آدھی رات کی دوپہر

حکومت کے پروپیگنڈے کے برعکس ہمارے زیادہ تر ٹی وی اینکر طوطے کی طرح رٹے رٹائے بیانات جاری کر رہے تھے ۔۔۔۔

عمران خان اور طاہر القادری شو کہ جسے میرا دوست اعجاز حیدر ''لکی ایرانی سرکس'' کہتا ہے بالآخر اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں پر کہ وہ پہنچنا چاہتا تھا اور نواز شریف حکومت یہ چاہتی تھی کہ وہ وہاں تک کسی صورت نہ پہنچ سکے یعنی پارلیمنٹ کے بالمقابل ''ڈی چوک'' میں۔ چونکہ ہجوم بہت بڑا تھا جس کی تعداد کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ مردوں عورتوں اور بچوں کے جذبات قابل دید تھے جنہوں نے تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے لیڈروں کی پیروی کی جہاں تک کہ قسمت نے انھیں پہنچا دیا۔

حکومت کے پروپیگنڈے کے برعکس ہمارے زیادہ تر ٹی وی اینکر طوطے کی طرح رٹے رٹائے بیانات جاری کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے پیروکار وفاداری پر قائم رہے۔تحریک انصاف کی طرح قومی سطح پر بڑی سیاسی قوت نہ رکھنے کے باوجود اسلام آباد میں طاہر القادری کا ہجوم، عمران خان کے ہجوم کی نسبت زیادہ تھا۔ شریف حکومت نے طاہر القادری کی سیاسی ابتری پھیلانے کی قوت کا درست اندازہ نہ لگایا اور اگر عمران خان بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو وہ یقینی طور پر حکومت کو گرا سکتے ہیں۔

کوئی بھی حکمت عملی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک کہ وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو جائے۔ آدھی رات کے وقت دونوں کا پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچ جانا حکومت کے لیے خاصی سبکی کا باعث بن گیا ہے اور اس صورت حال سے نکلنا حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔ انھیں چاہیے کہ وہ پرویز رشید، سعد رفیق اور ماروی میمن جیسے وزراء کو بیان بازی سے روک دے۔ (خوش قسمتی سے خواجہ آصف کی صورت میں شریف برادران کے لیے خاکی وردی کا ایک نیا پرستار یا فین تیار ہو گیا ہے) چوہدری نثار علی خان کے لیے البتہ ہمدردی محسوس ہوتی ہے جنھیں حکومت نے حکمت عملی طے کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا۔

ممکن ہے ان کو پریشانی محسوس ہو رہی ہو لیکن انھیں اس بات کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ پولیس نے ایک اور ''ماڈل ٹائون'' والا منظر تخلیق نہیں کیا اور میاں نواز شریف کی سرتوڑ کوشش کے باوجود آرمی چیف جنرل راحیل شریف ان کی مدافعت کے لیے آگے نہیں آئے حالانکہ حکومت نے ان دونوں کی ملاقاتوں کے بہت سے فوٹو شوٹ میڈیا پر چلائے۔

اور یہ کہ حکومت بار بار آرمی چیف کے پاس گئی اور حال ہی میں ان کی سیاسی طاقت کے کھیل میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جب آرمی چیف سے ملاقات کے لیے راولپنڈی گئے تو ان کے درمیان کیا بات ہوئی تھی اس کا انکشاف تو وہی کر سکتے ہیں جو اس ملاقات میں شریک تھے۔ اس بارے میں البتہ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انھیں تصادم سے گریز اور (خونریزی سے سخت اجتناب) کا مشورہ دیا گیا جس کے بعد دونوں احتجاجی تحریکوں کو لانگ مارچ کے لیے لاہور سے باہر نکلنے کی اجازت مل سکی۔


موجودہ صورت حال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاک فوج کی قیادت خالصتاً پیشہ ورانہ نقطہ نظر سے ملکی اقتدار میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ اگرچہ نواز شریف حکومت نے کئی وعدہ خلافیاں کی ہیں اور غالباً اسی وجہ سے خاکی وردی والے چاہتے ہیں کہ اب وہ بحران کو خود ہی سیاسی انداز میں حل کرے۔ دوسری طرف پولیس نے بھی مظاہرین کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے سے انکار کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کی نہیں تو کم از کم حکومت کی رٹ ضرورمتاثر ہوئی ہے۔

پاکستان کے سابق فوجی افسروں کی تنظیم (پی ای ایس اے) نے بھی اسمبلیوں کو فوری طور پر تحلیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک آئینی نگران حکومت تشکیل دینے کا مشورہ دیا ہے جو کہ انتخابی اصلاحات کرے گی اور ایک آزاد الیکشن کمیشن قائم کرے گی تا کہ اس کی زیر نگرانی آیندہ الیکشن کرائے جا سکیں۔ ملک میں موجودہ بحران نے ان خامیوں کو اجاگر کر دیا ہے جو پاکستان کی آئینی جمہوریت میں در آئی ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اپنی طرف سے پیشرفت کرتے ہوئے اس بحران کو سیاسی اور آئینی ذرایع سے حل کرے اور طاقت کے استعمال سے مکمل طور پر گریز کرے۔

سابق فوجی افسروں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ملک کے سیاسی لیڈر اپنے پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی اور قومی مفادات کا خیال نہیں رکھ سکے۔ اس تنظیم نے زور دیا ہے کہ آیندہ انتخابات مکمل طور پر صاف شفاف اور آزادانہ ہونے چاہئیں۔ اسی روز آدھی رات کے بعد آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں عمومی طور پر فوجی افسروں کی تنظیم کے خیالات کی حمایت کی گئی تھی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال تمام سٹیک ہولڈروں سے صبر و تحمل' عقل و دانش اور فہم و فراست کا تقاضا کرتی ہے۔ اس بحران کو بامعنی ڈائیلاگ کے ذریعے عوام کے مفاد میں حل کیا جانا چاہیے۔

کوئی بھی جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنا نہیں چاہتا لیکن نہ ہی موجودہ صورت حال میں جمہوریت قائم رہ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے بیٹھے ہوئے احتجاجی مظاہرین کہیں نہیں جائیں گے جب تک ان کے زیادہ تر مطالبات کو منظور نہیں کر لیا جاتا۔ شریف برادران کو زمینی حقائق تسلیم کرنا چاہئیں۔ گزشتہ سات دنوں نے ہماری جمہوریت کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے یہ ایک قابل خرید و فروخت جنس ہے جو کہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو مل جاتی ہے۔

جمہوریت کے موثر نفاذ کے لیے لازم ہے کہ اسے گراس روٹ کی سطح پر نافذ کیا جائے بصورت دیگر انفرادی سٹیک ہولڈرز کو کچھ نہیں مل سکتا۔ عمران خان اور طاہر القادری محض پاکستان کے عوام کی خواہشات کو پیش کر رہے ہیں جب کہ پاکستان کا آئین لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے یہ ایک بے معنی کاغذ کا ٹکڑا ہر گز نہیں ہے لیکن اگر عوام کے بنیادی حقوق کا خیال نہ رکھا جائے تو پھر اس کی اہمیت اس کاغذ جتنی بھی نہیں رہتی جس پر کہ یہ لکھا گیا ہے۔

شریف حکومت اب اپنی آدھی رات سے محض چند میل دور رہ گئی ہے۔
Load Next Story