پیغام
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جارح مزاج عمران و قادری صاحب کے لب و لہجے میں تلخی، تیزی اور تندہی آتی جا رہی ہے۔۔۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ایک شہر کو آگ لگ گئی وہ اس بلا کی آگ تھی کہ پتھر کو خشک لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیتی تھی۔ وہ مکانوں اور محلوں کو خاک سیاہ کرتی ہوئی پرندوں کے گھونسلوں اور آخر کار ان کے پروں میں بھی لگ گئی۔ اس آگ کے شعلوں نے آدھا شہر جلا ڈالا یہاں تک کہ پانی بھی ان شعلوں کی تاب نہ لاتا تھا۔
اہل تدبیر ان پر پانی اور سرکہ کے پرنالے بہاتے تھے مگر معلوم ہوتا تھا کہ پانی اور سرکہ آگ بھڑکانے میں اور مدد پہنچاتا تھا۔ آخر کار خلقت حضرت عمرؓ کے پاس دوڑی آئی اور عرض کی کہ ہماری آگ کسی پانی سے نہیں بجھتی آپ نے فرمایا کہ یہ آگ خدا کے غضب کی علامت میں سے ہے اور یہ تمہارے بخل کی آگ کا صرف ایک شعلہ ہے، لہٰذا پانی کو چھوڑو اور روٹی تقسیم کرو۔ اور آیندہ کے لیے بخل کو ترک کر دو۔
خلقت نے کہا کہ ہم نے پہلے سے دروازے کھول رکھے ہیں اور ہمیشہ سے صلہ رحمی کرنے والے سخی رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ وہ سخاوت تم نے ازروئے رسم و عادات کی تھی تم نے خدا کی راہ میں دروازہ نہیں کھولا تھا۔ تم نے جو کچھ دیا وہ شیخی اور اپنی بڑائی دکھانے کے لیے دیا خدا کے خوف اور عاجزی سے نہیں دیا اور اس دکھاوے کی سخاوت اور خیرات سے کچھ حاصل نہیں کیا۔
آپ مولانا روم کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں ہمارے ''بادشاہ وقت'' کے گزشتہ سوا سال کے کردار، قول و عمل، کارگزاریوں، اقدامات اور ''سخاوتوں'' کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی قیادت میں اسلام آباد میں گزشتہ ایک ہفتے سے دھرنا دیے لاکھوں کے مجمع کے جذبات، احساسات، شکایات اور مطالبات پر نظر ڈالیے تو باآسانی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے موجودہ دور حکومت میں بھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور کروڑوں غریب عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، بیماری، افلاس، انرجی بحران اور دیگر مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کی بجائے ان کے خاکستر میں موجود برسوں پرانی محرومیوں، مایوسیوں، مجبوریوں اور ناکامیوں کی چنگاریوں کو ہوا دے کر شعلہ بناتے رہے۔
یہی شعلے اب ان کے اقتدار سے منسلک ہر شے کو بھسم کر دینے کے لیے بڑی تیزی سے ان کی جانب لپک رہے ہیں اور بدقسمتی یہ کہ اہل اقتدار کی جانب سے ان شعلوں کو بجھانے کی ہر تدبیر خود ان کے پاؤں کی زنجیر و رسوائی کا باعث بنتی جا رہی ہے جب کہ عمران خان اور طاہر القادری کے کارکنان و پیروکار و مریدین کا لاکھوں کا مجمع جس نے 14 اگست کو لاہور سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا نہایت پرامن طریقے سے اب ''ریڈ زون'' عبور کر کے پارلیمنٹ کے عین سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گیا ہے۔
حکمراں اپنی تمام تر کوششوں، تدبیروں، حکمت عملیوں اور خوفزدہ کر دینے والے بیانات دینے کے باوجود عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو ڈرانے، دھمکانے اور انھیں اپنے ارادوں سے باز رکھنے میں ناکام ہو گئے۔ جب کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جارح مزاج عمران و قادری صاحب کے لب و لہجے میں تلخی، تیزی اور تندہی آتی جا رہی ہے اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے کے باوجود دونوں رہنما وزیر اعظم میاں نواز شریف کے استعفے سے کم کسی بات پر آمادہ ہوتے نطر نہیں آتے۔
حالانکہ ایک موقع پر جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تو یوں لگ رہا تھا کہ معاملات ان کے ہاتھ سے پھسل رہے ہیں کیونکہ ملک کے تمام قابل ذکر طبقوں اور حلقوں کی جانب سے سول نافرمانی کے اعلان پر منفی ردعمل سامنے آیا اور اس پر کڑی تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لانگ مارچ و دھرنے سے مایوس ہو کر سول نافرمانی جیسی طویل المدت تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور اب وہ وزیر اعظم کے استعفے کے اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ ایک قدم آگے جاتے ہوئے عمران خان نے ریڈ لائن عبور کر کے مبصرین و تجزیہ نگاروں کو حیران اور حکومت کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
اگرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری سے لے کر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک اور جماعت اسلامی کے سراج الحق سے لے کر اے این پی کے اسفند یار ولی تک تمام قابل ذکر سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتوں و مشاورتوں سے کئی مراحل طے کیے اور بے شمار تجاویز و قیمتی مشورے بھی میاں صاحب کے سامنے رکھے گئے کہ کسی صورت جمہوریت کو ''ڈی ریل'' ہونے سے بچانے کی سبیل ڈھونڈی جائے لیکن میاں صاحب بھاری مینڈیٹ کے زعم میں اور کچھ اپنی افتاد طبع کے باعث تادم تحریر جمہوریت کو بچانے کے لیے ''قربانی'' دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے بلکہ تحریک انصاف کی کے پی کے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے گویا عمران خان کو بھرپور جواب دینا چاہتے ہیں کہ اگر تم میری حکومت گراؤ گے تو میں کے پی کے میں تمہاری حکومت گرا دوں گا۔
ایک ایسے موقع پر جب ایک طرف پاک فوج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے ملک قیام امن، انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جانوں کی قربانی بے دے رہی ہے اور دوسری جانب ملک کی سیاسی قوتیں آپس میں دست و گریباں ہو کر جمہوری نظام کے تسلسل کو ''ڈی ریل'' کرنے کے در پے ہوں تو یہ صورت حال ہر محب وطن کے لیے پریشان کن بالخصوص ارباب حل و عقد کے لیے سنجیدہ غور و فکر اور فریقین کے لیے مثبت طرز عمل کی متقاضی ہے کیونکہ نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرونی دنیا میں بھی آزادی و انقلاب مارچ کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکا و برطانیہ نے صورتحال پر باقاعدہ ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین مسائل کے حل کے لیے جمہوری و آئینی طریقہ اختیار کریں۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر پاک فوج کو بھی اپنا ''پیغام'' دینا پڑا۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق ضروری ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں مذاکرات سے معاملات حل کیے جائیں وقت کا تقاضہ ہے کہ فریقین صبر و دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ ''پیغام'' میں مزید کہا گیا ہے کہ ریڈ زون میں موجود عمارتیں ریاست کی علامت اور قومی ورثہ ہیں جن کی حفاظت فوج کر رہی ہے لہٰذا ان کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔
پاک فوج نے 14 اگست سے جاری ''ہنگامے'' کے بعد پہلی مرتبہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار ایسے وزیر اعظم نواز شریف، عمران خان اور طاہر القادری تینوں کے لیے ''وارننگ'' قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ حضرات جمہوریت کو بچانے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو خدارا پاک فوج کے ''پیغام'' کو سمجھیں۔ ضد اور انا کے خول سے باہر نکلیں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور بات چیت سے ''کچھ لو اور کچھ دو'' کے تحت مسئلے کا حل نکالیں۔
اہل تدبیر ان پر پانی اور سرکہ کے پرنالے بہاتے تھے مگر معلوم ہوتا تھا کہ پانی اور سرکہ آگ بھڑکانے میں اور مدد پہنچاتا تھا۔ آخر کار خلقت حضرت عمرؓ کے پاس دوڑی آئی اور عرض کی کہ ہماری آگ کسی پانی سے نہیں بجھتی آپ نے فرمایا کہ یہ آگ خدا کے غضب کی علامت میں سے ہے اور یہ تمہارے بخل کی آگ کا صرف ایک شعلہ ہے، لہٰذا پانی کو چھوڑو اور روٹی تقسیم کرو۔ اور آیندہ کے لیے بخل کو ترک کر دو۔
خلقت نے کہا کہ ہم نے پہلے سے دروازے کھول رکھے ہیں اور ہمیشہ سے صلہ رحمی کرنے والے سخی رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ وہ سخاوت تم نے ازروئے رسم و عادات کی تھی تم نے خدا کی راہ میں دروازہ نہیں کھولا تھا۔ تم نے جو کچھ دیا وہ شیخی اور اپنی بڑائی دکھانے کے لیے دیا خدا کے خوف اور عاجزی سے نہیں دیا اور اس دکھاوے کی سخاوت اور خیرات سے کچھ حاصل نہیں کیا۔
آپ مولانا روم کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں ہمارے ''بادشاہ وقت'' کے گزشتہ سوا سال کے کردار، قول و عمل، کارگزاریوں، اقدامات اور ''سخاوتوں'' کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی قیادت میں اسلام آباد میں گزشتہ ایک ہفتے سے دھرنا دیے لاکھوں کے مجمع کے جذبات، احساسات، شکایات اور مطالبات پر نظر ڈالیے تو باآسانی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے موجودہ دور حکومت میں بھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور کروڑوں غریب عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، بیماری، افلاس، انرجی بحران اور دیگر مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کی بجائے ان کے خاکستر میں موجود برسوں پرانی محرومیوں، مایوسیوں، مجبوریوں اور ناکامیوں کی چنگاریوں کو ہوا دے کر شعلہ بناتے رہے۔
یہی شعلے اب ان کے اقتدار سے منسلک ہر شے کو بھسم کر دینے کے لیے بڑی تیزی سے ان کی جانب لپک رہے ہیں اور بدقسمتی یہ کہ اہل اقتدار کی جانب سے ان شعلوں کو بجھانے کی ہر تدبیر خود ان کے پاؤں کی زنجیر و رسوائی کا باعث بنتی جا رہی ہے جب کہ عمران خان اور طاہر القادری کے کارکنان و پیروکار و مریدین کا لاکھوں کا مجمع جس نے 14 اگست کو لاہور سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا نہایت پرامن طریقے سے اب ''ریڈ زون'' عبور کر کے پارلیمنٹ کے عین سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گیا ہے۔
حکمراں اپنی تمام تر کوششوں، تدبیروں، حکمت عملیوں اور خوفزدہ کر دینے والے بیانات دینے کے باوجود عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو ڈرانے، دھمکانے اور انھیں اپنے ارادوں سے باز رکھنے میں ناکام ہو گئے۔ جب کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جارح مزاج عمران و قادری صاحب کے لب و لہجے میں تلخی، تیزی اور تندہی آتی جا رہی ہے اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے کے باوجود دونوں رہنما وزیر اعظم میاں نواز شریف کے استعفے سے کم کسی بات پر آمادہ ہوتے نطر نہیں آتے۔
حالانکہ ایک موقع پر جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تو یوں لگ رہا تھا کہ معاملات ان کے ہاتھ سے پھسل رہے ہیں کیونکہ ملک کے تمام قابل ذکر طبقوں اور حلقوں کی جانب سے سول نافرمانی کے اعلان پر منفی ردعمل سامنے آیا اور اس پر کڑی تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لانگ مارچ و دھرنے سے مایوس ہو کر سول نافرمانی جیسی طویل المدت تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور اب وہ وزیر اعظم کے استعفے کے اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ ایک قدم آگے جاتے ہوئے عمران خان نے ریڈ لائن عبور کر کے مبصرین و تجزیہ نگاروں کو حیران اور حکومت کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
اگرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری سے لے کر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک اور جماعت اسلامی کے سراج الحق سے لے کر اے این پی کے اسفند یار ولی تک تمام قابل ذکر سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتوں و مشاورتوں سے کئی مراحل طے کیے اور بے شمار تجاویز و قیمتی مشورے بھی میاں صاحب کے سامنے رکھے گئے کہ کسی صورت جمہوریت کو ''ڈی ریل'' ہونے سے بچانے کی سبیل ڈھونڈی جائے لیکن میاں صاحب بھاری مینڈیٹ کے زعم میں اور کچھ اپنی افتاد طبع کے باعث تادم تحریر جمہوریت کو بچانے کے لیے ''قربانی'' دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے بلکہ تحریک انصاف کی کے پی کے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے گویا عمران خان کو بھرپور جواب دینا چاہتے ہیں کہ اگر تم میری حکومت گراؤ گے تو میں کے پی کے میں تمہاری حکومت گرا دوں گا۔
ایک ایسے موقع پر جب ایک طرف پاک فوج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے ملک قیام امن، انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جانوں کی قربانی بے دے رہی ہے اور دوسری جانب ملک کی سیاسی قوتیں آپس میں دست و گریباں ہو کر جمہوری نظام کے تسلسل کو ''ڈی ریل'' کرنے کے در پے ہوں تو یہ صورت حال ہر محب وطن کے لیے پریشان کن بالخصوص ارباب حل و عقد کے لیے سنجیدہ غور و فکر اور فریقین کے لیے مثبت طرز عمل کی متقاضی ہے کیونکہ نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرونی دنیا میں بھی آزادی و انقلاب مارچ کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکا و برطانیہ نے صورتحال پر باقاعدہ ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین مسائل کے حل کے لیے جمہوری و آئینی طریقہ اختیار کریں۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر پاک فوج کو بھی اپنا ''پیغام'' دینا پڑا۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق ضروری ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں مذاکرات سے معاملات حل کیے جائیں وقت کا تقاضہ ہے کہ فریقین صبر و دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ ''پیغام'' میں مزید کہا گیا ہے کہ ریڈ زون میں موجود عمارتیں ریاست کی علامت اور قومی ورثہ ہیں جن کی حفاظت فوج کر رہی ہے لہٰذا ان کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔
پاک فوج نے 14 اگست سے جاری ''ہنگامے'' کے بعد پہلی مرتبہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار ایسے وزیر اعظم نواز شریف، عمران خان اور طاہر القادری تینوں کے لیے ''وارننگ'' قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ حضرات جمہوریت کو بچانے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو خدارا پاک فوج کے ''پیغام'' کو سمجھیں۔ ضد اور انا کے خول سے باہر نکلیں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور بات چیت سے ''کچھ لو اور کچھ دو'' کے تحت مسئلے کا حل نکالیں۔