پاکستان ایک نظر میں جنہیں آج ہم بھلا بیٹھے

آج جو پاکستانی قوم کی خر مستیاں اور بانک پن ہے اس کی وجہ راشد منہاس جیسے مادر وطن پر مر مٹنے والے شہید ہیں۔


شہباز علی خان August 20, 2014
آج جو پاکستانی قوم کی خر مستیاں اور بانک پن ہے اس کی وجہ راشد منہاس جیسے مادر وطن پر مر مٹنے والے شہید ہیں۔ فوٹو فیس بک

پاکستان ائیر فورس کے پائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہید کی 43 ویں یوم شہادت پر ٹیپو سلطان کا وہ مشہور زمانہ قول یاد آرہا ہے؛

''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔''

بعض اوقات زندگی اور جرات کا یہ کھیل ایک دن سے بھی کم ہو کر گھنٹوں اور لمحوں تک جا پہنچتا ہے جیسا کہ 17 فروری 1951 ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد منہاس کو 20 اگست 1971ء کو سوپہر کے وقت پی۔اے۔ایف کراچی ائیر بیس سے جیٹ T-33 کی فلائیٹ بھرتے وقت لمحوں میں شیر کی طرح فیصلہ کرنا تھا کہ آیا انہوں نے اپنے انسٹرکٹر فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کے ناپاک ارادے ناکام بناتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا ہے یا دشمن کو اپنے عزائم میں کامیاب ہوتے ہوئے طیارہ دشمن ملک کی سرزمین پر اتارنے کا موقع دینا ہے۔

لمحوں کے اس کھیل میں راشد منہاس نے جرات ،بہادری اور حب الوطنی کی وہ مثال قائم کر دی کہ جس نے نہ صرف غدار مطیع الرحمان کو دشمن ملک کی سرحد سے 51 کلو میٹر پہلے ہی پاک سر زمین میں ضلع ٹھٹھہ میں خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا اور خود پاکستان ائیر فورس کا واحد ، کم عمر ترین اور مختصر مدتی سروس رکھنے والا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدرحاصل کیا۔ 13 مارچ 1971 ء کو پاکستان ائیر فورس میں کمیشنڈ حاصل کرنے والے 20 سالہ راشد منہاس کی آنکھوں میں بہت سارے خواب اور دل میں امنگیں ضرور ہونگی جن میں سے ایک خواہش ہر بہادر سپاہی کی طرح شہادت کی خواہش اور تڑپ بھی ہوگی ،مگر یہ ان کو بھی معلوم نہ ہو گا کہ محض 5 ماہ کے اندر ان کے خواب حقیقت بن جائے گا۔

شک نہیں کہ ہر شہید کی طرح راشد منہاس بھی زندہ ہے مگر پاکستان کے مروجہ حالات اور تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے خدا کا شکر ہے کہ اعلی ترین فوجی اعزاز حاصل کرنے کی وجہ سے وہ ہمارے درمیان موجود ہیں، ورنہ ان کی یوم شہادت سے محض ایک روز قبل میں سارا دن ٹی وی چینلز گھما پھرا کر دیکھتا رہا کہ شاید انقلابی اور آزادی مارچ سے کچھ وقت بچا کر ایک نظر قوم کے اس محسن پر بھی ہو جائے مگر صد افسوس کہ متاع کارواں کے ساتھ ساتھ احساس زیاں بھی جاتا رہا ۔ ہمیں اپنے محسنوں کو بھولنے کی عادت کوئی نئی نہیں ہے۔قائد اعظم کی موت بھی کھٹارہ
ایمبو لینس میں ریلوے پھاٹک پر ہوئی تھی جس میں آکسیجن سے خالی سلنڈر موجود تھا اور لیاقت علی خان کی شہادت کے ذمہ داروں کو بھی اعلی سرکاری عہدے دیئے گئے۔اسی طرح نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام سے لے کر محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان تک ہم نے جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

یاور اے مظہر جن کا شمار پاکستان آرمی کے تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی ایک یاداشت میں 2004 ء میں گروپ کیپٹن ریٹائیرڈ سیسل چوہدری سے ملاقات کا ذکر کیا جو اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ ہمارے ہاں کسی بھی سانحے کے بعد کسی بھی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی روایت ہے ہی نہیں۔اس میں دوران گفتگو سیسل چوہدری نے انہیں بتایا کہ جب یہ سانحہ ہوا تو فوری طور پر انہیں تحقیقات کے جائزہ کے لیے وقوعہ پر بھیجا گیا۔جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جہاز کا اگلا حصہ زمین سے ٹکرایا تھا اور ٹکراتے وقت ہی راشد منہاس کی شہادت ہو گئی تھی اور باڈی اسی حصے میں تھی،جبکہ جہاز کی کینوپی بعد از جہاز سے فاصلے پر پائی گئی اور اس کے پاس ہی جھاڑیوں میں مطیع الرحمان کا کٹا پھٹا جسم جھاڑیوں میں تھا۔اس فاصلے پر ہونے کا مطلب یہ تھا کہ دوران پرواز جب دونوں میں جہاز کا کنٹرول حاصل کرنے پر ہاتھا پائی ہو رہی تھی تو جہاز کا رخ زمین کی طرف ہوا اور وہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔راشد منہاس نے اسے جہاز سے پھینکنے کے لیے اس کی کینوپی کو ریلیز کر دیا۔ دوسری جانب مطیع الرحمان کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز بیر سریشتھو (Bir Sreshtho) دیا گیا۔

علامہ اقبال نے یقیناًلاہور میں بچپن گزارنے اور سینٹ میری کیمبریج سکول راول پنڈی سے ابتدائی تعلیم پانے والے پاکستان ائیر فورس کے سیکنڈ اسکواڈرن یونٹ نمبر 2 کے پائیلٹ آفیسر راشد منہاس کے بارے میں ہی کہا تھا کہ؛

''شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے''۔

کیونکہ آج جو پاکستانی قوم کی خر مستیاں اور بانک پن ہے اس کی وجہ راشد منہاس جیسے مادر وطن پر مر مٹنے والے شہید ہیں جنہیں آج ہم بھلا بیٹھے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔