پولیس اور میرٹ

کراچی میں امن و امان کی صورتحال بدستور خراب ہے...


Dr Tauseef Ahmed Khan August 20, 2014
[email protected]

حکومتِ سندھ رواں سال میں10ہزار پولیس اہلکاروں کو بھرتی کرے گی ۔ سندھ کابینہ نے اس ماہ کے اوائل میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کر کے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ خزانے کے صوبائی مشیر کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت، پولیس فورس، جدید آلات و ہتھیار اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے پر خاطرخواہ رقم خرچ کرے گی۔

پولیس والوں کو بلٹ پروف جیکٹس اور تیز رفتار گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ پولیس والوں کی رہائشی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات ہونگے۔ سندھ پولیس نے اہلکاروں کی تربیت کے لیے فوجی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

گزشتہ سال سے کراچی میں ہونے والی ٹارگیٹڈ آپریشن کو موثر بنانے کے لیے ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو پولیس میں بھرتی کرنے کے علاوہ پولیس والوں کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اضافے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کئی سو ریٹائرڈ فوجی اہلکار اب کراچی پولیس فورس میں شامل ہوچکے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بدستور خراب ہے۔ روزانہ ٹارگٹ کلنگ میں کئی افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس شہر میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ بھتہ نہ دینے اور سیاسی وابستگی کی بناء پر بھی لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سال جنوری سے اگست تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد 1200 کے قریب ہے جن میں سے 105 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رینجرز اور مسلح افواج کے افراد کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کراچی شہر کے تجارتی علاقے صدر، پریڈی تھانے کے ایس ایچ او غضنفر کاظمی کو شام کے وقت پرہجوم علاقے انکل سریا اسپتال کے قریب گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ قاتل موٹر سائیکل پرآئے اور اطمینان سے اپنا ہدف پورا کر کے چلے گئے۔ پولیس اب تک ملزمان کا پتہ نہیں چلاسکی۔

غضنفر کاظمی کا شمار کراچی کے ان معروف افسران میں ہوتا تھا جو کراچی میں ہونے والے مختلف آپریشنوں میں متحرک رہے ۔ گزشتہ سال کراچی پولیس اپنے ایک بہادر افسر چوہدری اسلم سے محروم ہوگئی تھی۔ چوہدری اسلم کے ساتھ کام کرنے والے ایک سی آئی ڈی افسر کی لاش کی باقیات ایک سال بعد گزشتہ ہفتے لیاری کے ایک قبرستان سے برآمد ہوئی تھیں، یوں پولیس افسران کے مسلسل قتل سے پولیس کا آپریشن کمزور ہوتا جارہا ہے۔ شہری امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی جیسے شہر میں امن و امان کا براہِ راست تعلق پولیس کی کارکردگی سے منسلک ہوتا ہے۔ کراچی پولیس پرانے کلچر میں کام کررہی ہے۔

اگرچہ اب افسران کی بھاری تعداد پولیس فورس میں شامل ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں، اسی طرح سندھ پبلک سروس کمیشن میں گریڈ 17 میں ڈی ایس پی کے عہدوں کی سفارش کرتا ہے۔ سپاہیوں اور نچلے گریڈ کے افسران کی بھرتی کے لیے شعبہ پولیس کے افسران پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں۔ کراچی پولیس کے معاملات کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس افسران اور اہلکاروں کے تقرر کے لیے طے شدہ قوائد و ضوابط پر عملدرآمد کا معاملہ برسوں پہلے فائلوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزراء کی سفارشات پر تقرریاں ہوتی ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جب سے منتخب نمایندوں نے حکومتِ سندھ کا نظام سنبھالا ہے سفارشوں کی بنیاد پر تقرریاں ہوتی ہیں۔پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ڈائریکٹ انٹری سسٹم کے تحت وزراء،اراکینِ اسمبلی اور ان کے رشتے داروں کے قریبی عزیزواقارب کو ایڈھاک بنیادوں پر ڈی ایس پی بھرتی کیا گیا۔ جام صادق کے دورِ اقتدار میں ایم کیو ایم اور دوسری اتحادی جماعتوں نے اپنے حامیوں کو نوازا۔ یہی صورتحال عبداﷲ شاہ، ارباب رحیم اور پھر قائم علی شاہ کے دورِ اقتدار میں ہوئی۔

بعض صحافی بتاتے ہیں کہ ارباب رحیم کے دورِ حکومت میں سندھ حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے درمیان پولیس میں بھرتیوں کے بارے میں فارمولہ طے ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں منتخب نمایندوں نے اپنے حامیوں کو بھرتی کرانے کے علاوہ بہت سی سیٹیں فروخت بھی کیں۔ 2008سے پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال اور زیادہ خراب ہوئی۔ تھانے فروخت ہونے کا الزام تو ہر حکومت پر لگا مگر اب ہر طرف چرچا ہونے لگا۔

کرائم رپورٹنگ کرنے والے بعض صحافیوں کے پاس ایسے ایس ایچ او کی فہرستیں موجود ہوتی ہیں جنھیں مخصوص رقم کے عوض مخصوص وقت کے لیے ایس ایچ او مقرر کیا گیا اور مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد ان افسران کو ہٹادیا گیا۔ ایک سینئر صحافی تو ان صحافیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جن کی سفارش پر ایس ایچ او مقرر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی تو سابق آئی جی پولیس واجد درانی نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے عہدوں کے تبادلوں اور تقرریوں کا اختیار نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سابق آئی جی کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ پولیس فورس میں 40 فیصد سے زائد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ یوں پولیس فورس مؤثر طور پر فرائض انجام نہیں دیتی۔ کراچی آپریشن کے دوران بار بار یہ خبریں اخبارات کی زینت بنیں کہ اہم ملزموں کی گرفتاری کے لیے پولیس آپریشن اس لیے ناکام ہوئے کہ پولیس فورس میں موجود ان ملزموں کے ہمدردوں نے انھیں پہلے سے اطلاع دیدی تھی۔

کراچی پولیس کے معروف افسر چوہدری اسلم کی کار پر لیاری ایکسپریس وے پر حملے کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ طالبان کو چوہدری اسلم کے اس راستے کی اطلاع متعلقہ پولیس فورس کے کسی اہلکار سے ملی تھی۔ یوں پولیس فورس میں تطہیر کے ساتھ نئے اہلکاروں کے تقرر کے معیار پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پولیس کا قانون 1886 میں نافذ ہوا تھا۔ یہ قانون ایک مؤثر قانون تھا۔ وقت کے مطابق اس میں تبدیلیوں کی ضرورت تھی مگر برسرِ اقتدار حکومتوں نے اس اہم مسئلے پر توجہ نہیں دی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں پولیس ریفارمز پر سنجیدگی سے کام ہوا اور 2002 میں نیا پولیس آرڈر نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کو علیحدہ کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کی نگرانی کے لیے ضلع، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر سیفٹی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ان سیفٹی کمیشن میں منتخب نمایندوں، جرائم اور سماجی امور کے ماہرین، وکلاء اور خواتین وغیرہ کی نمایندگی کا فیصلہ ہوا۔ پولیس میں ایک جدید نظام قائم کرنے کی ایک کوشش ہوئی مگر یہ سیفٹی کمیشن قائم نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قانون کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا اور نیا قانون نہیں بنایا۔

جرمنی کی حکومت نے 3 سال قبل سندھ پولس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کراچی پولیس کے تعاون سے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت 2 ہزار پولیس افسران اور اہلکاروں کی تربیت کی گئی۔ جرمن حکومت کے تعاون سے پولیس افسران کی تربیت کے لیے ایک جدید نصاب تیار کیا گیا ہے۔ یہ نصاب پولیس کے تربیتی اداروں میں بھی پڑھایا جارہا ہے۔ جدید تربیت پانے والے پولیس افسران کو ماڈل پولیس اسٹیشن بنا کر تعینات کیا جائے تو ان پولیس کی صلاحیتوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ سندھ میں اس وقت مستقل آئی جی پولیس نہیں ہے۔

سابق آئی جی نے پولیس کے لیے خریدی جانے والی گاڑیوں کے بارے میں بااثر افراد کے دباؤ کو قبول نہیں کیا تھا، اس جرم کی پاداش میں انھیں یہ اہم عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اب اگریہ 2 ہزار آسامیاں فروخت ہوئیں اور میرٹ کو پامال کیا گیا تو کراچی پولیس مزید غیر موثر ہوجائے گی۔ ان اہلکاروں کے تقرر کو سندھ پبلک سروس کمیشن یا کسی خودمختار اتھارٹی سے منسلک کرنا چاہیے۔ میرٹ پر پولیس اہلکاروں کی بھرتی کا تجربہ کرکے امن و امان کو بہتر بنانے کے دعوے کو عملی شکل دی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں