی مٰخالفت میں مہم شروع کردی۔ اس نے گاؤں والوں کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا اور ان سے اپنے شوہر کے خلاف 'جنگ' میں ساتھ دینے کی درخواست کی۔




سولر فارم کی مخالفت کا سبب بیان کرتے ہوئے مسز ینگ نے ایک برطانوی روزنامے کو بتایا،'' رابرٹ نے مجھے بتائے بغیر سولر فرم سے معاہدہ کیا ہے۔ میں اس کے لیے بیس بیس گھنٹے کام کرتی رہی اور اس نے میری پیٹھ پیچھے اتنا بڑا فیصلہ تن تنہا کرلیا۔ مخالفت کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم ایک خوب صورت وادی میں رہتے ہیں۔ اگر گاؤں کے اطراف میں آٹھ آٹھ فٹ اونچے سولر پینل لگ گئے تو ہم وادی کے حسین نظاروں کو دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے۔''سُو ینگ کے بہ قول وہ اپنے لالچی شوہر کے اس فیصلے سے بہت ناراض ہے اور اسے ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔

میاں بیوی کے اس جھگڑے پر گاؤں والے بھی تقسیم ہوگئے ہیں۔ بہت سے لوگ مسز ینگ کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں۔ دوسری جانب رابرٹ کے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ رابرٹ ینگ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتا ہے، اسی لیے اس نے سولرپینل اسکیم سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ رابرٹ کے مطابق 55 ایکڑ پر پھیلا سولر فارم اگلے 30 برس تک 3500 گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری کرے گا .

جس سے انھیں صرف حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈیز کی مد میں 55000 پاؤنڈ سالانہ کی آمدنی ہوگی۔ رابرٹ کی بیوی نے اس کا یہ دعویٰ مسترد کردیا ہے، اور بڑی شدومد سے اپنے شوہر کی مخالفت کررہی ہے۔ سُو ینگ نے اپنے شوہر سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر وہ سولر فارم کے منصوبے سے باز نہ آیا تو وہ اسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔
Load Next Story