آبیل مجھے مار…

بدامنی کے پیچھے دو ہی بڑے اسباب ہیں اور دونوں کا امن و امان کی وزارت سے کوئی تعلق نہیں۔


Abbas Athar September 25, 2012
بدامنی کے پیچھے دو ہی بڑے اسباب ہیں اور دونوں کا امن و امان کی وزارت سے کوئی تعلق نہیں۔

رحمن ملک کی ذمے داریوں میں ایک اور اضافہ ہو گیا ہے۔

انھیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مزید ایسے ارکان اسمبلی کے ناموں کی تفصیل سے عدالت کو آگاہ کریں جو دہری شہریت کے مالک ہیں لیکن ابھی تک '' لاپتہ'' ہیں۔

یہ ذمے داری کم اور مصیبت زیادہ ہے جسے خود رحمن ملک صاحب ہی نے دعوت دی تھی۔ عدالت نے گیارہ بارہ ارکان اسمبلی کو دہری شہریت پر نااہل قرار دیا تھا اور دوران سماعت یہ سوال بھی اٹھا کہ سینیٹ کے پہلے الیکشن میں دہری شہریت کا انکشاف نہ کر کے ملک صاحب صادق اور امین نہیں رہے۔

دوسرے لفظوں میں سینیٹ کے لیے ان کی موجودہ اہلیت بھی مشکوک ہو گئی۔ نااہلی کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے رحمن ملک نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ کئی اور ارکان بھی ایسے ہیں جنھوں نے اپنی دہری شہرت چھپا رکھی ہے لیکن کارروائی صرف چند ایک ارکان کے خلاف ہوئی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس ان ارکان کے نام موجود ہیں، جب عدالت کہے گی وہ یہ نام پیش کر دیں گے۔ معاملے کا تعلق عدلیہ سے نہ ہوتا تو اسے ''آ بیل مجھے مار'' کہا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے بیان جاری کرتے وقت رحمن ملک کا خیال ہو کہ عدالت اس کیس کو مزید آگے نہیں چلائے گی لیکن عدالت نے فوراً ہی نوٹس لے لیا۔

اب رحمن ملک دہری مشکل میں ہیں۔ اگر انھوں نے نام پیش نہ کیے تو عدالت ان کے خلاف غلط بیانی پر کارروائی کر سکتی ہے۔ وہ ویسے بھی انتہائی پسندیدہ اور آسان ہدف ہیں۔ عدالت کے لیے کوئی مشکل نہیں ہو گی کہ وہ دو چار دن کی سماعت کر کے ان کے خلاف ایک اور کیس کا فیصلہ سنا دے۔ دوسری جانب اگر وہ نام پیش کر دیتے ہیں تو دہری شہریت کے نئے ملزم ان کی جان کے درپے ہو جائیں گے۔

نئے ملزموں کا یہ شکوہ درست ہو گا کہ اگر ملک صاحب پردہ نہ اٹھاتے تو وہ اطمینان سے بیٹھے رہتے اور رکنیت سے محروم نہ کیے جاتے۔ نااہلی اس اعتبار سے سخت سزا نہیں ہے کہ رکنیت پارلیمنٹ کی باقی ماندہ مدت کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔

باقی ماندہ مدت تو ویسے ہی بہت کم رہ گئی ہے جس ایوان کو چار پانچ ماہ بعد چھوڑنا ہے اسے ابھی سے الوداع کہہ دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ نااہلی اس لحاظ سے بہت کڑی سزا ہے کہ نااہل ہونے والے ارکان پر آئندہ کے لیے بھی پارلیمنٹ کے دروازے بند ہو جائیں گے۔

رحمن ملک ان کا غصہ کم کرنے کے لیے بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ دوستو! جس مصیبت سے آپ اب دو چار ہوئے ہیں، میں اس کی دوسری قسط ادا کر رہا ہوں۔ مجھے ایک بار پہلے نااہل قرار دیا گیا، اب دوسری نااہلی سر پر کھڑی ہے۔

دہری شہریت والوں کے ناموں کی تفصیل بتانے کی ذمے داری رحمن ملک کو شاید غیر ضروری طور پر دی گئی ہے۔ وہ اس لیے کہ ایک الگ اقدام کے طور پر تمام ارکان اسمبلی سے کہا جا رہا ہے کہ ان سے شہریت کے حلف نامے لے لیے جائیں۔ بعد میں غلط بیانی پکڑ لی گئی تو نااہلی بھی ہوگی اور ساتھ ہی سخت بدنامی بھی۔

رحمن ملک کی قسمت کا کمال ہے کہ کبھی مصیبتیں ان کا گھر دیکھ لیتی اور کبھی وہ خود مصیبتوں کو آواز دے کر بلا لیتے ہیں۔ اس طرح ان کے مخالفوں کو تنقید کا اضافی موقع مل جاتا ہے۔ وہ جب سے حکومت میں آئے ہیں تنقید ان پر مسلسل ''مہربان'' رہی ہے۔

چند دنوں ناغہ آ جائے تو وہ خود کوئی نہ کوئی ایسا بیان دے دیتے ہیں کہ جس پر مخالف کھلاڑی آسانی سے چھکا مار سکتے ہوں۔ ماضی میں ایک مرتبہ انھوں نے کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ آج رات سے ختم ہو جائے گی۔ خدا جانے انھوں نے کس رپورٹ کی بنیاد پر یہ پیشن گوئی کی لیکن یہ بیان انھیں بہت مہنگا پڑا۔

اس لیے کہ وہ رات آج تک نہیں آئی۔ ایسے ہی ایک بار انھوں نے یہ بیان دے دیا کہ کراچی میں جن واقعات کو ''ٹارگٹ کلنگ'' کا نام دیا جاتا ہے، ان میں اکثر میاں بیوی اور گرل فرینڈز وغیرہ کے جھگڑوں کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کا مشکل ترین محکمہ رحمن ملک صاحب کے پاس ہے۔ کچھ لوگ وزارت خزانہ کو مشکل ترین وزارت سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ خزانہ خالی ہے اور اخراجات زیادہ، لیکن وزارت داخلہ کے معاملے میں تو یہ بالکل آسان وزارت ہے، جتنے اخراجات کی ضرورت ہو بینکوں سے قرضے لے کر پورے کر لیے جاتے ہیں۔

وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب یہی کر رہے ہیں لیکن اتنی خاموشی اور سلیقے کے ساتھ کہ اکا دکا اخباری کالم نویسوں کے سوا کسی کی نظر میں نہیں آتے، گویا بالکل محفوظ لیکن رحمن ملک کیا کریں، ان کے پاس ایسا محکمہ ہے جسے قابو نہیں کیا جا سکتا۔ آئے روز دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات، دھماکا بلکہ سانحہ ہو جاتا ہو اور رحمن ملک ہدف بن جاتے ہیں۔ کوئی کہتا کہ یہ بدامنی وفاقی حکومت کی ناکامی ہے۔

کوئی صوبائی حکومت کی غفلت کا نتیجہ قرار دیتا ہے لیکن پھر ایک بیان کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ رحمٰن ملک داخلہ کے وزیر ہیں، اس لیے ذمے داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ رحمن ملک کی جگہ کسی اور کو حتیٰ کہ عمران خان کو جو دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے از خود منتخب نمائندے ہیں، لگا کر دیکھ لیں۔

یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔ بدامنی کے پیچھے دو ہی بڑے اسباب ہیں اور دونوں کا امن و امان کی وزارت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کا فیصلہ کہیں اور ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں طرح طرح کی بدامنی ہوئی ہے اور دوسرا معاشی بحران جس کی ذمے داری ماضی کے حالات اور وزارت خزانہ و اقتصادی امور کی پالیسیاں ہو سکتی ہیں۔

دونوں میں سے کسی ایک پر بھی وزارت داخلہ کا کوئی کنٹرول ہے نہ تعلق۔ بہر حال اب انتظار کیجیے کہ دہری شہریت والے خفیہ نام رحمن ملک کب پیش کرتے ہیں اور پیش کرتے بھی ہیں یا نہیں اور پھر دونوں صورتوں میں رحمن ملک کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ فی الحال ملک صاحب کو پیشگی مبارکباد کہ وہ مردانہ وار ایسی بلائوں کو دعوت دیتے ہیں' جو انھیں ''لذیذ '' شکار سمجھتی ہیں اور ہر وقت تاک میں رہتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں