شہر کے وسائل پر ٹینکر لینڈ اور کچی آباد مافیا کا قبضہ ہے ایڈمنسٹریٹر
نالوں اور دیگر زمینوں پر عمارتیں اور کچی آبادیاں تعمیر کرلی گئیں، کے فور منصوبے کے بغیر شہریوں کو پانی نہیں مل سکتا
ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی نے کہا ہے کہ کراچی کی آبادی میں ملک کے دیگر شہروںکی نسبت 6 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے جس میں بیرونی آمد کا حصہ 3 فیصد ہے۔
آبادی کے تیزرفتار اضافے سے شہر کا انفرااسٹر کچر دباؤ کی زد میں ہے اورمسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں، اس کے برعکس بلدیہ کے وسائل میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہورہا، کے ایم سی سالانہ 94 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل کرتا ہے لیکن اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ماہانہ ایک ارب روپے کی ادائیگیاں کرتا ہے، ان حقائق کے تناظر میں شہری امور کو کس طرح چلایا جائے،یہ بات انھوں نے پاکستان ٹینرزایسوسی ایشن (سدرن زون) کی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔
اس موقع پرڈپٹی کمشنر کورنگی زبیر چنا، ایس ایس پی کورنگی نذیر احمد، ایسوسی ایشن کے صدرگلزار فیروز اقبال جاوید اور دیگر عہدیداران موجود تھے ، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے کوششوں کے ساتھ مذاکرے بھی ہونے چاہیں کہ مسائل کیسے حل ہوں حکومت سندھ، وزیراعلیٰ، گورنر سندھ اور وزیر بلدیات کی مکمل توجہ اور سرپرستی ہے کہ کراچی کے مسائل حل ہوں اور شہریوں کو سہولتیں حاصل ہوں، اس کے لیے عملی کام بھی ہورہے ہیں اور ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں،بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی سطح کے بڑے پیکیج کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی کے تاجر و صنعت کار قابل احترام ہیں ان کے دیے ہوئے ٹیکس پر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی 70 فیصدریونیو دیتا ہے،ان کے مسائل حل ہونا چاہیں، ادارے اپنے طور پر یہ کوشش بھی کرتے ہیں تب ہی شہر چل رہا ہے، شہر میں بے شمار مافیا بن چکی ہیں، ٹینکرز مافیا، لینڈ مافیا، کچی آبادی مافیا اور دیگر کی جانب سے وسائل پر قبضے سے مسائل میں اضافہ ہوا، کراچی کے انتظامی افسران اور حکومت کی کوششوں سے حالات خراب نہیں ہوتے کے فور منصوبے کے بغیر کراچی کے شہریوں کو پانی نہیں مل سکتا اگر یہ منصوبہ آج شروع ہو تو 5 سال میں مکمل ہوگا 6 فیصد آبادی کے اضافے کے بعد 5 سال بعد پانی کی اتنی کمی ہوگی جتنی آج ہے لہٰذا کراچی کو خصوصی فنڈ ملنا چاہیے۔
بلدیہ عظمیٰ کے وسائل میں اضافہ کیا جارہا ہے ہم نے وسائل میں اضافے کیلیے متعدد اقدامات کیے ہیں اس سے بہتری آئے گی، انھوں نے کہا کہ نالوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے بڑی بڑی عمارتیں اورکچی آبادیاں تعمیر ہوگئیں ان کو ہٹانے کے لیے بڑے فیصلے کی ضرورت ہے، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ آج جو کراچی چل رہا ہے وہ کراچی کے انتظامی افسران کی وجہ سے کیونکہ وہ محدود وسائل میں سخت محنت سے نتائج دے رہے ہیں تجاوزات مافیا طاقتور ہے ہم نے سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ کوصاف کیا اور صدر میں بھی تجاوزات ہٹائیں مگر یہ روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے لہٰذا جہاں تجاوزات ہٹائی جائیں۔
اس علاقے کے لوگ اس کو اون کریں اور دوبارہ نہ لگنے دیں مگر ہوتا یہ ہے کہ یہ دوبارہ لگنا شروع ہوجاتی ہیں تجاوزات ہٹانے میں ہمارے 2 افسر شہید ہوئے،تجاوزات کی صفائی کے بعد وہاں لوگ دوبارہ آتے ہیں جن کا تعلق کسی پلیٹ فارم یا این جی اوز سے ہوتا ہے تاہم اس پر ہماری توجہ رہے گی اوراس مافیا کا پیچھا کرتے رہیں گے، گلزار فیروز نے کہا کہ سیکٹر 7-A میں بعض افراد نے سیوریج لائن پر قبضہ کرلیا جبکہ 5000 سڑک کی مرمت کی بھی ضرورت ہے انھو ںنے کہا کہ صنعت کار چاہتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے ہمارے اشتراک سے علاقہ کو بہتر بنائیں انہیں ہمارا تعاون حاصل رہے گا۔
آبادی کے تیزرفتار اضافے سے شہر کا انفرااسٹر کچر دباؤ کی زد میں ہے اورمسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں، اس کے برعکس بلدیہ کے وسائل میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہورہا، کے ایم سی سالانہ 94 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل کرتا ہے لیکن اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ماہانہ ایک ارب روپے کی ادائیگیاں کرتا ہے، ان حقائق کے تناظر میں شہری امور کو کس طرح چلایا جائے،یہ بات انھوں نے پاکستان ٹینرزایسوسی ایشن (سدرن زون) کی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔
اس موقع پرڈپٹی کمشنر کورنگی زبیر چنا، ایس ایس پی کورنگی نذیر احمد، ایسوسی ایشن کے صدرگلزار فیروز اقبال جاوید اور دیگر عہدیداران موجود تھے ، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے کوششوں کے ساتھ مذاکرے بھی ہونے چاہیں کہ مسائل کیسے حل ہوں حکومت سندھ، وزیراعلیٰ، گورنر سندھ اور وزیر بلدیات کی مکمل توجہ اور سرپرستی ہے کہ کراچی کے مسائل حل ہوں اور شہریوں کو سہولتیں حاصل ہوں، اس کے لیے عملی کام بھی ہورہے ہیں اور ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں،بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وفاقی سطح کے بڑے پیکیج کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی کے تاجر و صنعت کار قابل احترام ہیں ان کے دیے ہوئے ٹیکس پر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی 70 فیصدریونیو دیتا ہے،ان کے مسائل حل ہونا چاہیں، ادارے اپنے طور پر یہ کوشش بھی کرتے ہیں تب ہی شہر چل رہا ہے، شہر میں بے شمار مافیا بن چکی ہیں، ٹینکرز مافیا، لینڈ مافیا، کچی آبادی مافیا اور دیگر کی جانب سے وسائل پر قبضے سے مسائل میں اضافہ ہوا، کراچی کے انتظامی افسران اور حکومت کی کوششوں سے حالات خراب نہیں ہوتے کے فور منصوبے کے بغیر کراچی کے شہریوں کو پانی نہیں مل سکتا اگر یہ منصوبہ آج شروع ہو تو 5 سال میں مکمل ہوگا 6 فیصد آبادی کے اضافے کے بعد 5 سال بعد پانی کی اتنی کمی ہوگی جتنی آج ہے لہٰذا کراچی کو خصوصی فنڈ ملنا چاہیے۔
بلدیہ عظمیٰ کے وسائل میں اضافہ کیا جارہا ہے ہم نے وسائل میں اضافے کیلیے متعدد اقدامات کیے ہیں اس سے بہتری آئے گی، انھوں نے کہا کہ نالوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے بڑی بڑی عمارتیں اورکچی آبادیاں تعمیر ہوگئیں ان کو ہٹانے کے لیے بڑے فیصلے کی ضرورت ہے، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ آج جو کراچی چل رہا ہے وہ کراچی کے انتظامی افسران کی وجہ سے کیونکہ وہ محدود وسائل میں سخت محنت سے نتائج دے رہے ہیں تجاوزات مافیا طاقتور ہے ہم نے سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ کوصاف کیا اور صدر میں بھی تجاوزات ہٹائیں مگر یہ روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے لہٰذا جہاں تجاوزات ہٹائی جائیں۔
اس علاقے کے لوگ اس کو اون کریں اور دوبارہ نہ لگنے دیں مگر ہوتا یہ ہے کہ یہ دوبارہ لگنا شروع ہوجاتی ہیں تجاوزات ہٹانے میں ہمارے 2 افسر شہید ہوئے،تجاوزات کی صفائی کے بعد وہاں لوگ دوبارہ آتے ہیں جن کا تعلق کسی پلیٹ فارم یا این جی اوز سے ہوتا ہے تاہم اس پر ہماری توجہ رہے گی اوراس مافیا کا پیچھا کرتے رہیں گے، گلزار فیروز نے کہا کہ سیکٹر 7-A میں بعض افراد نے سیوریج لائن پر قبضہ کرلیا جبکہ 5000 سڑک کی مرمت کی بھی ضرورت ہے انھو ںنے کہا کہ صنعت کار چاہتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے ہمارے اشتراک سے علاقہ کو بہتر بنائیں انہیں ہمارا تعاون حاصل رہے گا۔