امن کا دروازہ
قرائن یہی بتاتے ہیں کہ عمران خان اورطاہرالقادری پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی قیادت سے مذاکرات نہیں کرینگے
August 20, 2014
MANSEHRA:
ڈاکٹر طاہر القادری نے جنوری 2013میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں دھرنا دیا تھا' اس وقت کیا ہوا تھا' صدر آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے اس بحران کو ٹال دیا تھا' لیکن آصف زرداری نے جو ذہانت دکھائی' وہ اپنی جگہ رہی لیکن اس وقت میاں نواز شریف نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا' آپ کو یاد ہو گا کہ انھوں نے رائیونڈ لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر اپوزیشن لیڈروں کا اجلاس منعقد کیا تھا.
اس اجلاس میں ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے سے پیدا ہونے والے بحران پر غور کیا گیا اور پھر سب نے جمہوریت کے حق میں کھڑا ہونے کا اعلان کیا' یہ پیغام جہاں پہنچنا تھا' وہاں پہنچ گیا' ڈاکٹر صاحب نے بڑے پرامن انداز میں اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا' یوں پیپلز پارٹی کے خلاف اٹھنے والا طوفان بغیر کسی کو نقصان پہنچائے ٹل گیاجب کہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی میلہ لوٹ کر اپنے پیروکاروں کی نظر میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔
اس واقعے کو تقریباً ڈیڑھ برس ہو گیا ہے' اب ایک بار پھر اسلام آباد میں طوفان ایوان اقتدار سے ٹکرانے کو ہے لیکن آج سچی بات ہے کہ آصف علی زرداری نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان کے دور حکومت میں میاں نواز شریف نے کیا تھا۔میرا ذاتی خیال ہے کہ ان نازک اور سنگین حالات میں آصف زرداری کو پاکستان میں موجود ہونا چاہیے تھا' وہ بلاول ہائوس لاہور آتے' یہاں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے اور وہی کردار ادا کرتے جو میاں نواز شریف نے ان کے دور حکومت میں کیا تھا تو آج صورت حال میں مثبت تبدیلی آ چکی ہوتی لیکن وہ ان گھمبیر حالات کی بو سونگھ کر 14اگست سے پہلے امریکا چلے گئے اور وہاں سے دبئی آ گئے ہیں۔
انھوں نے دبئی میں پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو طلب کر لیا ہے' پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ منظر پر موجود ہیں لیکن ان کی سرگرمیوں میں جارحانہ پن نہیں ہے' پیپلز پارٹی پنجاب کی لیڈر شپ دلی طور پر چاہتی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو سبق ملنا چاہیے لیکن آصف زرداری کی پالیسی کے باعث مجبوراً جمہوریت کے ساتھ ہیں۔
قرائن یہی بتاتے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی قیادت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ آصف زرداری ملک سے باہر ہیں' مولانا فضل الرحمن نے بھی عمران یا طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کی بات نہیں کی' اے این پی تو خیر کسی کھاتے میں ہی نہیں' آجا کے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور ایم کیو ایم معاملات حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی سنی نہیں جا رہی۔
ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کاروں کے پاس حکومت کی جانب سے کوئی مینڈیٹ نہیں ہے' اگر حکومت مذاکرات کاروں کو واضح مینڈیٹ دینے کا اعلان کرتی تو فریق ثانی کو بھی پتہ ہوتا کہ وہ حکومت سے کیا لے سکتے ہیں اور اسے کیا دے سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے صرف باتیں ہیں' اس نے مینڈیٹ کی حامل کمیٹی تشکیل نہیں دی' ایسے میں مذاکرات کار بیچارے کیا کر سکتے ہیں۔ یوں بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا گیا۔
ملک میں جو سنگین حالات پیدا ہو گئے ہیں' ان میں غیر معمولی سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہزاروں لوگ جب پانچ دن مسلسل دھرنا دیے رہیں تو انھیں بھی سراسر غلط قرار دینا دانشمندی نہیں ہے' مسلم لیگ ن میں بڑے ذہین فطین سیاستدان' مشیر اور نجانے کیا کیا موجود ہیں لیکن انھوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے' وہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کی شکل میں پاکستان کے عوام کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں' ن لیگ والے طاہر القادری کو جن خطابات و القابات سے نوازتے رہے' ان سے سب لوگ آگاہ ہیں' رانا مشہود صاحب ہوں' خواجہ سعد رفیق ہوں یا کوئی' سارے ڈاکٹر طاہر القادری کو کینیڈی بابا' مولوی کنٹینر اور نجانے کیا کیا کہتے رہے۔
اس طرح عمران خان کو سونامی خان اور طوفان خان وغیرہ کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا جاتا رہا' سیاست میں اس قسم کا طرز کلام و طرز تکلم مسلم لیگ ن کے چھوٹے بڑے رہنمائوں اور اس کے حواری قلمکاروں نے اختیار کیا' اس قسم کی ماجھا ساجھا اپروچ کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا' آج ن لیگی طاہر القادری کو علامہ صاحب کہہ کر بڑی لجاجت سے مذاکرات کی دہائی دے رہے ہیں۔ عمران خان سے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے' اب یہ خیرات کیوں بٹنا شروع ہوئی' اس کا مطلب جاننے کے لیے پنجابی محاورے کو پورا پڑھ لیا جائے تو سمجھ آ جائے گی۔
ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو کیا' اسے حکومت یا جمہوریت کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔میرا خیال ہے کہ حکومت اس بحران سے نکل بھی گئی تو پھر نیا بحران پیدا ہوگا۔
جمہوریت کا مطلب چند افراد کی حکومت نہیں ہوتا' اس میں آئین کو مقدم رکھا جاتا ہے' ریاستی ادارے آزادانہ کام کرتے ہیں' اگر طاہر القادری اور عمران خان کو حقارت سے دھتکارنے کے بجائے ان سے مذاکرات کیے جاتے تو آج حالات یہ نہ ہوتے' ادھر اپوزیشن جماعتوں کی بددلی کی وجہ بھی یہی ہے کہ انھیں ٹشو پیپر سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے۔اگر حکمران یہ وقت آنے سے پہلے ہی اپنے طرز حکمرانی میں بہتری لاتے تو یہ حالات نہ ہوتے' بہر حال جو ہو گیا سو ہو گیا' اب بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو خود مذاکرات کی دعوت دیں تو ڈیڈ لاک کو توڑا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم خود مذاکرات چاہے نہ کریں لیکن پیشکش براہ راست ان کی طرف سے ہونی چاہیے' وہ باقاعدہ مینڈیٹ کا حامل اعلیٰ سیاسی شخصیات پر مشتمل پینل تشکیل دیں' عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو وزیراعظم ہائوس میں مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جائے' بند گلی سے باہر نکلنے کے لیے یہ دروازہ موجود ہے لیکن اس دروازے کی چابی وزیراعظم صاحب کے پاس ہے' پاکستان اور جمہوریت کو بچانے کے لیے یہ دروازہ کھول دینا چاہیے' دیر ہو گئی تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ یاد رکھیں خون سے امن قائم ہوتا ہے نہ جمہوریت...