پاکستان کی برآمدات ایک تجزیہ
یورپی خریداروں کے تقاضوں اور شرائط کے مطابق پروڈکٹس تیار کی اور کوالٹی سرٹیفیکٹس یا تو حاصل کیے ۔۔۔
MINGORA:
یہ امر کسی حد تک باعث اطمینان ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی برآمدات برائے سال 2013-14ء میں 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پچھلے سال کی نسبت اس میں 671 ملین روپے ڈالر کا اضافہ پایا گیا گویا ہماری برآمدی مصنوعات نے پچھلے سالوں کے پیداواری اہداف کو برقرار رکھا۔
برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا ہے جو کہ 13 ارب ڈالر یا 55% کے قریب ہے۔ ہماری یہ صنعت جو کہ معیشت کے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے، برسہا برس سے مروجہ پیداواری طریقہ کار، پلانٹ اور مشینریز پر کام کر رہی ہے۔ جس کے لیے ایک مربوط ڈھانچہ اور سپلائی چین پہلے سے موجود ہے۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپی یونین کی مارکیٹس میں ہماری برآمدات 14.5 فیصد کے اضافہ سے 7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایکسپورٹرز نے اپنے پراڈکٹس کی کوالٹی بڑھانے پر زور دیا۔
یورپی خریداروں کے تقاضوں اور شرائط کے مطابق پروڈکٹس تیار کی اور کوالٹی سرٹیفیکٹس یا تو حاصل کیے یا اور بہتر کیے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری پروڈکٹس کا شمار ہائی اینڈ درجہ بندی میں نہیں آتا۔ پروڈکٹس میں نئی جدتیں تلاش کرنا اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری کے لیے تجربات پر آمادہ متنوع سرمایہ کاری رجحانات کی ضرورت ہے۔ اور اگر برآمدی ہدف کو 30 سے 40 یا 50 ارب تک پہنچانا مقصود ہو تو موجودہ پیداواری طریقہ کار میں تیز تر تبدیلیوں اور زیادہ سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔
حال ہی میں چین کی ایک بڑی کمپنی نے پاکستانی گارمنٹ مینوفیکچرنگ کمپنی کے تعاون سے فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ جو کہ موٹروے بیلٹ تھری پر واقع ہے وہاں ایک بڑا علاقہ حاصل کیا ہے جہاں وہ یورپی یونین کے لیے ایکسپورٹ پراڈکٹ باہمی تعاون سے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے۔
راقم الحروف کو چند سال قبل ایک ٹریڈ پروموشن پروگرام کے سلسلے میں جنوبی کوریا جانے کا اتفاق ہوا، جس کا اہتمام کورین انٹرنیشنل کو آپریشن ایجنسی (KOICA) نے کیا تھا اور پاکستانی ڈیلیگیشن کو اپنی فری ٹریڈ زونز، ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹس کے دورہ کا اہتمام کیا۔ یہ امر قارئین کے لیے حیرت کا باعث ہو گا کہ کوریا ایک کپاس پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے مگر صنعتی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں دنیا کے صف اول کی ممالک میں شامل ہے۔
کیمیکل فائبر، سینتھیٹک فائبر کے موثر استعمال اور ریسرچ R+D کو فوقیت دینے کی بنا پر کورین ہائی ویلیو پراڈکٹس جو اسمارٹ فائبر، سپر فائبر، نینو فائبر، لوہاس فائبر کے نام سے جانی جاتی ہیں، نے کورین ٹیکسٹائل برآمدی صنعت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ وہاں R+D کے لیے 8 بڑے ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی ترقی کے انسٹیٹیوٹ قائم ہیں اور ہمہ وقت بہتر سے بہتر پروڈکٹ لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ہماری برآمدات میں دوسرا بڑا حصہ غذا سے تیار شدہ مصنوعات کا ہے جو تقریبا ً 19% یعنی 4.7 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ پاکستان کی برآمدی صنعت میں ہمیں اُمید کی روشن کرن پاکستان کی انجینئرنگ اور دوسری تیار شدہ مصنوعات کی ایکسپورٹ میں مثبت اور مسلسل اضافہ ہے جو کہ اس سال 2.8 ارب ڈالر یا 11% کے قریب رہا۔ ان میں نمایاں حصہ پاکستان کے آلات جراحی کا ہے۔ سیالکوٹ کی یہ صنعت دنیا بھر میں ایک امتیازی پہچان رکھتی ہے۔ دوسری پروڈکٹس میں ٹرانسپورٹ آٹو پارٹس، کھیلوں کا سامان، کٹلری شامل ہیں۔
اگر ہم دیگر پیداواری پروڈکٹس کی بات کریں تو ایک حیران کن پروڈکٹ کیٹیگری پاکستان کیمیکل انڈسٹری کی ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ ایکسپورٹرز بہت زیادہ پیش منظر میں نہیں رہتے۔ اپنے 4 سالہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پوسٹنگ کے دوران راقم الحروف نے کیمیکل برآمدکنندگان کو بہت کم سامنے آ کر اپنے مسائل پر بات کرتے دیکھا اور نہ ہی وہ خصوصی طور پر بیرونی نمائش میں حصہ لینے کے خواہش مند نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ کمیونیکیشن گیپ کا ہونا ہو۔ لیکن خوش آیند امر یہ ہے کہ یہ صنعت خاموشی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے۔ اور کیمیکلز کی برآمدات ایک ارب ڈالر کے ارد گرد رہتی ہیں۔
دنیا کی گلوبل کیمیکل انڈسٹری کا حجم تقریباً 03 ٹریلین ڈالر ہے جس میں بنیادی کیمیکلز، لائف سائنسز، خصوصی کیمیکلز اور کنزیومر کیمیکلز شامل ہیں۔جیمز اور جیولری صنعت کی برآمدات کا اتار چڑھاؤ کچھ پیچیدہ ہے۔ اس کی برآمد 2011-12ء میں تقریباً 1 ارب ڈالر کو چھونے کے قریب تھیں مگر پھر یہ مسائل کا شکار ہو گئی۔ اور کچھ عرصے درآمدات پر پابندی رہی۔
گورنمنٹ نے اس صنعت کی درآمد اور برآمد کے لیے ایس آر اوز جاری کیے تاہم 2013-14ء میں برآمدات تقریباً 330 ملین ڈالر کے قریب رہیں۔ مگر منرلز اور میٹیلز کی کیٹیگری میں انتہائی حوصلہ افزا اضافہ پیٹرولیم مصنوعات میں دیکھنے میں آیا جو کہ 720 ملین ڈالر کے قریب رہیں جب کہ پچھلے سال یہ محض 28 ملین ڈالر تھیں اس پروڈکٹ کیٹیگری کو مزید توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ گزرے سال چمڑے سے متعلق تمام مصنوعات مثلاً گارمنٹ، دستانے، جوتے اور دوسری اشیاء میں اضافے کا رجحان پایا گیا۔
اگر ہم پاکستان کی برآمدی مارکیٹس کا جائزہ لیں تو ایشیا سر فہرست ہے۔ جس کو 11 ارب ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد یورپ 7 ارب کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی اور لاطینی امریکا کی مارکیٹوں کو 5 ارب سے قریب تر جب کہ افریقہ اور اوشیانا ریجن کا حصہ 2 ارب کے قریب ہے۔ انفرادی ممالک کی درجہ بندی کے لحاظ سے یو ایس اے (امریکا) بہرحال ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ جو کہ تقریباً 4 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اگرچہ کہ اس سال امریکا نے ترقی پذیر ممالک کو اپنی GSP سہولت کو توسیع نہیں دی۔ اس کے باوجود یہ مارکیٹ ہمارے ایکسپورٹرز کے لیے انتہائی پسندیدہ ہے جس کے لیے بہت زیادہ مارکیٹنگ کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ TDAP کے نمائشوں کے کیلنڈر سال میں سب سے زیادہ شرکت یو ایس اے میں کی جاتی ہے۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس کو 2.6 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں مگر پچھلے سال سے کچھ کمی واقع ہوئی۔ وہ دوسرے انفرادی ممالک جن کو 1 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ کی برآمدات ہوئیں ان میں متحدہ عرب امارت، برطانیہ، افغانستان، جرمنی شامل ہیں۔ جب کہ وہ ممالک جن کو ہماری برآمدات 500 ملین ڈالر سے زائد رہیں ان میں بنگلہ دیش، اٹلی، اسپین اور فرانس شامل ہیں۔
یہ بات قدرِ مایوسی کی ہے کہ ہماری دس بڑی برآمدی مارکیٹوں میں جاپان شامل نہیں حالانکہ جاپانی مارکیٹ بہت ہائی ویلیو ایڈڈ مارکیٹ شمار کی جاتی ہے اور آپ کے بہترین ویلیو۔ ایڈڈ پروڈکٹ کے بہت اچھے دام ادا کرتی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے جاپان کی دو آرگنائیزیشنز Jetro اور JICA نے پاکستان کو بے انتہا تکنیکی معاونت فراہم کی تا کہ پاکستانی ایکسپورٹ جاپان میں بڑھوائی جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے کئی سالوں سے ان کے ایڈوائیزرز کی خدمات سمیڈا اور ٹی ڈیپ کو حاصل ہیں جو بڑی سنجیدگی سے مختلف پروموشنل پلان پر کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں JICA کے ایڈوائیزر ٹیکسٹائل، پھلوں سبزیوں اور سرجیکل آلات کے ایکسپورٹر کو جاپان کے مطالعاتی اور مارکیٹ اسٹڈی دورے پر لے کر گئے اور ٹیکسٹائل کے جاپانی ٹیکنیکل ایڈوائیزر نے تین روزہ ورکشاپ کے ذریعے پاکستانی ٹیکنیکل افراد کو جاپان کے کوالٹی معیارات کے بارے میں آگاہ کیا۔ اگر چہ کچھ ایکسپورٹرز جاپان کی مارکیٹ میں ابتدائی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے مثلاً نشاط گروپ اور گل احمد مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ سنجیدگی سے جاپانی مارکیٹ میں جگہ بنانے کی کوشش کی جائے۔
اس وقت جاپان دنیا سے تقریباً چالیس ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل اور گارمنٹ کی مصنوعات درآمد کرتا ہے جس میں سے چین کا حصہ 28 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کو یقینی طور پر اس مارکیٹ میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں دو انتہائی محنتی اور اچھی شہرت کے حامل پاکستانی کمرشل سیکریٹری اور کمرشل کونسلرز کی ٹوکیو اور اوساکا میں تعیناتی سے اس مارکیٹ میں روابط بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس وقت برآمدکنندگان کا خصوصی فوکس یورپی یونین ہے اس حوالہ سے سی بی آئی (CBI) جو کہ ہالینڈ کی گورنمنٹ آرگنائیزیشن ہے جو ترقی پذیر ممالک کو یورپی یونین برآمدات بڑھانے میں مدد کرتی ہے اس کا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا۔ اس آرگنائیزیشن نے پاکستان میں بے انتہا کام کیا اور کر رہی ہے۔ نہ صرف تکنیکی سیمینار اور ورکشاپ پاکستان کے سارے صنعتی شہروں میں منعقد کرائے بلکہ یہ آرگنائیزیشن درمیانی اور چھوٹی سطح کی صنعتوں کی نشاندہی کرتی ہے اور ان کے لیے سال میں دو دفعہ ہالینڈ میں تقریباً ہفتے بھر کی تربیت کی جاتی ہے اور انھیں یورپ کے مارکیٹ کی تقاضوں اور رجحانات اور خریداروں کے ڈیٹا بیس سے روشناس کروایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یورپ میں منعقدہ نمائشوں میں ان کی شرکت کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ پچھلے سال 2013 ء میں یہ ٹریڈ پروموشن پروگرام فروری اور نومبر میں منعقد ہوا۔CBI ابھی تک ٹیکسٹائل، سرجیکل، جیم جیولری، غذائی صنعت کے ایکسپورٹز کو تربیت دے چکی ہے۔ تقریباً تمام نمایاں ایکسپورٹرز اس ادارے کی خدمات کے معترف ہیں اور مستفید ہو چکے ہیں۔ اس وقت CBI اپنے 4 سال انجینئرنگ پروڈکٹس کی ایکسپورٹ پروموش کے لیے کام کر رہی ہے۔ جس میں TDAP کے ساتھ SMEDA، پاکستان فاؤنڈری ایسوسی ایشن، آٹوپارٹس ایسوسی ایشن، انجینئرنگ ڈولپمنٹ بورڈ شامل ہیں اور امید ہے کہ اس سے انجینئرنگ کی صنعت کو مزید ترقی دینے میں مدد ملے گی۔
یہ امر کسی حد تک باعث اطمینان ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی برآمدات برائے سال 2013-14ء میں 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پچھلے سال کی نسبت اس میں 671 ملین روپے ڈالر کا اضافہ پایا گیا گویا ہماری برآمدی مصنوعات نے پچھلے سالوں کے پیداواری اہداف کو برقرار رکھا۔
برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا ہے جو کہ 13 ارب ڈالر یا 55% کے قریب ہے۔ ہماری یہ صنعت جو کہ معیشت کے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے، برسہا برس سے مروجہ پیداواری طریقہ کار، پلانٹ اور مشینریز پر کام کر رہی ہے۔ جس کے لیے ایک مربوط ڈھانچہ اور سپلائی چین پہلے سے موجود ہے۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپی یونین کی مارکیٹس میں ہماری برآمدات 14.5 فیصد کے اضافہ سے 7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایکسپورٹرز نے اپنے پراڈکٹس کی کوالٹی بڑھانے پر زور دیا۔
یورپی خریداروں کے تقاضوں اور شرائط کے مطابق پروڈکٹس تیار کی اور کوالٹی سرٹیفیکٹس یا تو حاصل کیے یا اور بہتر کیے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری پروڈکٹس کا شمار ہائی اینڈ درجہ بندی میں نہیں آتا۔ پروڈکٹس میں نئی جدتیں تلاش کرنا اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری کے لیے تجربات پر آمادہ متنوع سرمایہ کاری رجحانات کی ضرورت ہے۔ اور اگر برآمدی ہدف کو 30 سے 40 یا 50 ارب تک پہنچانا مقصود ہو تو موجودہ پیداواری طریقہ کار میں تیز تر تبدیلیوں اور زیادہ سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔
حال ہی میں چین کی ایک بڑی کمپنی نے پاکستانی گارمنٹ مینوفیکچرنگ کمپنی کے تعاون سے فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ جو کہ موٹروے بیلٹ تھری پر واقع ہے وہاں ایک بڑا علاقہ حاصل کیا ہے جہاں وہ یورپی یونین کے لیے ایکسپورٹ پراڈکٹ باہمی تعاون سے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے۔
راقم الحروف کو چند سال قبل ایک ٹریڈ پروموشن پروگرام کے سلسلے میں جنوبی کوریا جانے کا اتفاق ہوا، جس کا اہتمام کورین انٹرنیشنل کو آپریشن ایجنسی (KOICA) نے کیا تھا اور پاکستانی ڈیلیگیشن کو اپنی فری ٹریڈ زونز، ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹس کے دورہ کا اہتمام کیا۔ یہ امر قارئین کے لیے حیرت کا باعث ہو گا کہ کوریا ایک کپاس پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے مگر صنعتی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں دنیا کے صف اول کی ممالک میں شامل ہے۔
کیمیکل فائبر، سینتھیٹک فائبر کے موثر استعمال اور ریسرچ R+D کو فوقیت دینے کی بنا پر کورین ہائی ویلیو پراڈکٹس جو اسمارٹ فائبر، سپر فائبر، نینو فائبر، لوہاس فائبر کے نام سے جانی جاتی ہیں، نے کورین ٹیکسٹائل برآمدی صنعت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ وہاں R+D کے لیے 8 بڑے ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی ترقی کے انسٹیٹیوٹ قائم ہیں اور ہمہ وقت بہتر سے بہتر پروڈکٹ لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ہماری برآمدات میں دوسرا بڑا حصہ غذا سے تیار شدہ مصنوعات کا ہے جو تقریبا ً 19% یعنی 4.7 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ پاکستان کی برآمدی صنعت میں ہمیں اُمید کی روشن کرن پاکستان کی انجینئرنگ اور دوسری تیار شدہ مصنوعات کی ایکسپورٹ میں مثبت اور مسلسل اضافہ ہے جو کہ اس سال 2.8 ارب ڈالر یا 11% کے قریب رہا۔ ان میں نمایاں حصہ پاکستان کے آلات جراحی کا ہے۔ سیالکوٹ کی یہ صنعت دنیا بھر میں ایک امتیازی پہچان رکھتی ہے۔ دوسری پروڈکٹس میں ٹرانسپورٹ آٹو پارٹس، کھیلوں کا سامان، کٹلری شامل ہیں۔
اگر ہم دیگر پیداواری پروڈکٹس کی بات کریں تو ایک حیران کن پروڈکٹ کیٹیگری پاکستان کیمیکل انڈسٹری کی ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ ایکسپورٹرز بہت زیادہ پیش منظر میں نہیں رہتے۔ اپنے 4 سالہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پوسٹنگ کے دوران راقم الحروف نے کیمیکل برآمدکنندگان کو بہت کم سامنے آ کر اپنے مسائل پر بات کرتے دیکھا اور نہ ہی وہ خصوصی طور پر بیرونی نمائش میں حصہ لینے کے خواہش مند نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ کمیونیکیشن گیپ کا ہونا ہو۔ لیکن خوش آیند امر یہ ہے کہ یہ صنعت خاموشی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے۔ اور کیمیکلز کی برآمدات ایک ارب ڈالر کے ارد گرد رہتی ہیں۔
دنیا کی گلوبل کیمیکل انڈسٹری کا حجم تقریباً 03 ٹریلین ڈالر ہے جس میں بنیادی کیمیکلز، لائف سائنسز، خصوصی کیمیکلز اور کنزیومر کیمیکلز شامل ہیں۔جیمز اور جیولری صنعت کی برآمدات کا اتار چڑھاؤ کچھ پیچیدہ ہے۔ اس کی برآمد 2011-12ء میں تقریباً 1 ارب ڈالر کو چھونے کے قریب تھیں مگر پھر یہ مسائل کا شکار ہو گئی۔ اور کچھ عرصے درآمدات پر پابندی رہی۔
گورنمنٹ نے اس صنعت کی درآمد اور برآمد کے لیے ایس آر اوز جاری کیے تاہم 2013-14ء میں برآمدات تقریباً 330 ملین ڈالر کے قریب رہیں۔ مگر منرلز اور میٹیلز کی کیٹیگری میں انتہائی حوصلہ افزا اضافہ پیٹرولیم مصنوعات میں دیکھنے میں آیا جو کہ 720 ملین ڈالر کے قریب رہیں جب کہ پچھلے سال یہ محض 28 ملین ڈالر تھیں اس پروڈکٹ کیٹیگری کو مزید توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ گزرے سال چمڑے سے متعلق تمام مصنوعات مثلاً گارمنٹ، دستانے، جوتے اور دوسری اشیاء میں اضافے کا رجحان پایا گیا۔
اگر ہم پاکستان کی برآمدی مارکیٹس کا جائزہ لیں تو ایشیا سر فہرست ہے۔ جس کو 11 ارب ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد یورپ 7 ارب کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی اور لاطینی امریکا کی مارکیٹوں کو 5 ارب سے قریب تر جب کہ افریقہ اور اوشیانا ریجن کا حصہ 2 ارب کے قریب ہے۔ انفرادی ممالک کی درجہ بندی کے لحاظ سے یو ایس اے (امریکا) بہرحال ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ جو کہ تقریباً 4 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اگرچہ کہ اس سال امریکا نے ترقی پذیر ممالک کو اپنی GSP سہولت کو توسیع نہیں دی۔ اس کے باوجود یہ مارکیٹ ہمارے ایکسپورٹرز کے لیے انتہائی پسندیدہ ہے جس کے لیے بہت زیادہ مارکیٹنگ کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ TDAP کے نمائشوں کے کیلنڈر سال میں سب سے زیادہ شرکت یو ایس اے میں کی جاتی ہے۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس کو 2.6 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں مگر پچھلے سال سے کچھ کمی واقع ہوئی۔ وہ دوسرے انفرادی ممالک جن کو 1 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ کی برآمدات ہوئیں ان میں متحدہ عرب امارت، برطانیہ، افغانستان، جرمنی شامل ہیں۔ جب کہ وہ ممالک جن کو ہماری برآمدات 500 ملین ڈالر سے زائد رہیں ان میں بنگلہ دیش، اٹلی، اسپین اور فرانس شامل ہیں۔
یہ بات قدرِ مایوسی کی ہے کہ ہماری دس بڑی برآمدی مارکیٹوں میں جاپان شامل نہیں حالانکہ جاپانی مارکیٹ بہت ہائی ویلیو ایڈڈ مارکیٹ شمار کی جاتی ہے اور آپ کے بہترین ویلیو۔ ایڈڈ پروڈکٹ کے بہت اچھے دام ادا کرتی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے جاپان کی دو آرگنائیزیشنز Jetro اور JICA نے پاکستان کو بے انتہا تکنیکی معاونت فراہم کی تا کہ پاکستانی ایکسپورٹ جاپان میں بڑھوائی جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے کئی سالوں سے ان کے ایڈوائیزرز کی خدمات سمیڈا اور ٹی ڈیپ کو حاصل ہیں جو بڑی سنجیدگی سے مختلف پروموشنل پلان پر کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں JICA کے ایڈوائیزر ٹیکسٹائل، پھلوں سبزیوں اور سرجیکل آلات کے ایکسپورٹر کو جاپان کے مطالعاتی اور مارکیٹ اسٹڈی دورے پر لے کر گئے اور ٹیکسٹائل کے جاپانی ٹیکنیکل ایڈوائیزر نے تین روزہ ورکشاپ کے ذریعے پاکستانی ٹیکنیکل افراد کو جاپان کے کوالٹی معیارات کے بارے میں آگاہ کیا۔ اگر چہ کچھ ایکسپورٹرز جاپان کی مارکیٹ میں ابتدائی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے مثلاً نشاط گروپ اور گل احمد مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ سنجیدگی سے جاپانی مارکیٹ میں جگہ بنانے کی کوشش کی جائے۔
اس وقت جاپان دنیا سے تقریباً چالیس ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل اور گارمنٹ کی مصنوعات درآمد کرتا ہے جس میں سے چین کا حصہ 28 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کو یقینی طور پر اس مارکیٹ میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں دو انتہائی محنتی اور اچھی شہرت کے حامل پاکستانی کمرشل سیکریٹری اور کمرشل کونسلرز کی ٹوکیو اور اوساکا میں تعیناتی سے اس مارکیٹ میں روابط بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس وقت برآمدکنندگان کا خصوصی فوکس یورپی یونین ہے اس حوالہ سے سی بی آئی (CBI) جو کہ ہالینڈ کی گورنمنٹ آرگنائیزیشن ہے جو ترقی پذیر ممالک کو یورپی یونین برآمدات بڑھانے میں مدد کرتی ہے اس کا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا۔ اس آرگنائیزیشن نے پاکستان میں بے انتہا کام کیا اور کر رہی ہے۔ نہ صرف تکنیکی سیمینار اور ورکشاپ پاکستان کے سارے صنعتی شہروں میں منعقد کرائے بلکہ یہ آرگنائیزیشن درمیانی اور چھوٹی سطح کی صنعتوں کی نشاندہی کرتی ہے اور ان کے لیے سال میں دو دفعہ ہالینڈ میں تقریباً ہفتے بھر کی تربیت کی جاتی ہے اور انھیں یورپ کے مارکیٹ کی تقاضوں اور رجحانات اور خریداروں کے ڈیٹا بیس سے روشناس کروایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یورپ میں منعقدہ نمائشوں میں ان کی شرکت کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ پچھلے سال 2013 ء میں یہ ٹریڈ پروموشن پروگرام فروری اور نومبر میں منعقد ہوا۔CBI ابھی تک ٹیکسٹائل، سرجیکل، جیم جیولری، غذائی صنعت کے ایکسپورٹز کو تربیت دے چکی ہے۔ تقریباً تمام نمایاں ایکسپورٹرز اس ادارے کی خدمات کے معترف ہیں اور مستفید ہو چکے ہیں۔ اس وقت CBI اپنے 4 سال انجینئرنگ پروڈکٹس کی ایکسپورٹ پروموش کے لیے کام کر رہی ہے۔ جس میں TDAP کے ساتھ SMEDA، پاکستان فاؤنڈری ایسوسی ایشن، آٹوپارٹس ایسوسی ایشن، انجینئرنگ ڈولپمنٹ بورڈ شامل ہیں اور امید ہے کہ اس سے انجینئرنگ کی صنعت کو مزید ترقی دینے میں مدد ملے گی۔