غزہ میں پھول بھی کھلتے ہیں
دنیائے سیاست کا مزاج بدل چکا ہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ اور اقتدار کی ہوس نے اخلاقی قدروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔
FAISALABAD:
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں مختلف علاقے ہولناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ ان کھنڈرات میں زندگی کی دلکش آوازوں کے بجائے سسکیاں و آہیں گونجتی ہیں۔ غزہ کے شعر الشجاعیہ، الشاف اور آلتوفہ پر بمباری ہوتی رہی مگر دنیا کا ضمیر سویا رہا۔ اسی دوران حماس کے رہنما خلیل الحیا کے اہل خانہ بھی شہید ہو گئے۔ غزہ کے لیے قافلے پناہ کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔ وہ لاشوں کے اوپر سے گزرتے، راستہ بناتے آگے بڑھتے رہے۔ سفر میں منزل دور ہو تو راستے سراب بن جاتے ہیں۔ احساس کی جلاوطنی کا عذاب سہنے والے فلسطینی اب ستاروں میں اپنے پیاروں کے کھوئے ہوئے چہروں کو ڈھونڈتے ہیں۔
دنیائے سیاست کا مزاج بدل چکا ہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ اور اقتدار کی ہوس نے اخلاقی قدروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Larry Hardiman نے لفظ Politics کی تشریح نئے تناظر میں کی ہے۔ جس کے مطابق Poly کا مطلب زیادہ تعداد میں اور Tics کا مفہوم خون چوسنے والے پیراسائٹ ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی زوال پذیری کے بعد اب ایشیا کے لوگوں کو اپنے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
دوسری طرف 2006ء میں جب اکثریت میں ووٹ حاصل کر کے حماس مضبوط حمایت کے طور پر سامنے آئی تو یہ کہا گیا کہ حماس اب اسرائیل کو تباہ کر گزرے گا۔ بقول امریکی تجزیہ نگار کے کہ 2006ء میں حماس جیسے ہی نمایندہ جماعت بن کر ابھری تو امریکا اور اسرائیل نے فلسطین پر سخت پابندیاں عاید کر دیں، تو دوسری طرف اسرائیل نے ان کے خلاف تشدد کی لہر شروع کر دی۔''
حالانکہ بانکی مون کا دورہ قطر، فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی شمولیت بھی جنگ کو روکنے میں ناکام رہے۔
فلسطین کے شہروں پر بمباری ہوتی رہی۔ دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ غزہ سیاہ لباس اوڑھے اپنی بے بسی پر ماتم کرتا رہا۔ کوئی بھی ان نہتے لوگوں کا پرسان حال نہ تھا۔ مصر جو کبھی ان کا حامی ہوا کرتا تھا، اس نے بھی آنکھیں پھیر لیں، کیونکہ مصر کے فوجی حکمراں عبدالفتاح السیسی نے حماس کے حامی اخوان المسلمین کو روندتے ہوئے اقتدار کی کرسی تک رسائی حاصل کی ہے۔ فلسطینی، مصر جسے تعداد کم نظر آتی ہے۔
امریکا بھی خاموشی سے اسرائیل کے مظالم دیکھتا رہا۔ امریکا، اسرائیل کو دفاع کی خاطر سالانہ دو ارب ڈالر کی امداد دیتا ہے۔ اس نے اسرائیل کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے 750 ملین ڈالرز کے ہائی ٹیک اینٹی میزائل سسٹم آئرن ڈوم مہیا کرکے دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہتا اور غم زدہ غزہ اسرائیلی وحشت کا شکار ہو کے، خون کی ہولی میں ڈوب جاتا۔
ایک طرف بے گناہ لوگوں کی لاشیں بکھری ہوتیں تو دوسری طرف پاور پلانٹ کی تباہی کے بعد ہولناک تاریکی میں افسردہ مائیں سینہ کوبی کرتی رہتیں۔ بھوک و زخموں سے بے حال بے یارومددگار لوگ آسمان کی طرف دیکھ کر چیختے، خدا کو پکارتے اور آنسو بہاتے رہتے۔ اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا لڑکا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
''خدا ظالموں کو ضرور سزا دے گا۔ وہ اس کے قہر سے بچ نہیں پائیں گے۔''
بدی کے شکنجے بہت مضبوط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بدی کی قوتیں مکمل طور پر تباہ نہیں ہو سکتیں۔ وقتی طور پر پسپا ہو جاتی ہیں۔ ہر دور افق میں اہل زمین کے لیے سازش کا نیا جال بن لیتی ہیں اور روپ بدل کر لوٹ آتی ہیں۔ ان قوتوں کے لیے یہ تصور عام ہے کہ یہ ذات میں منتشر اور کمزور لوگوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
میں بھی مسلسل انٹرنیٹ پر مردہ و زخمی فلسطینی بچوں کے چہرے دیکھتی رہی۔ یہ چہرے خوبصورت ہیں، اور ادھ کھلی آنکھیں خوابوں سے بھرپور۔
کئی سالوں سے مختلف جنگوں میں معصوم بچوں کے خوابوں کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا رہا ہے۔ یہ بچے افغانستان کے ہوں یا شام، عراق و فلسطین سے تعلق رکھتے ہوں، گولیوں کی غذا بنتے رہے۔
بچے نفرت و تضاد سے مبرا ہیں۔ ان کی آنکھیں خواب دیکھتی ہیں۔ یہ خواب تعبیر کو راستہ فراہم کرتے ہیں۔ اس دنیا کی واحد خوشی اور امید یہ بچے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ پر شام کے بربریت کا شکار بچوں کی تصویر دیکھی تھی۔ قطار در قطار کفن میں لپٹے بے شمار بچے تھے اور ایک زندہ بچہ ان پر کودتے ہوئے کھیل رہا تھا۔
بچہ خوبصورت تھا، اس کے جسم میں زندگی کی حرارت سانس لیتی تھی۔ جب کہ کفن پوش بچوں کے خواب مر چکے تھے۔
تصویر کو دیکھ کر چونکا دینے والے دکھ کا احساس کئی دنوں تک جدید دنیا کی بے حسی پر ماتم کرتا رہا۔ اس کے بعد اب اسرائیلی بربریت کی گواہ تصویریں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ ایک ناقابل بیان دکھ کسک کی صورت چبھتا رہتا ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے روشن خواب زمین سے روٹھنے لگے ہوں شاید! پھولوں کے آنسو، تتلیوں کے رنگین پر، پرندوں کی چہچہاہٹ بھی اب ان تمام تر بچوں کو واپس نہیں لا سکتی۔ جو بھرپور زندگی جینے سے قبل ہی جبراً گہری نیند سلائے جا چکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کو امریکا اور یورپ اخلاقی مدد اور جنگی ساز و سامان مہیا کر رہے ہیں۔ عرب دنیا مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ البتہ برطانیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر فلسطین پر دوبارہ اسرائیلی دفاعی فورسز نے حملہ کیا تو برطانیہ، اسرائیل کو ہرگز ہتھیار فروخت نہیں کرے گا۔ جب کہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، خارجہ سیکریٹری فلپ ہیمنڈ اور نائب وزیر اعظم نک کلیگ نے اس فیصلے کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی برطانوی وزارت سے احتجاجاً استعفیٰ دے چکی ہیں۔ ضمیر کی سچائی کے سامنے تمام تر مراعات اور عہدے بے وقعت ہیں۔ وہ مستقل اسرائیلی جارحیت اور مغربی دنیا کی بے حسی پر احتجاج کرتی رہیں۔ سعیدہ کی نظر میں برطانوی سرکار کی سوچ اور زبان اخلاقی طور پر ناقابل دفاع رہے ہیں۔
دوسری طرف فلسطین میں ٹیئرگیس کے گرنیڈز میں ہر طرف رنگین پھول مہک رہے ہیں۔ یاسر عرفات کی آخری آرام گاہ رام اللہ شہر کے قریب واقع گاؤں بلن میں، ایک عورت ٹیئر گیس کے گرنیڈز جمع کر کے ان میں سرسبز پودے لگا رہی ہے، ان خوبصورت پودوں نے ایک باغ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ پھول اس سوچ کی نفی کر رہے ہیں کہ نفرت کا جواب نفرت سے آخر کب تک دیا جاتا رہے گا۔ پھول امن و محبت کے پیامبر ہیں۔ یہ رنگین مہکتے پھول پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر چکے ہیں۔ یہ پھول امن کا پیغام دے رہے ہیں۔
احساس کی نزاکت سے وابستہ یہ پھول فلسطینیوں کے تھکے حوصلوں کو امید اور سہارا دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لڑنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جذبہ ساتھ ہو تو آنکھوں کی پر عزم جنبش سے بھی لڑا جا سکتا ہے۔ اور بعض اوقات ظلمت کے اندھیروں میں مثبت سوچ سے بھی یقین کے ان گنت دیے جلائے جا سکتے ہیں۔ بلن کے اس چھوٹے سے باغیچے میں جب سہمی ہوا ان پھولوں کے قریب سے گزرتی ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے فلسطین کے ہزاروں لاکھوں گمشدہ اور موجود نسلیں امن کا ترانا گا رہی ہوں اور ان پھولوں میں ان کی پرامید خوابوں سے روشن آنکھیں لہلہاتی ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں مختلف علاقے ہولناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ ان کھنڈرات میں زندگی کی دلکش آوازوں کے بجائے سسکیاں و آہیں گونجتی ہیں۔ غزہ کے شعر الشجاعیہ، الشاف اور آلتوفہ پر بمباری ہوتی رہی مگر دنیا کا ضمیر سویا رہا۔ اسی دوران حماس کے رہنما خلیل الحیا کے اہل خانہ بھی شہید ہو گئے۔ غزہ کے لیے قافلے پناہ کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔ وہ لاشوں کے اوپر سے گزرتے، راستہ بناتے آگے بڑھتے رہے۔ سفر میں منزل دور ہو تو راستے سراب بن جاتے ہیں۔ احساس کی جلاوطنی کا عذاب سہنے والے فلسطینی اب ستاروں میں اپنے پیاروں کے کھوئے ہوئے چہروں کو ڈھونڈتے ہیں۔
دنیائے سیاست کا مزاج بدل چکا ہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ اور اقتدار کی ہوس نے اخلاقی قدروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Larry Hardiman نے لفظ Politics کی تشریح نئے تناظر میں کی ہے۔ جس کے مطابق Poly کا مطلب زیادہ تعداد میں اور Tics کا مفہوم خون چوسنے والے پیراسائٹ ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی زوال پذیری کے بعد اب ایشیا کے لوگوں کو اپنے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
دوسری طرف 2006ء میں جب اکثریت میں ووٹ حاصل کر کے حماس مضبوط حمایت کے طور پر سامنے آئی تو یہ کہا گیا کہ حماس اب اسرائیل کو تباہ کر گزرے گا۔ بقول امریکی تجزیہ نگار کے کہ 2006ء میں حماس جیسے ہی نمایندہ جماعت بن کر ابھری تو امریکا اور اسرائیل نے فلسطین پر سخت پابندیاں عاید کر دیں، تو دوسری طرف اسرائیل نے ان کے خلاف تشدد کی لہر شروع کر دی۔''
حالانکہ بانکی مون کا دورہ قطر، فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی شمولیت بھی جنگ کو روکنے میں ناکام رہے۔
فلسطین کے شہروں پر بمباری ہوتی رہی۔ دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ غزہ سیاہ لباس اوڑھے اپنی بے بسی پر ماتم کرتا رہا۔ کوئی بھی ان نہتے لوگوں کا پرسان حال نہ تھا۔ مصر جو کبھی ان کا حامی ہوا کرتا تھا، اس نے بھی آنکھیں پھیر لیں، کیونکہ مصر کے فوجی حکمراں عبدالفتاح السیسی نے حماس کے حامی اخوان المسلمین کو روندتے ہوئے اقتدار کی کرسی تک رسائی حاصل کی ہے۔ فلسطینی، مصر جسے تعداد کم نظر آتی ہے۔
امریکا بھی خاموشی سے اسرائیل کے مظالم دیکھتا رہا۔ امریکا، اسرائیل کو دفاع کی خاطر سالانہ دو ارب ڈالر کی امداد دیتا ہے۔ اس نے اسرائیل کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے 750 ملین ڈالرز کے ہائی ٹیک اینٹی میزائل سسٹم آئرن ڈوم مہیا کرکے دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہتا اور غم زدہ غزہ اسرائیلی وحشت کا شکار ہو کے، خون کی ہولی میں ڈوب جاتا۔
ایک طرف بے گناہ لوگوں کی لاشیں بکھری ہوتیں تو دوسری طرف پاور پلانٹ کی تباہی کے بعد ہولناک تاریکی میں افسردہ مائیں سینہ کوبی کرتی رہتیں۔ بھوک و زخموں سے بے حال بے یارومددگار لوگ آسمان کی طرف دیکھ کر چیختے، خدا کو پکارتے اور آنسو بہاتے رہتے۔ اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا لڑکا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
''خدا ظالموں کو ضرور سزا دے گا۔ وہ اس کے قہر سے بچ نہیں پائیں گے۔''
بدی کے شکنجے بہت مضبوط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بدی کی قوتیں مکمل طور پر تباہ نہیں ہو سکتیں۔ وقتی طور پر پسپا ہو جاتی ہیں۔ ہر دور افق میں اہل زمین کے لیے سازش کا نیا جال بن لیتی ہیں اور روپ بدل کر لوٹ آتی ہیں۔ ان قوتوں کے لیے یہ تصور عام ہے کہ یہ ذات میں منتشر اور کمزور لوگوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
میں بھی مسلسل انٹرنیٹ پر مردہ و زخمی فلسطینی بچوں کے چہرے دیکھتی رہی۔ یہ چہرے خوبصورت ہیں، اور ادھ کھلی آنکھیں خوابوں سے بھرپور۔
کئی سالوں سے مختلف جنگوں میں معصوم بچوں کے خوابوں کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا رہا ہے۔ یہ بچے افغانستان کے ہوں یا شام، عراق و فلسطین سے تعلق رکھتے ہوں، گولیوں کی غذا بنتے رہے۔
بچے نفرت و تضاد سے مبرا ہیں۔ ان کی آنکھیں خواب دیکھتی ہیں۔ یہ خواب تعبیر کو راستہ فراہم کرتے ہیں۔ اس دنیا کی واحد خوشی اور امید یہ بچے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ پر شام کے بربریت کا شکار بچوں کی تصویر دیکھی تھی۔ قطار در قطار کفن میں لپٹے بے شمار بچے تھے اور ایک زندہ بچہ ان پر کودتے ہوئے کھیل رہا تھا۔
بچہ خوبصورت تھا، اس کے جسم میں زندگی کی حرارت سانس لیتی تھی۔ جب کہ کفن پوش بچوں کے خواب مر چکے تھے۔
تصویر کو دیکھ کر چونکا دینے والے دکھ کا احساس کئی دنوں تک جدید دنیا کی بے حسی پر ماتم کرتا رہا۔ اس کے بعد اب اسرائیلی بربریت کی گواہ تصویریں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ ایک ناقابل بیان دکھ کسک کی صورت چبھتا رہتا ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے روشن خواب زمین سے روٹھنے لگے ہوں شاید! پھولوں کے آنسو، تتلیوں کے رنگین پر، پرندوں کی چہچہاہٹ بھی اب ان تمام تر بچوں کو واپس نہیں لا سکتی۔ جو بھرپور زندگی جینے سے قبل ہی جبراً گہری نیند سلائے جا چکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کو امریکا اور یورپ اخلاقی مدد اور جنگی ساز و سامان مہیا کر رہے ہیں۔ عرب دنیا مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ البتہ برطانیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر فلسطین پر دوبارہ اسرائیلی دفاعی فورسز نے حملہ کیا تو برطانیہ، اسرائیل کو ہرگز ہتھیار فروخت نہیں کرے گا۔ جب کہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، خارجہ سیکریٹری فلپ ہیمنڈ اور نائب وزیر اعظم نک کلیگ نے اس فیصلے کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی برطانوی وزارت سے احتجاجاً استعفیٰ دے چکی ہیں۔ ضمیر کی سچائی کے سامنے تمام تر مراعات اور عہدے بے وقعت ہیں۔ وہ مستقل اسرائیلی جارحیت اور مغربی دنیا کی بے حسی پر احتجاج کرتی رہیں۔ سعیدہ کی نظر میں برطانوی سرکار کی سوچ اور زبان اخلاقی طور پر ناقابل دفاع رہے ہیں۔
دوسری طرف فلسطین میں ٹیئرگیس کے گرنیڈز میں ہر طرف رنگین پھول مہک رہے ہیں۔ یاسر عرفات کی آخری آرام گاہ رام اللہ شہر کے قریب واقع گاؤں بلن میں، ایک عورت ٹیئر گیس کے گرنیڈز جمع کر کے ان میں سرسبز پودے لگا رہی ہے، ان خوبصورت پودوں نے ایک باغ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ پھول اس سوچ کی نفی کر رہے ہیں کہ نفرت کا جواب نفرت سے آخر کب تک دیا جاتا رہے گا۔ پھول امن و محبت کے پیامبر ہیں۔ یہ رنگین مہکتے پھول پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر چکے ہیں۔ یہ پھول امن کا پیغام دے رہے ہیں۔
احساس کی نزاکت سے وابستہ یہ پھول فلسطینیوں کے تھکے حوصلوں کو امید اور سہارا دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لڑنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جذبہ ساتھ ہو تو آنکھوں کی پر عزم جنبش سے بھی لڑا جا سکتا ہے۔ اور بعض اوقات ظلمت کے اندھیروں میں مثبت سوچ سے بھی یقین کے ان گنت دیے جلائے جا سکتے ہیں۔ بلن کے اس چھوٹے سے باغیچے میں جب سہمی ہوا ان پھولوں کے قریب سے گزرتی ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے فلسطین کے ہزاروں لاکھوں گمشدہ اور موجود نسلیں امن کا ترانا گا رہی ہوں اور ان پھولوں میں ان کی پرامید خوابوں سے روشن آنکھیں لہلہاتی ہیں۔