عدالتی حکم کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے خلاف ابھی تک مقدمہ درج نہیں ہوا طاہرالقادری

ماڈل ٹاؤن لاہور کی طرح یہاں بھی ان پر کھانا اور پانی بند کیا جارہا ہے، سربراہ پاکستان عوامی تحریک

ماڈل ٹاؤن لاہور کی طرح یہاں بھی ان پر کھانا اور پانی بند کیا جارہا ہے، طاہر القادری فوٹو:اے ایف پی

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کا کہنا ہے کہ ہم جمہوریہت پسند اور آئین پسند ہیں اسے ہماری کمزوری سمجھا گیا جب کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے داروں کے خلاف عدالت نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا لیکن 5 دن بعد بھی مقدمہ درج نہیں ہوتا تو پھر ملک میں کون سا قانون اور آئین ہے۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر کارکنوں سے خطاب کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت کے نام پر تقریریں کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ انہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے حکم پر سرکاری وردی میں ملبوس اہلکاروں کے ہاتھوں 14 افراد کی شہادت نظر نہیں آتیں، کیا ان کی جمہوریت میں معصوم لوگوں کو شہید کرنا جائز ہے، کیا رات کے 12 بجے گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں پر دھاوا بولنا جائز ہے۔ خدا نخواستہ رات گئے نواز شریف یا شہباز شریف کے بچے پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوجاتے تو کیا وہ بھی اسمبلی کے فلور میں جمہوریت کی بات کرتے۔ اور پھر یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان کی ایف آئی آر درج نہ ہوتی تو وہ کیا کرتے، کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنے قاتلوں ، بدمعاشوں کے جتھوں سے ان تمام افراد کو قتل کرادیتے، لیکن ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم انصاف اور آئین پسند ہیں اور عدالتوں کے دھکے کھارہے ہیں۔ وہ محمود اچکزئی سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان کا بیٹا یا بیٹی ماڈل ٹاؤن میں قتل ہوجاتا تو کیا وہ جمہوریت کی بات کرتے۔ وہ اپنے بچوں کے قاتلوں کو خود قتل کرتے۔ جو کچھ وہ کرتے ہم نے وہ نہیں کیا کیونکہ ہم جمہوریہت پسند اور آئین پسند ہیں۔ لیکن اسے ہماری کمزوری سمجھا گیا۔ عدالت نے ایف آئی آر کا حکم دے دیا، لیکن 5 دن بعد بھی مقدمہ درج نہیں ہوتا تو پھر ملک میں کون سا قانون اور آئین ہے۔


ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ وہ بھی مذاکرات کے حامی ہیں لیکن اس کا بھی کوئی سلیقہ ہونا چاہیئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ان کی وطن واپسی کے بعد ایک حکومتی اہلکار ان کے پاس آئے لیکن وہ اختیارات سے آری تھے۔ شریف برادران جب تک حکومت میں ہوں تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو پولیس تحقیقات نہیں کرے گی اور عدالتوں میں بیٹھے جج ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن جہاں پاک فوج تعینات ہیں اس جگہ سے پیچھے ہٹ جائیں، کوئی کارکن کسی عمارت میں دھاوا نہیں بولے گا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ ہاؤس میں آنے اور جانے والوں کو آمدورفت کی اجازت دی جائے، ماڈل ٹاؤن لاہور کی طرح یہاں بھی ان پر کھانا اور پانی بند کیا جارہا ہے اور پھر یہ حکمران اپنے آپ کو جمہوریت اور آئین کے علمبردار کہتے ہیں۔

اس سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ریڈ زون میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ دیگر عمارتیں ہماری اپنی عمارتیں ہیں، انقلاب مارچ کے شرکا ان ریاستی اداروں کے تقدس کو پامال نہیں کریں گے لیکن وہ لوگ مقدس نہیں جو ان عمارتوں پر قابض ہوگئے ہیں۔ نوازشریف سمیت دیگر ارکان کو پارلیمنٹ میں جانے دیا تاکہ سارے شکار یکجا ہوجائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کو زیادہ دیر تک تکلیف میں مبتلا نہیں رکھ سکتے، 65 ہزار کارکن 3 ہفتوں سے صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ، وہ ان کو زیادہ دیر تک قابو میں نہیں رکھ سکتے، کارکنوں کے سامنے بے بس ہونے سے پہلے نواز شریف، شہباز شریف اور اسمبلیاں مستعفی ہوجائیں کیونکہ ان کے پاس اب اقتدار میں رہنے کا قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رہا۔ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس سمیت کئی عمارتیں پاک فوج کے حوالے کی ہیں، وہ پاک فوج کے حق میں ہیں، اگر ایسے حالات ہوئے کہ پاک فوج اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن آمنے سامنے آجائیں تو کسی صورت کوئی کارکن ان پر ہاتھ نہ اٹھائے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ پاک فوج اپنی قوم کے جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر گولی نہیں چلائیں گے۔ جواسمبلی کے اندر ہے وہ اندر رہے اور جو باہر ہے وہ باہر رہے۔ جوپارلیمنٹ سے باہر نکلے گا اسے کارکنوں کی لاشوں سے گزرنا ہوگا۔
Load Next Story