پاکستان ایک نظر میں تحریک انصاف کی غلطیاں
آج محسوس کچھ ایسا ہورہا ہے کہ عمران خان نے اپنی پرواز اس قدر اونچی رکھی کہ بنیادی مسائل پس پشت ہی چلے گئے ہیں۔
جذبہ و جنون اپنی جگہ مگر ایک حقیقت ہے جس کا ہم سب کو اعتراف کرلینا چاہیے کہ تحریک انصاف نے آزادی مارچ میں حقیقت پسندانہ مطالبات پیش نہیں کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج وہ ایک بند گلی میں کھڑی میں نظر آتی ہے اور اب شاید اِس کے پاس 2 نہیں صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ حکومت گرانے کے علاوہ میرا ذاتی خیال ہے کہ بعض دوسرے مطالبات پاکستان میں سیاسی اور جمہوری استحکام کے لیے اشد ضروری ہیں۔ انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کی تحقیقات ایسے اقدامات ہیں جن سے انتخابی عمل پر عوام الناس کا اعتماد بڑھے گا۔
تاہم آج یوں محسوس ہو رہا کہ عمران خان نے اپنی پرواز اس قدر اونچی رکھی کہ بنیادی مسائل پس پشت ہی چلے گئے ہیں۔ کیا نواز شریف کے گھر جانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟۔ وہ کیا یقین دہانی کہ جب بھی دوبارہ انتخابات ہوئے تو وہ صاف اور شفاف ہونگے اور اُن پر کسی کی انگلی نہیں اُٹھے گی؟ اور خان صاحب کے پاس وہ کیا گارنٹی ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا کم از کم اُتنی ہی سیٹیں جیتنے میں جتنی اِس بار جیتیں ہیں؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے ٹھوس جوابات تحریک انصاف کے پاس نہیں ہیں۔
بہت اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف لانگ مارچ عوامی مسائل کے حل کے لیے کرتی۔ کاش کے تحریک انصاف کا لانگ مارچ مہنگائی، بے روزگاری، انصاف اور لوشیڈنگ کے لیے ہوتا اور حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جاتا کہ جن انتخابی وعدوں کے تحت اس نے مینڈیٹ حاصل کیا وہ وعدے وفا کیا جائیں۔ اِس پورے عرصے میں عمران خان پارلیمانی سیاست سے بھی نا آشنا نظر آئے ہیں جبکہ اپوزیشن میں موجود تقریباًتمام سیاسی جماعتوں سے ان کے روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پارلیمنٹ کی صورت میں ان کے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو انتخابی اصلاحاتی عمل پر قائل کرسکتے ہیں اور حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جاسکتا کہ آئندہ الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔
مگر اب لگتا یوں ہے خان صاحب کا مقصد و محور صرف نواز شریف کو گھر بھیجنا ہے لیکن اگر نواز شریف گھر چلے بھی گئے تو مسائل حل نہ ہونگے، مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر رہ کر قانون سازی کی جائے تا کہ آئندہ انتخابات پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکے۔ لیکن سمجھ سے بالاتر کہ عمران خان صاحب اس جلدی اور اضطراب میں کیوں مبتلا ہیں۔
پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی خواہش تھی کہ تحریک انصاف سیاسی اور جمہوری نظام میں ایک ایسی تبدیلی لے کے آئے جس سے ملک میں بادشاہت اور موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور ملک حقیقی معنوں میں جمہوریت کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ تاہم اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مطالبات واضح ہونے چاہیں اور کوشش کرنی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے اسی قانون سازی کی جائے جس ملک حقیقی جمہوریت کا چہرہ دیکھ سکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تاہم آج یوں محسوس ہو رہا کہ عمران خان نے اپنی پرواز اس قدر اونچی رکھی کہ بنیادی مسائل پس پشت ہی چلے گئے ہیں۔ کیا نواز شریف کے گھر جانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟۔ وہ کیا یقین دہانی کہ جب بھی دوبارہ انتخابات ہوئے تو وہ صاف اور شفاف ہونگے اور اُن پر کسی کی انگلی نہیں اُٹھے گی؟ اور خان صاحب کے پاس وہ کیا گارنٹی ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا کم از کم اُتنی ہی سیٹیں جیتنے میں جتنی اِس بار جیتیں ہیں؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے ٹھوس جوابات تحریک انصاف کے پاس نہیں ہیں۔
بہت اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف لانگ مارچ عوامی مسائل کے حل کے لیے کرتی۔ کاش کے تحریک انصاف کا لانگ مارچ مہنگائی، بے روزگاری، انصاف اور لوشیڈنگ کے لیے ہوتا اور حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جاتا کہ جن انتخابی وعدوں کے تحت اس نے مینڈیٹ حاصل کیا وہ وعدے وفا کیا جائیں۔ اِس پورے عرصے میں عمران خان پارلیمانی سیاست سے بھی نا آشنا نظر آئے ہیں جبکہ اپوزیشن میں موجود تقریباًتمام سیاسی جماعتوں سے ان کے روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پارلیمنٹ کی صورت میں ان کے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو انتخابی اصلاحاتی عمل پر قائل کرسکتے ہیں اور حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جاسکتا کہ آئندہ الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔
مگر اب لگتا یوں ہے خان صاحب کا مقصد و محور صرف نواز شریف کو گھر بھیجنا ہے لیکن اگر نواز شریف گھر چلے بھی گئے تو مسائل حل نہ ہونگے، مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر رہ کر قانون سازی کی جائے تا کہ آئندہ انتخابات پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکے۔ لیکن سمجھ سے بالاتر کہ عمران خان صاحب اس جلدی اور اضطراب میں کیوں مبتلا ہیں۔
پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی خواہش تھی کہ تحریک انصاف سیاسی اور جمہوری نظام میں ایک ایسی تبدیلی لے کے آئے جس سے ملک میں بادشاہت اور موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور ملک حقیقی معنوں میں جمہوریت کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ تاہم اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مطالبات واضح ہونے چاہیں اور کوشش کرنی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے اسی قانون سازی کی جائے جس ملک حقیقی جمہوریت کا چہرہ دیکھ سکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔