ایک پراسرار کہانی
اور جب میاں صاحب کہتے ہیں؛ اٹھارہ کروڑ عوام اُن کے ساتھ کھڑے ہیں ۔۔۔
یہ آپ کی کہانی ہے!
ہفتے کی صبح آپ بیدار ہوئے، تو کھڑکی کے باہر دبیز دھند چھائی تھی۔ مکان اندھیرے میں ڈوبا ہوا۔ شاید بارش کے باعث بجلی کے تار ٹوٹ گئے۔ ٹیلی فون لائن بھی معطل۔ دفتر جاتے ہوئے راستے میں ٹائر پنکچر ہو گیا۔ دفتر سے چند کلومیٹر دور طوفانی بارش نے آ لیا۔ سڑکیں پانی سے بھر گئیں۔ آپ بھیگتے ہوئے، کیچڑ، ٹریفک اور رکاوٹیں عبور کر کے بمشکل دفتر پہنچے۔ ابھی سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ اسسٹنٹ سر پر آن کھڑا ہوا۔ اُس کے سہمے ہوئے چہرے میں ایک چیخ چھپی تھی۔ ''سر۔۔۔ کیا آپ حکومت کا تختہ الٹنے والے ہیں؟''
حیرت سے آپ بت بن گئے۔ سہمے ہوئے اسسٹنٹ نے کھنکھار کر بت توڑا۔ ''سر، میرا مشورہ ہے کہ فوراً یہاں سے نکل جائیں۔ خفیہ پولیس کے اہل کار آتے ہی ہوں گے۔ غداری کی سزا موت۔۔۔''
یہ آپ کی کہانی ہے!
اور اتوار کی مبہوت کر دینے والی شام، جب آپ بیوی بچوں کے ساتھ چائے پی رہے ہوتے ہیں ، ٹیلی فون بجتا ہے۔ دوسری طرف لندن میں مقیم آپ کا چھوٹا بھائی ہے۔ گھبرایا ہوا۔ بوکھلایا ہوا۔ ''بھائی جان۔ یہ وزیر اعظم کی حمایت کرنے کی کیا سوجھی؟ بھابھی اور بچوں کا تو سوچتے۔ حکومت تو چند دن کی مہمان ہے۔ انقلابی آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔ ''
آپ کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ چائے کا کپ ہاتھ سے گر جاتا ہے۔ بچہ رونے لگتا ہے۔
سوموار کی آسیبی سہ پہر چپڑاسی چہرے پر شاطر مسکراہٹ سجائے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ جب آپ بے وجہ مسکرانے کی وجہ پوچھتے ہیں، تو وہ آنکھ مارتے ہوئے کہتا: ''صاحب، مجھے شروع ہی سے شک تھا کہ آپ انقلابی ہیں۔''
''انقلابی؟'' تحیر کے بوجھ سے آپ کی آواز حلق میں اٹک جاتی ہے۔ چپڑاسی دوبارہ آنکھ مارتا ہے۔
تو یہ آپ کی کہانی ہے۔ اور اِس قصّے میں اُس سرد رات کا بھی تذکرہ ہے، جب آپ کو ایک بھولے بسرے دوست کی، جسے روس بھجوانے کا انتظام آپ ہی نے کیا تھا، ای۔ میل موصول ہوئی۔ وہ لکھتا ہے: ''اچھا، تو اب تمھیں ملک میں مذہبی نظام چاہیے۔ ہمیں کمیونسٹ بنا کر خود خلیفہ بننے کا ارادہ ہے۔ غدار۔''
اس پریشان کن ای۔ میل کے چند روز بعد، جب آپ پارک میں چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں، موبائل پر ایک پیغام موصول ہوتا ہے : ''اگر آیندہ سوشل ازم کا لفظ منہ سے نکالا، تو زبان گدی سے کھینچ لیں گے۔ تم سرخوں کو یہ آخری وارننگ ہے۔''
تو دوستو، یہ آپ کی کہانی ہے۔ گو آپ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ حیرت چہرے پر۔ گردن نفی میں ہل رہی ہے۔ آپ ان واقعات کو من گھڑت ٹھہرا رہے ہیں۔ نہیں جناب۔ یہ مشکوک ضرور ہے۔ واقعات ناقابل فہم بھی، مگر من گھڑت نہیں۔ یہ بالکل سچی کہانی ہے۔ میرا یقین کریں۔ کیا آپ بھول گئے۔۔۔ یہ آپ ہی تو ہیں، جس نے گزشتہ چھ عشروں میں جمہوری حکومتوں کے تختے الٹے۔ یہ آپ ہیں جناب، جس نے کرپٹ سیاست دانوں کا ساتھ دیا۔ اور یہ آپ ہیں، جس نے چھوٹے بڑے، سرخ سبز انقلابات کی زمین تیار کی۔ ذرا یاد کرنے کی کوشش کریں، یہ آپ ہی تو ہیں، جس نے ملک میں مذہبی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگایا۔ اور جس نے ملک کی دیواروں کو لینن کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔
اور یہ سن کر شاید آپ کو مزید حیرانی ہو کہ یہ فقط آپ کی کہانی نہیں۔ یہ تو اٹھارہ کروڑ عوام کی کہانی ہے۔ پاکستان کے ہر فرد کی، ہر شہری، ہر دیہاتی کی کہانی۔ ہر استاد، ہر شاگرد کی، ہر قاتل، ہر مقتول کی، ہر مصنف، ہر قاری کی کہانی۔ یہ آپ سب کی کہانی ہے۔
شاید آپ یقین نہ کریں، مگر جب قادری صاحب کہتے ہیں؛ اٹھارہ کروڑ عوام حکومت کا تختہ الٹ دیں گے، تب وہ آپ ہی کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ آپ اس سازش، کھیل یا کہانی میں پوری طرح شامل ہیں۔ آپ اٹھارہ کروڑ عوام کا حصہ جو ہیں۔
اور جب میاں صاحب کہتے ہیں؛ اٹھارہ کروڑ عوام اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، تو یہ آپ ہوتے ہیں، جو ان کی لرزتی حکومت کو اپنے توانا کاندھوں پر سنبھالے ہوتے ہیں۔ آپ جیسے اٹھارہ کروڑ افراد ہی تو اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔ اور جب عمران خان اٹھارہ کروڑ عوام کے انقلاب کی بات کرتے ہیں، تو آپ اس پُر خطر منصوبے، اُس سول نافرمانی کی تحریک میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تحریک آپ ہی کے مشورے کا ثمر ہوتی ہے۔ مذہبی نظام کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں آپ کا تذکرہ کرنا کبھی نہیں بھولتیں۔ ہمیشہ کہتی ہیں، اُنھیں اٹھارہ کروڑ عوام، یعنی آپ کی حمایت حاصل ہے۔ اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لگانے والے بھٹو صاحب کے ساتھ بھی تو آپ تھے۔ آپ ہی نے ضیاء الحق مرحوم کو یقین دلایا کہ ملک میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ آپ نے پرویز مشرف کو بلدیاتی نظام کا مشورہ دیا، اور آپ ہی نے زرداری حکومت کو بلدیاتی انتخابات سے باز رکھا۔
لاعلمی ترک کیجیے۔ یہ ہنگامہ آپ کی وجہ سے برپا ہے۔ ہر پراسرار واقعے کے پیچھے آپ ہیں۔ حادثات، سانحات آپ کے دم سے۔ انتشار، خلفشار کے محرک آپ۔ آپ اٹھارہ کروڑ فسادیوں نے بے چارے سیاست دانوں، مظلوم آمروں، شریف النفس رائے عامہ کے نمایندوں اور مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی ڈور تھام رکھی ہے۔ جان لیں، آپ اٹھارہ کروڑ نے اُنھیں یرغمال بنا رکھا ہے۔
تو یہ آپ کی کہانی ہے۔ اور اگر جان کی امان پائوں، تو عرض کروں کہ اس عجیب و غریب کہانی کے مصنف بھی آپ ہیں۔ میاں صاحب، آصف علی زرداری، عمران خان، طاہر القادری، سراج الحق؛ یہ سب تو فقط کردار ہیں۔ آپ کے اشاروں پر چلنے والے کردار۔ سارے بگاڑ کے ذمے دار آپ۔
آپ اپنے عظیم کارناموں اور اپنے اثر و رسوخ سے یوں لاعلم رہے کہ آپ نے کبھی خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی۔ آپ اقبال کے شاہین اور نطشے کے سپرمین ہیں۔ ''انقلاب مارچ '' نامی پُرتجسس ناول آپ ہی کے قلم سے نکلا ہے۔ ''شیر آیا'' نامی مسٹری فلم آپ ہی نے ڈائریکٹ کی ہے۔ ''جمہوریت بہترین انتقام '' نامی تجریدی فن پارہ آپ نے بنایا ہے۔''میڈیا آزاد ہے'' جیسا انقلابی گیت آپ ہی نے تو لکھا ہے۔
افسوس، آپ اٹھارہ کروڑ عوام ایک عرصے تک اپنے برپا کردہ فسادات سے بے خبر رہے۔ گو نیک نیت حکمراں، سیاست داں، آمر دھرنے جلسے کرکے، مارشل لگا کر، ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنا کر بار بار آپ کو یہ اہم ترین اطلاع پہنچاتے رہے، اِس اسرار سے پردہ اٹھاتے رہے، مسلسل سمجھاتے رہے۔ اب کہیں جا کر یہ بات آپ سمجھ پائیں گے۔ ان کا شکریہ ادا کریں۔ ورنہ تو آپ لاعلمی ہی میں مر جاتے۔ کبھی نہ جان پاتے کہ اس ملک میں رونما ہونے والے ہر اچھے برے واقعے کے پیچھے؛ آپ ہیں۔
ابھی وقت ہے۔ اِس انکشاف پر جی کھول کر جشن منالیں۔ خوش ہولیں۔ کیا خبر، کل خوش ہونے کے حق پر پابندی لگ جائے، اور جواز یہ دیا جائے کہ ایسا اٹھارہ کروڑ عوام کے مطالبے اور ان کے عظیم مفاد میں کیا گیا ہے۔
تو تھوڑا خوش ہو لیں۔ اور ویسے بھی یہ آپ کی کہانی ہے۔
ہفتے کی صبح آپ بیدار ہوئے، تو کھڑکی کے باہر دبیز دھند چھائی تھی۔ مکان اندھیرے میں ڈوبا ہوا۔ شاید بارش کے باعث بجلی کے تار ٹوٹ گئے۔ ٹیلی فون لائن بھی معطل۔ دفتر جاتے ہوئے راستے میں ٹائر پنکچر ہو گیا۔ دفتر سے چند کلومیٹر دور طوفانی بارش نے آ لیا۔ سڑکیں پانی سے بھر گئیں۔ آپ بھیگتے ہوئے، کیچڑ، ٹریفک اور رکاوٹیں عبور کر کے بمشکل دفتر پہنچے۔ ابھی سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ اسسٹنٹ سر پر آن کھڑا ہوا۔ اُس کے سہمے ہوئے چہرے میں ایک چیخ چھپی تھی۔ ''سر۔۔۔ کیا آپ حکومت کا تختہ الٹنے والے ہیں؟''
حیرت سے آپ بت بن گئے۔ سہمے ہوئے اسسٹنٹ نے کھنکھار کر بت توڑا۔ ''سر، میرا مشورہ ہے کہ فوراً یہاں سے نکل جائیں۔ خفیہ پولیس کے اہل کار آتے ہی ہوں گے۔ غداری کی سزا موت۔۔۔''
یہ آپ کی کہانی ہے!
اور اتوار کی مبہوت کر دینے والی شام، جب آپ بیوی بچوں کے ساتھ چائے پی رہے ہوتے ہیں ، ٹیلی فون بجتا ہے۔ دوسری طرف لندن میں مقیم آپ کا چھوٹا بھائی ہے۔ گھبرایا ہوا۔ بوکھلایا ہوا۔ ''بھائی جان۔ یہ وزیر اعظم کی حمایت کرنے کی کیا سوجھی؟ بھابھی اور بچوں کا تو سوچتے۔ حکومت تو چند دن کی مہمان ہے۔ انقلابی آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔ ''
آپ کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ چائے کا کپ ہاتھ سے گر جاتا ہے۔ بچہ رونے لگتا ہے۔
سوموار کی آسیبی سہ پہر چپڑاسی چہرے پر شاطر مسکراہٹ سجائے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ جب آپ بے وجہ مسکرانے کی وجہ پوچھتے ہیں، تو وہ آنکھ مارتے ہوئے کہتا: ''صاحب، مجھے شروع ہی سے شک تھا کہ آپ انقلابی ہیں۔''
''انقلابی؟'' تحیر کے بوجھ سے آپ کی آواز حلق میں اٹک جاتی ہے۔ چپڑاسی دوبارہ آنکھ مارتا ہے۔
تو یہ آپ کی کہانی ہے۔ اور اِس قصّے میں اُس سرد رات کا بھی تذکرہ ہے، جب آپ کو ایک بھولے بسرے دوست کی، جسے روس بھجوانے کا انتظام آپ ہی نے کیا تھا، ای۔ میل موصول ہوئی۔ وہ لکھتا ہے: ''اچھا، تو اب تمھیں ملک میں مذہبی نظام چاہیے۔ ہمیں کمیونسٹ بنا کر خود خلیفہ بننے کا ارادہ ہے۔ غدار۔''
اس پریشان کن ای۔ میل کے چند روز بعد، جب آپ پارک میں چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں، موبائل پر ایک پیغام موصول ہوتا ہے : ''اگر آیندہ سوشل ازم کا لفظ منہ سے نکالا، تو زبان گدی سے کھینچ لیں گے۔ تم سرخوں کو یہ آخری وارننگ ہے۔''
تو دوستو، یہ آپ کی کہانی ہے۔ گو آپ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ حیرت چہرے پر۔ گردن نفی میں ہل رہی ہے۔ آپ ان واقعات کو من گھڑت ٹھہرا رہے ہیں۔ نہیں جناب۔ یہ مشکوک ضرور ہے۔ واقعات ناقابل فہم بھی، مگر من گھڑت نہیں۔ یہ بالکل سچی کہانی ہے۔ میرا یقین کریں۔ کیا آپ بھول گئے۔۔۔ یہ آپ ہی تو ہیں، جس نے گزشتہ چھ عشروں میں جمہوری حکومتوں کے تختے الٹے۔ یہ آپ ہیں جناب، جس نے کرپٹ سیاست دانوں کا ساتھ دیا۔ اور یہ آپ ہیں، جس نے چھوٹے بڑے، سرخ سبز انقلابات کی زمین تیار کی۔ ذرا یاد کرنے کی کوشش کریں، یہ آپ ہی تو ہیں، جس نے ملک میں مذہبی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگایا۔ اور جس نے ملک کی دیواروں کو لینن کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔
اور یہ سن کر شاید آپ کو مزید حیرانی ہو کہ یہ فقط آپ کی کہانی نہیں۔ یہ تو اٹھارہ کروڑ عوام کی کہانی ہے۔ پاکستان کے ہر فرد کی، ہر شہری، ہر دیہاتی کی کہانی۔ ہر استاد، ہر شاگرد کی، ہر قاتل، ہر مقتول کی، ہر مصنف، ہر قاری کی کہانی۔ یہ آپ سب کی کہانی ہے۔
شاید آپ یقین نہ کریں، مگر جب قادری صاحب کہتے ہیں؛ اٹھارہ کروڑ عوام حکومت کا تختہ الٹ دیں گے، تب وہ آپ ہی کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ آپ اس سازش، کھیل یا کہانی میں پوری طرح شامل ہیں۔ آپ اٹھارہ کروڑ عوام کا حصہ جو ہیں۔
اور جب میاں صاحب کہتے ہیں؛ اٹھارہ کروڑ عوام اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، تو یہ آپ ہوتے ہیں، جو ان کی لرزتی حکومت کو اپنے توانا کاندھوں پر سنبھالے ہوتے ہیں۔ آپ جیسے اٹھارہ کروڑ افراد ہی تو اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔ اور جب عمران خان اٹھارہ کروڑ عوام کے انقلاب کی بات کرتے ہیں، تو آپ اس پُر خطر منصوبے، اُس سول نافرمانی کی تحریک میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تحریک آپ ہی کے مشورے کا ثمر ہوتی ہے۔ مذہبی نظام کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں آپ کا تذکرہ کرنا کبھی نہیں بھولتیں۔ ہمیشہ کہتی ہیں، اُنھیں اٹھارہ کروڑ عوام، یعنی آپ کی حمایت حاصل ہے۔ اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لگانے والے بھٹو صاحب کے ساتھ بھی تو آپ تھے۔ آپ ہی نے ضیاء الحق مرحوم کو یقین دلایا کہ ملک میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ آپ نے پرویز مشرف کو بلدیاتی نظام کا مشورہ دیا، اور آپ ہی نے زرداری حکومت کو بلدیاتی انتخابات سے باز رکھا۔
لاعلمی ترک کیجیے۔ یہ ہنگامہ آپ کی وجہ سے برپا ہے۔ ہر پراسرار واقعے کے پیچھے آپ ہیں۔ حادثات، سانحات آپ کے دم سے۔ انتشار، خلفشار کے محرک آپ۔ آپ اٹھارہ کروڑ فسادیوں نے بے چارے سیاست دانوں، مظلوم آمروں، شریف النفس رائے عامہ کے نمایندوں اور مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی ڈور تھام رکھی ہے۔ جان لیں، آپ اٹھارہ کروڑ نے اُنھیں یرغمال بنا رکھا ہے۔
تو یہ آپ کی کہانی ہے۔ اور اگر جان کی امان پائوں، تو عرض کروں کہ اس عجیب و غریب کہانی کے مصنف بھی آپ ہیں۔ میاں صاحب، آصف علی زرداری، عمران خان، طاہر القادری، سراج الحق؛ یہ سب تو فقط کردار ہیں۔ آپ کے اشاروں پر چلنے والے کردار۔ سارے بگاڑ کے ذمے دار آپ۔
آپ اپنے عظیم کارناموں اور اپنے اثر و رسوخ سے یوں لاعلم رہے کہ آپ نے کبھی خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی۔ آپ اقبال کے شاہین اور نطشے کے سپرمین ہیں۔ ''انقلاب مارچ '' نامی پُرتجسس ناول آپ ہی کے قلم سے نکلا ہے۔ ''شیر آیا'' نامی مسٹری فلم آپ ہی نے ڈائریکٹ کی ہے۔ ''جمہوریت بہترین انتقام '' نامی تجریدی فن پارہ آپ نے بنایا ہے۔''میڈیا آزاد ہے'' جیسا انقلابی گیت آپ ہی نے تو لکھا ہے۔
افسوس، آپ اٹھارہ کروڑ عوام ایک عرصے تک اپنے برپا کردہ فسادات سے بے خبر رہے۔ گو نیک نیت حکمراں، سیاست داں، آمر دھرنے جلسے کرکے، مارشل لگا کر، ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنا کر بار بار آپ کو یہ اہم ترین اطلاع پہنچاتے رہے، اِس اسرار سے پردہ اٹھاتے رہے، مسلسل سمجھاتے رہے۔ اب کہیں جا کر یہ بات آپ سمجھ پائیں گے۔ ان کا شکریہ ادا کریں۔ ورنہ تو آپ لاعلمی ہی میں مر جاتے۔ کبھی نہ جان پاتے کہ اس ملک میں رونما ہونے والے ہر اچھے برے واقعے کے پیچھے؛ آپ ہیں۔
ابھی وقت ہے۔ اِس انکشاف پر جی کھول کر جشن منالیں۔ خوش ہولیں۔ کیا خبر، کل خوش ہونے کے حق پر پابندی لگ جائے، اور جواز یہ دیا جائے کہ ایسا اٹھارہ کروڑ عوام کے مطالبے اور ان کے عظیم مفاد میں کیا گیا ہے۔
تو تھوڑا خوش ہو لیں۔ اور ویسے بھی یہ آپ کی کہانی ہے۔