ریڈ زون میں پہنچنے کے بعد
عمران اور قادری کو معلوم تھا کہ وہ ڈی چوک پر سال بھر بھی فروکش رہیں تو حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا ۔۔۔
14 اگست سے لے کر تادم تحریر قادری اور عمران کا انقلاب اور آزادی مارچ حکومت سے برسر پیکار ہے 14 اگست کو لاہور سے نکلنے والے یہ دونوں مارچ 15 اگست کی رات کو اسلام آباد پہنچے 300 کلومیٹر کا فاصلہ 35 گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد جب یہ دونوں انقلابی اسلام آباد پہنچے تو لگ بھگ 50 ہزار کارکن اور شہری ان کے ساتھ تھے۔
آزادی مارچ کے قائد کا سب سے بڑا مطالبہ نواز شریف کا استعفیٰ تھا جب کہ قادری نواز شریف کے استعفے کے ساتھ ساتھ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل کا مطالبہ بھی کر رہے تھے قادری صاحب ابتدا میں آئین قانون سمیت ریاست کے کسی ادارے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور کپتان بھی کم و بیش اسی قسم کے مطالبے کر رہے تھے۔ چونکہ یہ مطالبے رائج الوقت جمہوری نظام کی نفی تھے خاص طور پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے خاتمے کے مطالبوں نے ان سیاسی قوتوں کے کان کھڑے کردیے جو جمہوریت کے نام پر راج کر رہے تھے۔
اس کلاس کے ہاتھ میں جمہوریت کا ہتھیار آگیا اور وہ ''کسی قیمت پر جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے'' کے نعرے کے ساتھ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے انھیں یہ احساس بھی نہیں رہا کہ ملک کی جمہوری تاریخ میں جمہوریت نے عوام کو غربت میں اضافے، مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں دیا البتہ جمہوریت نے لوٹ مار کی ایسی کھلی چھوٹ دی کہ اربوں روپے ان کے بینک اکاؤنٹس میں آگئے اور بڑی پارٹیوں کے قائدین نے تو آنے والی دو صدیوں تک اپنی نسلوں کی پرتعیش زندگی کو یقینی بنالیا لیکن ان کی ہوس کا عالم یہ ہے کہ جمہوریت کی دودھ دینے والی بھینس سے چمٹے ہوئے ہیں۔
عمران اور قادری کو اسلام آباد آئے اب 7 دن ہو رہے ہیں آب پارہ پر پانچ دن فروکش رہنے کے بعد دونوں حضرات کو یہ احساس ہوا کہ آبپارہ کے میدانوں میں خیمہ زن ہونے سے بات نہیں بن سکتی انھیں ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کرنا پڑے گا۔ حکومت کو اندازہ تھا کہ اگر 50-40 لوگوں کا ہجوم ریڈ زون میں داخل ہوگیا تو پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا اور اگر ایسا ہوا اور جمہوریت کے ان دونوں مورچوں پر دشمنوں کا قبضہ ہوگیا تو ''جمہوریت بچانے کے راستے مسدود ہوجائیں گے'' اسی خطرے کے پیش نظر حکمران اور ان کے ساتھیوں نے جمہوریت خطرے میں ہے کا واویلا شروع کردیا اور ریڈ زون میں مارچوں کے داخلے کو روکنے کے لیے 245 کے تحت پہلے سے اسلام آباد میں موجود فوج کو آگے لاکر ریڈ زون اس کے حوالے کردیا۔
عمران اور قادری کو معلوم تھا کہ وہ ڈی چوک پر سال بھر بھی فروکش رہیں تو حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا لہٰذا انھوں نے ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کا آغاز کردیا حکومت اس پیش قدمی سے بری طرح خوفزدہ ہوگئی ''بوجوہ'' حکومت اس پیش قدمی کو تو نہیں روک سکی لیکن وزیر داخلہ نے تڑی لگائی کہ اگر مارچ ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری قوت کے ساتھ انھیں روک دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے ریڈ زون کے اہم اداروں کی حفاظت کی ذمے داری فوج کے سپرد کردی اور وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ پولیس ''بلوائیوں'' کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنے میں آزاد ہوگی۔ لیکن دونوں مارچ ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔
عمران اور قادری نے یہ بڑی جنگ بڑی حد تک اپنے کارکنوں کے ساتھ لڑنے کا اہتمام کیا اور اس جنگ میں عوام کو شریک کرنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی یہ ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھی جس کی وجہ سے مارچ اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گئے۔ عوام کی ان تحریکوں سے لاتعلقی کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ عمران اور قادری نے عوام کے سلگتے ہوئے مسائل مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کو ہائی لائٹ نہیں کیا۔
اس قسم کی بڑی تحریکوں سے پہلے عوام کو متحرک کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر عوام سے رابطہ کیا جاتا ہے۔اور زندگی کے مختلف طبقات کسانوں، مزدوروں، ڈاکٹروں، انجینئروں، تاجروں، طالب علموں وغیرہ کے نمایندوں سے مل کر انھیں اعتماد میں لیا جاتا ہے لیکن عمران اور قادری نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور مڈل کلاس ان تحریکوں سے بڑی حد تک لاتعلق رہے۔ یوں تحریک سکڑ کر اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گئی۔
ان مارچوں میں 50 ہزار کے لگ بھگ کارکنان اور ہمدرد شامل ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مارچ سے پہلے ان کے کھانے پینے، بارشوں اور سخت دھوپ اور گرمی سے تحفظ اور ہجوم کی اہم ضرورت واش روم اور باتھ روم کا انتظام کیا جاتا لیکن قائدین نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی اور 50 ہزار لوگ ہزاروں خواتین دو بنیادی ضرورتوں کھانے، پانی اور واش رومز کی عدم دستیابی کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
یہ مارچ کے قائدین کی ایسی کمزوری ہے جو مارچ کی طوالت کے ساتھ بڑھتی اور ہجوم کو بد دل کرتی جائے گی۔ کھانے اور پانی کی قلت کا عالم یہ ہے کہ مارچ کے قائدین کو حکومت سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ مظاہرین کے لیے کھانے اور پانی کا انتظام کرے حکومت غذا کے کنٹینروں اور پانی کے ٹینکروں کو اگر روک رہی ہے تو یہ اس کے حربے ہیں۔
جو لوگ ان مارچوں کی حمایت کر رہے ہیں کہ ان مارچوں کے ذریعے 67 سال سے عوام پر مسلط Status Quo ٹوٹ جائے گا اور بامعنی تبدیلیوں کی امید پیدا ہوجائے گی اس توقع کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی عوامی جمہوریت کے راستے کی بڑی رکاوٹیں دور کرنے کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ مثلاً انتخابی نظام میں تبدیلی۔ 67 سال سے جمہوریت کے نام پر جو انتخابی نظام عوام پر مسلط ہے اس میں صرف دولت مند اشرافیہ ہی حصہ لے سکتی ہے عام آدمی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت مخلص اور ایماندار لوگ اس انتخابی نظام میں شرکت کی سوچ بھی نہیں سکتے۔
اس نظام میں ایسی تبدیلی کہ عام اہل لوگ اس میں شرکت کرسکیں عمران اور قادری کے مطالبات کا حصہ ہے بلدیاتی انتخابات جو آج تک کسی جمہوری حکومت نے نہیں کرائے اور مشرف کے بامعنی بلدیاتی نظام کو 7 سالوں سے دبائے بیٹھے ہیں کہ بلدیاتی نظام سے ان کی لوٹ مار کا ایک بڑا ذریعہ ختم ہوجاتا ہے اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوجاتے ہیں جو ہماری حکمران اشرافیہ اور ان کے مڈل کلاس اتحادیوں کو قطعی گوارا نہیں۔ عمران اور قادری کے مطالبوں میں شامل ہے انتخابی بدعنوانیوں کے گڑھ الیکشن کمیشن کی تبدیلی بھی عمران اور قادری کے مطالبوں میں شامل ہے۔
اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب بھی کروانا چاہتے ہیں ، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ایک بڑا کام ہے لیکن عمران اور قادری اسے نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ سب انقلابی نہیں بلکہ جمہوری ضرورتیں ہیں لیکن ان مطالبوں کے پورے ہونے سے جمہوری بادشاہتوں کی بادشاہتیں کمزور ہوجاتی ہیں حیرت ہے کہ ان جمہوری مطالبوں کی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے نام پر مخالفت کی جا رہی ہے آزادی اور انقلاب مارچ کا انجام کیا ہوگا اس کا انتظار ہے لیکن اگر عمران اور قادری اوپر بتائے گئے مطالبات ہی منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ انقلاب کی طرف دو قدم آگے بڑھنا ہوگا۔