جن کے بچے یہاں نہیں رہتے انہیں اس ملک سے بھی کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے شازیہ مری
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے بچے اسی ملک میں پلتے ہیں جو لگتے بھی پاکستانی ہیں اور ہیں بھی پاکستانی، رہنما پیپلز پارٹی
KARACHI:
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا ہے کہ جن کے بچے اس ملک میں نہ ہوں اسے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہمارے بچے یہیں پلتے ہیں، جو لگتے بھی پاکستانی ہیں اور ہیں بھی پاکستانی۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شازیہ مری کا کہنا تھا کہ وہ سانگھڑ سے منتخب ہوئی ہیں، یہ ملک بھلے ہی 14 اگست 1947 میں آزاد ہوا ہو لیکن ان کا حلقہ انتخاب گزشتہ برس 22 اگست کو آزاد ہوا، آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ آئین اور پارلیمنٹ کو بےعزت کیا جائے۔ احتجاج کی آڑ میں روایات کا جنازہ نکال دیاگیا ہے، ایک وزیراعلیٰ نے ماضی میں توانائی کے معاملے پر صدر کے خلاف باتیں کی تھیں اور اب ایک وزیر اعلیٰ مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ دھرنے میں شریک ہیں، یہ سب غلط ہے۔ وزرا پارلیمنٹ میں نہیں آتے اور اپنے اجلاسوں میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ ان کی پہلی ترجیح پارلیمنٹ ہونی چاہیئے تاکہ ایرا غیرا نتھو خیرا پارلیمنٹ کو چیلنج نہ کرے۔ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں آنے سے ثابت ہوتا ہے وہ ہماری عزت کرتے ہیں، جب ہم ان پر تنقید کرتے ہیں تو وزرا اتنی لمبی لمبی تقریر کرتے ہیں جیسے ہم نہیں وزرا خود اپوزیشن میں ہوں۔ حکومتی ارکان اپوزیشن پر طعنے اور آوازیں کستے ہیں، اس دوران ایک آمر کی باقیات ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف باتیں کرتی ہیں۔
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ پارلیمنٹ کے باہربیٹھ کرہلا گلا کررہے ہیں، جس میں کبھی ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سے رقص کروایا جارہا ہے تو کبھی انہیں مضحکہ خیز لباس پہنا رہے ہیں، اس طرح خیبرپختونخوا جیسے غیور اور روایت پسند صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی کیا حالت کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول نافرمانی اس پر اچھی لگتی ہے جو پانی پیتے ہوئے اور پیٹرول خریدتے وقت ٹیکس ادا نہ کررہا ہو۔ سول نافرمانی کا کہنے والے خود غریبوں کے پیٹ میں لات ماررہے ہیں، جس کے بچے اس ملک میں نہ ہوں اسے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہمارے بچے یہیں پلتے ہیں، جو لگتے بھی پاکستانی ہیں اور ہیں بھی پاکستانی، اگر ہم انہیں تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجتے ہیں تو وہ واپس آکر ملک کی خدمت ہی کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا ہے کہ جن کے بچے اس ملک میں نہ ہوں اسے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہمارے بچے یہیں پلتے ہیں، جو لگتے بھی پاکستانی ہیں اور ہیں بھی پاکستانی۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شازیہ مری کا کہنا تھا کہ وہ سانگھڑ سے منتخب ہوئی ہیں، یہ ملک بھلے ہی 14 اگست 1947 میں آزاد ہوا ہو لیکن ان کا حلقہ انتخاب گزشتہ برس 22 اگست کو آزاد ہوا، آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ آئین اور پارلیمنٹ کو بےعزت کیا جائے۔ احتجاج کی آڑ میں روایات کا جنازہ نکال دیاگیا ہے، ایک وزیراعلیٰ نے ماضی میں توانائی کے معاملے پر صدر کے خلاف باتیں کی تھیں اور اب ایک وزیر اعلیٰ مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ دھرنے میں شریک ہیں، یہ سب غلط ہے۔ وزرا پارلیمنٹ میں نہیں آتے اور اپنے اجلاسوں میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ ان کی پہلی ترجیح پارلیمنٹ ہونی چاہیئے تاکہ ایرا غیرا نتھو خیرا پارلیمنٹ کو چیلنج نہ کرے۔ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں آنے سے ثابت ہوتا ہے وہ ہماری عزت کرتے ہیں، جب ہم ان پر تنقید کرتے ہیں تو وزرا اتنی لمبی لمبی تقریر کرتے ہیں جیسے ہم نہیں وزرا خود اپوزیشن میں ہوں۔ حکومتی ارکان اپوزیشن پر طعنے اور آوازیں کستے ہیں، اس دوران ایک آمر کی باقیات ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف باتیں کرتی ہیں۔
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ پارلیمنٹ کے باہربیٹھ کرہلا گلا کررہے ہیں، جس میں کبھی ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سے رقص کروایا جارہا ہے تو کبھی انہیں مضحکہ خیز لباس پہنا رہے ہیں، اس طرح خیبرپختونخوا جیسے غیور اور روایت پسند صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی کیا حالت کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول نافرمانی اس پر اچھی لگتی ہے جو پانی پیتے ہوئے اور پیٹرول خریدتے وقت ٹیکس ادا نہ کررہا ہو۔ سول نافرمانی کا کہنے والے خود غریبوں کے پیٹ میں لات ماررہے ہیں، جس کے بچے اس ملک میں نہ ہوں اسے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہمارے بچے یہیں پلتے ہیں، جو لگتے بھی پاکستانی ہیں اور ہیں بھی پاکستانی، اگر ہم انہیں تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجتے ہیں تو وہ واپس آکر ملک کی خدمت ہی کرتے ہیں۔