رقص بسمل
سیاسی جماعتیں بھی اپنے مخصوصMindsetکی وجہ سے جمہوری عمل کو پٹری سے اتارے جانے والے عمل کا حصہ بن جاتی ہیں۔۔۔
مجھے اس بات میں دلچسپی نہیں کہ جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کا کیا انجام ہوچکا ہوگا ۔ میری دلچسپی اس کھیل میں ہے ، جو وطن عزیز میں کھیلا جا رہا ہے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس قسم کے کھیل میں سرآئینہ کچھ چہرے ہوتے ہیں ، جب کہ پس آئینہ کچھ طاقتور ہاتھ ہوتے ہیں۔
ایسے معاشروں میں جہاں قبائلی اور برادری شناخت کی جڑیں گہری ہوں اور فکری اور سماجی پسماندگی اپنے عروج پر ہو ، وہاں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کا تصور محض نمائشی ہوتا ہے ۔ اس لیے ان معاشروں میں اندرونی اور بیرونی قوتوں کے عزائم کی تکمیل آسان ہوجاتی ہے ۔لیکن سیاسی جماعتیں بھی اپنے مخصوصMindsetکی وجہ سے جمہوری عمل کو پٹری سے اتارے جانے والے عمل کا حصہ بن جاتی ہیں ۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاںسیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی عدالتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے قبیلوںکے جرگے لگاتے ہوں ۔جہاںشراکتی جمہوریت کو فروغ دینے کے بجائے سیاسی جماعتیں نوآبادیاتی طرز حکمرانی کی وکالت کرتی ہوں ۔ جہاں اپوزیشن اپنی باری کا انتظار کرنے کے بجائے مختلف حیلوں، بہانوں سے حکومتیں گرانے کے لیے بے چین رہتی ہوں۔
جہاں ذہنی اور سماجی پسماندگی کا یہ عالم ہو کہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ماں باپ دیگر خونی رشتوں کے ساتھ مل کرپسند کی شادی کرنے والی اپنی بیٹی کواینٹیں مار کر ماردیتے ہیں ، مگر احاطے میں موجود پولیس تماشائی بنی یہ سفاکی دیکھتی رہتی ہے ۔اس ملک و معاشرے میں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کی بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔
آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی کی چھ بنیادی خصوصیات تصور کی جاتی ہیں ۔اول،شراکتی (Participatory)ہو۔ دوئم،شفاف (Transparent) ہو ۔ سوئم، مؤثرومستعد(Effective & Efficient)ہو۔ چہارم، جواب دہ اور فوری ردعمل ظاہر کرنے والی یعنی (Accountable & Responsive)ہو ۔ پنجم، مبنی بہ اتفاق رائے (Consensus Oriented)ہو ۔ششم ، مبنی بہ عدل(Equitable) ہو۔ ان خصوصیات کی حامل حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے، جب کسی ریاست میں اقتدار واختیار کی مرکزیت کا خاتمہ ہو اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقل ہوں۔
اس کے علاوہ بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کے فرق کو سمجھنے کے لیے اختیارات کی عدم مرکزیت کوسمجھناضروری ہے ۔ عدم مرکزیت (Decentralization) سے مراد چند ہاتھوں یا کسی مخصوص سطح پر اختیار کے ارتکاز(Concentration)کا خاتمہ ہو ۔لیکن المناک پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس عمل کو فروغ دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
دراصل ہر خطے کے لوگوں کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے ، جو اجتماعی نفسیات تشکیل دینے کا سبب بنتا ہے۔ اجتماعی نفسیات ریاضی کا کوئی ٹھوس کلیہ نہیں ہوتی ہے ، بلکہ ایک علاقہ یا خطے کے لوگوں کی اکثریت کے مختلف مواقع پر رویوں سے ترتیب پاتی ہے۔ اجتماعی نفسیات کی تشکیل میں خطے کے طبعی اور معاشی حالات ، موسمی اثرات اور سماجی رشتے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اس نفسیات کو تبدیل کرنے میں عوامی سطح پرعلم کا فروغ اور صاحب بصیرت قیادت نمایاں کردار اداکرتی ہے۔
شمالی ہند یعنی درہ خیبر سے وادی سندھ تک اور پنجاب کے لہلہاتے مرغزاروں سے ہمالیہ کے دامن میں اترپردیش و بہار تک پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں سوائے ایک دو مواقع کو چھوڑ کر کبھی مقامی حکومتیں نہیں رہیں۔ ان علاقوں پر زیادہ تر شمال سے آنے والے حکمران مسلط رہے، جو اپنی سرشت میں زیادہ سخت گیر، اجڈ اور جنگجویانہ سرشت کے حامل تھے۔ انھیں نہ تو فروغ علم سے کوئی علاقہ تھا اور نہ ہی عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی تھی۔
نتیجتاً اس خطے میں بھاڑے کے سپاہیوں سے جری جرنیل اور منشیوں، مفتیوں سے وزیر باتدبیر جیسے معتمدین توان گنت پیدا ہوئے، مگر راجہ رنجیت سنگھ کے سوا کوئی دوراندیش ، پراعتماد و پرعزم اورمحب وطن حکمران اس دھرتی کی ماؤں کی کوکھ سے جنم نہیں لے سکا ۔ کم مائیگی، بے بصیرتی اور چہارسو پھیلے جہل نے اس خطے کی عمومی اجتماعی نفسیات میں بے جا ہٹ دھرمی ، اکھڑپن اور جذباتیت جیسے منفی جذبات کو راسخ کردیا۔
یہی سبب ہے کہ نہ تو کوئی سیاسی جماعت ملک میں اچھی حکمرانی قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے اور نہ ہی نادیدہ قوتیں اسے اس ذمے داری کو نبھانے کا موقع دیتی ہیں ۔اس وقت ابتری کا یہ عالم ہے کہ سوائے چند مذہبی جماعتوں کے کسی بھی قومی جماعت کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ واضح لائحہ عمل۔مذہبی جماعتیں بھی برائے نام مذہبی ہیں ،اصل میں تو یہ مسلکی جماعتیں ہیں۔
ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی کے بلند آہنگ دعوے ملتے ہیں ۔ لیکن جب اقتدار میں آتی ہیں ، تو وہی ڈھاک کے تین پات والی مثال سامنے آتی ہے۔تحریک انصاف ہی کی مثال لیجیے۔تبدیلی اور عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے عزم کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوئی ۔ ملک کی تیسری بڑی جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئی۔
آج انتخابی دھاندلیوں کے خلاف متحرک ہے۔ مگر KPK میں جہاں اسے اقتدار ملا ، وہ اپنے منشور کے کسی ایک نکتے پر بھی عمل درآمد نہیں کرا سکی ۔ ایک سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود مقامی حکومتی نظام تک قائم نہیں کرسکی ۔وہ اس وقت بند گلی میں پھنس چکے ہیں اور انھیں باہر نکلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں مل پارہا ۔جہاں تک علامہ قادری کا تعلق ہے تو ان کے مطالبے بلاشبہ عوام کی امنگوں کے آئینہ دار ہیں، مگر ان کا طریقہ کار فکری نرگسیت کے خلاف ہے ۔
اسی طرح اگر مسلم لیگ (ن)کی حکمت عملیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس نے کبھی صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہیں کیا ۔ بلکہ ہمیشہ غلط وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ اسے خود نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ جب اپنے ہی گھر میں دشمنوں یا نادان دوستوں کی بہتات ہوتو پھر بیرونی دشمنوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بھی یہی معاملہ اس میں نادان دوستوں کی بھرمار ہے۔ پھر اس جماعت کے بیشتر رہنماؤں کو بے وقت کے ایڈونچر کا بہت شوق ہے ۔ یہی شوق ان کی حکومت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ۔ اس طرزِ عمل کی تازہ ترین مثال اس کا حالیہ دھرنے اور اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹائون میں اس کا رویہ ہے ، جومسلم لیگ(ن) کی حکومت کی غلط حکمت عملیوں کا منہ بولتا مظہر ہے ، جس نے مسلم لیگ(ن) کو بحیثیت ایک جماعت نئے مسائل و مشکلات سے دوچار کردیا ہے ۔
اگر ہم مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور رہنماؤں کے اندازِ سیاست اور طرِز عمل کاغیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیں توکئی حقائق سامنے آتے ہیں ۔اول، ان کی اپنی افتادِ طبع ایسی ہے کہ ان کی کسی بھی آرمی چیف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں ہوسکی۔ دوئم، ان کے رفقاء اور وزراء کواپنی زبانوں پر قابو نہیں ہے ، جو منہ میں آتا ہے بلاسوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہیں ۔ پہلے مولاجٹ کی طرح بڑھکیں مارتے ہیں، مگر جب افتاد پڑتی ہے تو یوٹرن لے لیتے ہیں۔ اسی قبیل کے اور بھی ساتھی ہیں، جو قیادت کو ایسے فیصلوں پر آمادہ کرتے ہیں، جو سراسر خودکشی کے مترادف ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے 1990 سے تادمِ تحریر اس جماعت کی حکومت کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے،اس کا طائرانہ جائزہ لیا جائے، تو دشمنوں سے زیادہ دوستوں کا کردارنظر آتا ہے ۔ پھر فیصلہ کرنے میں تاخیر بھی انھیں مسائل ومصائب کا شکار کردیتی ہے ۔ بقول منیر نیازی، ''ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ۔''خورشید شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر چار حلقوں کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لے لیا جاتا ، تو یہ بحران پیدا نہ ہوتا جس کا آج وطن عزیز شکار ہے اور جمہوری عمل مختلف قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔
اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں بالخصوص قومی اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی جماعتیں عقل کے ناخن لیں اور اس ملک کے عوام پر رحم کریں ۔کم از کم اس بحران سے تجربہ حاصل کریں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو ہوا میں اڑانے کے بجائے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ جمہوری عمل کو قبل از وقت کسی امتحان میں مبتلا کرنے کے بجائے اسے چلنے دیں اور اپوزیشن میں بیٹھی ہر جماعت اپنی باری کا انتظار کرے تو شاید ہم ان بحرانوں سے نکل جائیں ، جن کا آئے دن شکار ہوجاتے ہیں اور پھر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔
ایسے معاشروں میں جہاں قبائلی اور برادری شناخت کی جڑیں گہری ہوں اور فکری اور سماجی پسماندگی اپنے عروج پر ہو ، وہاں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کا تصور محض نمائشی ہوتا ہے ۔ اس لیے ان معاشروں میں اندرونی اور بیرونی قوتوں کے عزائم کی تکمیل آسان ہوجاتی ہے ۔لیکن سیاسی جماعتیں بھی اپنے مخصوصMindsetکی وجہ سے جمہوری عمل کو پٹری سے اتارے جانے والے عمل کا حصہ بن جاتی ہیں ۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاںسیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی عدالتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے قبیلوںکے جرگے لگاتے ہوں ۔جہاںشراکتی جمہوریت کو فروغ دینے کے بجائے سیاسی جماعتیں نوآبادیاتی طرز حکمرانی کی وکالت کرتی ہوں ۔ جہاں اپوزیشن اپنی باری کا انتظار کرنے کے بجائے مختلف حیلوں، بہانوں سے حکومتیں گرانے کے لیے بے چین رہتی ہوں۔
جہاں ذہنی اور سماجی پسماندگی کا یہ عالم ہو کہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ماں باپ دیگر خونی رشتوں کے ساتھ مل کرپسند کی شادی کرنے والی اپنی بیٹی کواینٹیں مار کر ماردیتے ہیں ، مگر احاطے میں موجود پولیس تماشائی بنی یہ سفاکی دیکھتی رہتی ہے ۔اس ملک و معاشرے میں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کی بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔
آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی کی چھ بنیادی خصوصیات تصور کی جاتی ہیں ۔اول،شراکتی (Participatory)ہو۔ دوئم،شفاف (Transparent) ہو ۔ سوئم، مؤثرومستعد(Effective & Efficient)ہو۔ چہارم، جواب دہ اور فوری ردعمل ظاہر کرنے والی یعنی (Accountable & Responsive)ہو ۔ پنجم، مبنی بہ اتفاق رائے (Consensus Oriented)ہو ۔ششم ، مبنی بہ عدل(Equitable) ہو۔ ان خصوصیات کی حامل حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے، جب کسی ریاست میں اقتدار واختیار کی مرکزیت کا خاتمہ ہو اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقل ہوں۔
اس کے علاوہ بلدیاتی اور مقامی حکومتی نظام کے فرق کو سمجھنے کے لیے اختیارات کی عدم مرکزیت کوسمجھناضروری ہے ۔ عدم مرکزیت (Decentralization) سے مراد چند ہاتھوں یا کسی مخصوص سطح پر اختیار کے ارتکاز(Concentration)کا خاتمہ ہو ۔لیکن المناک پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس عمل کو فروغ دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
دراصل ہر خطے کے لوگوں کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے ، جو اجتماعی نفسیات تشکیل دینے کا سبب بنتا ہے۔ اجتماعی نفسیات ریاضی کا کوئی ٹھوس کلیہ نہیں ہوتی ہے ، بلکہ ایک علاقہ یا خطے کے لوگوں کی اکثریت کے مختلف مواقع پر رویوں سے ترتیب پاتی ہے۔ اجتماعی نفسیات کی تشکیل میں خطے کے طبعی اور معاشی حالات ، موسمی اثرات اور سماجی رشتے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اس نفسیات کو تبدیل کرنے میں عوامی سطح پرعلم کا فروغ اور صاحب بصیرت قیادت نمایاں کردار اداکرتی ہے۔
شمالی ہند یعنی درہ خیبر سے وادی سندھ تک اور پنجاب کے لہلہاتے مرغزاروں سے ہمالیہ کے دامن میں اترپردیش و بہار تک پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں سوائے ایک دو مواقع کو چھوڑ کر کبھی مقامی حکومتیں نہیں رہیں۔ ان علاقوں پر زیادہ تر شمال سے آنے والے حکمران مسلط رہے، جو اپنی سرشت میں زیادہ سخت گیر، اجڈ اور جنگجویانہ سرشت کے حامل تھے۔ انھیں نہ تو فروغ علم سے کوئی علاقہ تھا اور نہ ہی عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی تھی۔
نتیجتاً اس خطے میں بھاڑے کے سپاہیوں سے جری جرنیل اور منشیوں، مفتیوں سے وزیر باتدبیر جیسے معتمدین توان گنت پیدا ہوئے، مگر راجہ رنجیت سنگھ کے سوا کوئی دوراندیش ، پراعتماد و پرعزم اورمحب وطن حکمران اس دھرتی کی ماؤں کی کوکھ سے جنم نہیں لے سکا ۔ کم مائیگی، بے بصیرتی اور چہارسو پھیلے جہل نے اس خطے کی عمومی اجتماعی نفسیات میں بے جا ہٹ دھرمی ، اکھڑپن اور جذباتیت جیسے منفی جذبات کو راسخ کردیا۔
یہی سبب ہے کہ نہ تو کوئی سیاسی جماعت ملک میں اچھی حکمرانی قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے اور نہ ہی نادیدہ قوتیں اسے اس ذمے داری کو نبھانے کا موقع دیتی ہیں ۔اس وقت ابتری کا یہ عالم ہے کہ سوائے چند مذہبی جماعتوں کے کسی بھی قومی جماعت کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ واضح لائحہ عمل۔مذہبی جماعتیں بھی برائے نام مذہبی ہیں ،اصل میں تو یہ مسلکی جماعتیں ہیں۔
ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی کے بلند آہنگ دعوے ملتے ہیں ۔ لیکن جب اقتدار میں آتی ہیں ، تو وہی ڈھاک کے تین پات والی مثال سامنے آتی ہے۔تحریک انصاف ہی کی مثال لیجیے۔تبدیلی اور عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے عزم کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوئی ۔ ملک کی تیسری بڑی جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئی۔
آج انتخابی دھاندلیوں کے خلاف متحرک ہے۔ مگر KPK میں جہاں اسے اقتدار ملا ، وہ اپنے منشور کے کسی ایک نکتے پر بھی عمل درآمد نہیں کرا سکی ۔ ایک سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود مقامی حکومتی نظام تک قائم نہیں کرسکی ۔وہ اس وقت بند گلی میں پھنس چکے ہیں اور انھیں باہر نکلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں مل پارہا ۔جہاں تک علامہ قادری کا تعلق ہے تو ان کے مطالبے بلاشبہ عوام کی امنگوں کے آئینہ دار ہیں، مگر ان کا طریقہ کار فکری نرگسیت کے خلاف ہے ۔
اسی طرح اگر مسلم لیگ (ن)کی حکمت عملیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس نے کبھی صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہیں کیا ۔ بلکہ ہمیشہ غلط وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ اسے خود نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ جب اپنے ہی گھر میں دشمنوں یا نادان دوستوں کی بہتات ہوتو پھر بیرونی دشمنوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بھی یہی معاملہ اس میں نادان دوستوں کی بھرمار ہے۔ پھر اس جماعت کے بیشتر رہنماؤں کو بے وقت کے ایڈونچر کا بہت شوق ہے ۔ یہی شوق ان کی حکومت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ۔ اس طرزِ عمل کی تازہ ترین مثال اس کا حالیہ دھرنے اور اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹائون میں اس کا رویہ ہے ، جومسلم لیگ(ن) کی حکومت کی غلط حکمت عملیوں کا منہ بولتا مظہر ہے ، جس نے مسلم لیگ(ن) کو بحیثیت ایک جماعت نئے مسائل و مشکلات سے دوچار کردیا ہے ۔
اگر ہم مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور رہنماؤں کے اندازِ سیاست اور طرِز عمل کاغیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیں توکئی حقائق سامنے آتے ہیں ۔اول، ان کی اپنی افتادِ طبع ایسی ہے کہ ان کی کسی بھی آرمی چیف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں ہوسکی۔ دوئم، ان کے رفقاء اور وزراء کواپنی زبانوں پر قابو نہیں ہے ، جو منہ میں آتا ہے بلاسوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہیں ۔ پہلے مولاجٹ کی طرح بڑھکیں مارتے ہیں، مگر جب افتاد پڑتی ہے تو یوٹرن لے لیتے ہیں۔ اسی قبیل کے اور بھی ساتھی ہیں، جو قیادت کو ایسے فیصلوں پر آمادہ کرتے ہیں، جو سراسر خودکشی کے مترادف ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے 1990 سے تادمِ تحریر اس جماعت کی حکومت کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے،اس کا طائرانہ جائزہ لیا جائے، تو دشمنوں سے زیادہ دوستوں کا کردارنظر آتا ہے ۔ پھر فیصلہ کرنے میں تاخیر بھی انھیں مسائل ومصائب کا شکار کردیتی ہے ۔ بقول منیر نیازی، ''ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ۔''خورشید شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر چار حلقوں کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لے لیا جاتا ، تو یہ بحران پیدا نہ ہوتا جس کا آج وطن عزیز شکار ہے اور جمہوری عمل مختلف قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔
اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں بالخصوص قومی اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی جماعتیں عقل کے ناخن لیں اور اس ملک کے عوام پر رحم کریں ۔کم از کم اس بحران سے تجربہ حاصل کریں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو ہوا میں اڑانے کے بجائے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ جمہوری عمل کو قبل از وقت کسی امتحان میں مبتلا کرنے کے بجائے اسے چلنے دیں اور اپوزیشن میں بیٹھی ہر جماعت اپنی باری کا انتظار کرے تو شاید ہم ان بحرانوں سے نکل جائیں ، جن کا آئے دن شکار ہوجاتے ہیں اور پھر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔