بس خاموشی اور سناٹا…
امریکا کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ جب افغانستان میں دو طاقت ور لوگ ایک کرسی کے لیے لڑ رہے تھے۔ ۔۔۔۔
SIALKOT:
آنکھیں بند کر لینے سے اگر طوفان نہیں آئے گا تو آپ کی مرضی ہے، آپ رائے ونڈ میں سر کے نیچے دو تکیے لگا کر سوئیں یا پھر آپ بنی گالا میں سر کے اوپر ایک تکیہ لگا کر سوئیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جنھیں آنا ہوتا ہے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کنٹینر میں سو رہے ہیں، اسٹیج کے نیچے سر دبایا ہوا ہے یا پھر مری کی ٹھنڈی ہوائوں نے آپ کی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ طوفان آنے سے پہلے سمندر میں خاموشی ہوتی ہے۔
طوفان کی یہ ہی پہچان ہمارے یہاں محاوروں میں بھی عام ہے۔ لیکن اس وقت تو شور برپا ہے۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے تو پھر ''قبلہ'' کون خاموش ہے؟ جو ہمیشہ خاموشی سے طوفان برپا کر دیتا ہے اور پھر سونامی کی شکل بن جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ جب کبھی کوئی آفت آنے والی ہوتی ہے تو چرند پرند شور مچانے لگ جاتے ہیں۔ میری دادی کہا کرتی تھیں کہ انھیں ہم سے پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ تو میں کیا سمجھوں؟ میں سمجھوں یا نہ سمجھوں لیکن آپ ضرور سمجھ گئے ہونگے کہ کون سا طوفان خاموش ہے اور وہ کون ہے جسے سب معلوم ہو گیا ہے اور وہ شور مچا رہا ہے۔
پلک جھپکتے میں ہی اتنی تبدیلیاں ہو رہی ہیں کہ نہ کانوں کو سکون ہے اور نہ آنکھوں کو۔ ابھی ایک بیان کانوں سے نکل کر دماغ کی رگوں میں بسا نہیں ہوتا کہ دوسرا انکشاف اُس کے پیچھے پیچھے دماغ کی بتی گُل کر دیتا ہے۔ ایسے میں لفظوں اور ہندسوں کو ایک ساتھ کرنے میں وقت ہی نہیں مل پاتا۔ میچ جاری ہے۔ لیکن اس سیاست کے میچ میں تمام ٹیمیں ایک ہی وقت میں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے دو ٹیمیں آپس میں ٹکرا جائیں اُس کے بعد اگلی کی باری آئے گی۔ یہاں سب اپنا اپنا کھیل ایک ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔
بظاہر میدان میں بھلے اس وقت آپ کو صرف دو یا تین ٹیمیں نظر آئیں لیکن سب کھیل رہے ہیں اور بھر پور کھیل رہے ہیں۔ کوئی کمیٹی بنا کر، کوئی کھانا دے کر، کوئی کھانا بانٹ کر، کوئی نعرے لگا کر، کوئی گلے لگا کر اور کوئی تردیدی بیان جاری کر کے۔ لیکن سب میں ایک بات مشترک ہے کہ کس طرح خود کو آگے لانا ہے۔ اس شور میں جب سب اپنا اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ کھیل کا میدان سجانے والا کون ہے۔ یا پھر وہ ہوتے ہوئے بھی خاموش ہے؟
کسی کی خاموشی پر یوں ہی حال کا ایک قصہ یاد آ گیا۔ جس طرح سے ہمارے یہاں ہفتے میں ایک دن ترجمان وزارِت خارجہ پریس بریفنگ کرتی ہیں، اسی طرح امریکا میں بھی ہوتا ہے۔ یعنی یہ ڈرامہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ جس میں سنجیدہ انداز میں مزاحیہ ڈرامہ پیش کرتے ہوئے اداکار صرف وہ ہی سنجیدہ لائن پڑھتا ہے جس کا ڈائریکٹر نے حکم دیا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی بہت رحم آتا ہے کہ بیچارے کتنی محنت سے جھوٹ کو بھی سچ بنا کر ہمیں چائے بسکٹ کے ساتھ کھلاتے پلاتے ہیں اور ہمیں صرف وہ بات بتاتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہو جائے کہ حکمرانوں کو دنیا میں صرف ایک کام ہے اور وہ ہے ہمارا دکھ ختم کرنا۔
ہمارے درد کے علاوہ ان کے سینے میں کوئی چنگاری جلتی ہی نہیں۔ واپس چلتے ہیں امریکا، جہاں گزشتہ ہفتے وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری خاص طور پر امریکیوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ انھوں نے دنیا کی بہتری کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عراق اور شام میں قائم دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف کارروائی کریں گے۔ وہاں موجود ایک ٹی وی چینل کے صحافی ''ایڈ ہنری'' نے پوچھ لیا کہ جناب آپ یہ بتانا پسند کریں گے آپ نے پہلے کہا تھا کہ اُن پر حملہ اُس وقت کیا جائے گا جب امریکی مفادات کو خطرہ ہو گا۔ لیکن اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش والے اقلیتوں کو قتل کر رہے ہیں اس لیے وہاں حملہ کیا جائے گا۔
صحافی نے مزید چبتا ہوا اپنا فقرہ مکمل کیا کہ ''آپ یہ بتانا پسند کرینگے کہ عراق میں اقلیتوں کا قتل کس طرح امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا ہے؟'' پریس سیکریٹری یہ چبتا ہوا سوال سمجھ چکے تھے۔ کچھ دیر کے لیے جواب سوچا اور پھر وہ ہی پرانی لفاظی کہ جناب آپ کو تو پتہ ہے کہ امریکا کا مقصد دنیا میں آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفٖظ کرنا اور حق ہر ایک کو دلانا ہے۔ اور کیونکہ عراق میں اقلیتوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اس لیے ہم وہاں ضرور مدد کریں گے۔ اس سے پہلے کہ صحافی اور کچھ پوچھتا، پریس کانفرنس ختم ہو گئی۔
اب یہاں سے خاموش کھلاڑی کی کہانی شروع کرتے ہیں۔ عراق میں صدام حسین نے جب 1988ء میں کردوں اور دوسرے لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا تو کیا اُس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ لیکن کیونکہ اُس وقت روس اور ایران کو سبق سکھانا ضروری تھا اس لیے قتل عام جائز تھا اور امریکا خاموش تھا۔ مگر پھر اُسے یاد آیا اور جب کام ہو گیا تو اسی صدام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر پھانسی دلا دی۔ امریکا کے قیام سے لے کر آج تک دیکھے اور پرکھے کیا اُس نے دنیا میں تمام کام انسانی حقوق، جمہوریت اور فلاح کے لیے کیے ہیں۔
اُس کی خاموشی کے بھی اپنے مفادات ہوتے ہیں اور جنگ کے بھی۔ اب اس وقت اُسے داعش کا ظلم کیوں یاد آ رہا ہے۔ جب یہ سب کچھ داعش کے لوگ شام میں کر رہے تھے تو کیوں خاموشی تھی؟ کیوں مشرق وسطی میں لوگ ہیلری کلنٹن کی کتاب کا جواز دیتے ہوئے کہتے ہیں داعش کو بنایا امریکا نے ہی تھا۔ کیوں آج تک اس بات کی تردید نہیں آئی جو گیری جے بیس نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے امریکی کردار پر لکھا تھا۔
اب تو کئی ورق بھرے ہوئے ہیں اور اس دلیل کو مضبوط کرتے ہیں کہ آخر کیوں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلی تھی اور کون خاموشی سے بیٹھا یہ تماشہ کرا رہا تھا اور کون کس کو فون کر کے خاموش رہنے کا کہہ رہا تھا۔ میں کسی نتیجہ پر پہنچ رہا ہوں۔ یا پہنچنا نہیں چاہ رہا ہوں۔ اور وہ صرف یہ ہے کہ انکل سام نے جہاں خون خرابہ کیا یا پھر خون خرابہ پر آنکھ بند کی اُس کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ صرف اور صر ف اپنے مفادات ہے۔
اُس کے پس پردہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، نسل کشی یا پھر جمہوریت نہیں ہوتی۔ اس وقت مشرق وسطی کے کئی ممالک میں اُس نے جمہوریت کے نام پر ریاستوں کو تہس نہس کر دیا۔ کیا حالات ہیں اس وقت لیبیا، عراق یا پھر شام کے؟ اور کئی جگہوں پر جمہوریت کے حامیوں کو کچل کر بادشاہت یا پھر آمریت کی حمایت کی ۔ کیا ہو رہا ہے بحرین میں۔
امریکا کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ جب افغانستان میں دو طاقت ور لوگ ایک کرسی کے لیے لڑ رہے تھے۔ دونوں صرف بیانات کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں بھی ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ مگر کیا ہوا کہ ایک بار جناب عزت مآب کیری صاحب تشریف لائے اور دنیا بدل گئی۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آنے والے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور فیصلہ کیا کہ مل کر حکومت بنائیں گے۔
جب دونوں لڑ رہے تھے اُس وقت امریکا خاموش تھا یا پھر اُس کی مرضی یہ ہی تھی یا پھر وہ وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ مشرف کے معاملے میں طوفان کس نے برپا کیا تھا۔ اور اُس وقت کی خاموشی کیوں ضروری تھی۔ اور اب ۔۔؟ اب کیا ہو رہا ہے۔ کچھ سیانے ماضی کو دیکھ کر حکومت کو کڑیاں بتا رہے ہیں کہ یہ خاموشی کیوں ہے؟ کیا کوئی طوفان آنے والا ہے۔ پرندوں کا شور اور یہ خاموشی۔ کیوں؟ آخر وہ تو انسانی حقوق اور جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن...