تین ہفتے گزرنے کے باوجود پاکستان رمضان کی سہانی یادیں ذہنوں سے محو نہ ہوسکیں

یکم رمضان سے چاند رات تک ٹی وی اسکرین پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی حکم رانی

مقبولیت کی دوڑ میں ایکسپریس سب سے آگے رہا، غیرجانب دار ذرائع نے تصدیق کردی فوٹو: فائل

KARACHI:
حالیہ ماہ رمضان کے دوران مقبولیت کی نئی تاریخ رقم کرنے والی ٹی وی چینلز کی تاریخ کی سب سے بڑی اور منفرد نشریات ''پاکستان رمضان'' کو اختتام پذیر ہوئے اگرچہ تین ہفتے سے زاید کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم اس کی سہانی یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں روز اول کی طرح تازہ ہیں۔

ڈاکٹر عامرلیاقت حسین سے ناظرین کی والہانہ محبت اور اور پاکستان رمضان کی بھرپور پذیرائی کے انمٹ نقوش اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور تاریخ ساز نشریات کے اختتام پر غیرجانبدار ذرائع کی جانب سے جاری ہونے والی ریٹنگ نے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ ڈاکٹر عامرلیاقت حسین کے منفرد انداز میزبانی اور عوام میں اُن کی بے پناہ مقبولیت کی بدولت ایکسپریس کو یکم رمضان سے 29 رمضان تک تمام ہم عصر ٹی وی چینلز پر واضح برتری حاصل رہی۔

ایک نجی چینل کی جانب سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے اور ریٹنگ کا تعین کرنے والی معتبر اور غیر جانبدار ایجنسیز کے مطابق رمضان المبارک کے آخری روز جاری ہونے والی حتمی ریٹنگ نے مخالفین کے غباروں سے ہوا نکال دی۔

حتمی ریٹنگ کے مطابق پاکستان رمضان نشریات نے یکم رمضان سے 29 رمضان تک 3088 کی تعداد میں ریکارڈ GRP'S حاصل کر کے تمام ٹی وی چینلز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایکسپریس کے مدمقابل دیگر ٹی وی چینلز اس سنگ میل سے کوسوں دور نظر آئے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کی بدولت ایکسپریس ملک کا سب سے مقبول ترین چینل بن کر ابھرا جو کہ بلاشبہ ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں طاق راتوں میں پیش کی جانے والی ایکسپریس کی نشریات نے تو مقبولیت کے ایسے سنگ میل قائم کیے کہ دیگر تمام چینلز مل کر بھی وہ ریٹنگ حاصل نہ کرپائے جو ایکسپریس نے تن تنہا ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی بدولت حاصل کی جو کہ عوام میں اُن کی بے پناہ مقبولیت کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔



ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ سے چاند رات تک ملک کی ممتاز شخصیات سمیت ہزاروں افراد نے جن میں معصوم بچوں اور خواتین سے لے کر عمر رسیدہ افراد تک سبھی شامل تھے، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے بسائے ہوئے شہررمضان کا رُخ کیا اور اِس تاریخی نشریات میں شامل تمام ہی پروگرامز میں گہری دلچسپی ظاہر کرکے اِسے تاریخ کی مقبول ترین نشریات بنا دیا۔ شہررمضان میں ایک ماہ کے دوران زندگی کا بھرپور احساس دلاتے مناظر دیکھنے میں آئے، یہاں لوگوں کے دکھ درد بانٹتے ہوئے آنکھیں نم بھی ہوئیں اور پرلطف جملوں پر مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

حمد وثناء کے گلہائے عقیدت پر ممتاز ثناخوانوں کی تحسین کے لیے سبحان اللہ اور دعاؤں پر آمین کی صدائیں بھی بلند ہوئیں، ذہین ہونہاروں کی پذیرائی اور بزرگوں کی عزت افزائی کے لیے تالیوں کی گونج بھی یہاں سنائی دی۔ عالم اسلام کی عظیم ہستیوں کے ایام شہادت وولادت پر انہیں بھرپور خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا، فتح بدرومکہ اور یوم آزادی کا جشن بھی منایا گیا اور طاق راتوں میں ندامت کے اشک بہا کر مغفرت وبخشش کی دعائیں بھی مانگی گئیں۔

ایک ماہ کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شہررمضان کے مہمان بنے اور ڈاکٹرعامرلیاقت سے اپنی گہری دلی وابستگی کا ثبوت دیا۔ روزانہ سیکڑوں افراد نے یہاں روزہ افطار کیا اور اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کواپنے پسندیدہ میزبان کے ساتھ گزارکر اپنے لیے یادگار بنالیا۔

پاکستان گھر، عالم آن ایئر، زیرزبرپیش اور عشائیے سمیت شہررمضان کے تمام ہی پروگرامز ناظرین کے دلوں کی دھڑکن بنے۔ پاکستان گھر میں آسان سوالات اور بذریعہ قرعہ اندازی انعامات کی برسات سے سیکڑوں افراد سیراب ہوئے اور ''راہ نیکی'' نے ہزاروں ضرورت مندوں کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھردیے۔ بالخصوص محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن کی جانب سے متعدد ضرورت مندوں کو ملنے والی لاکھوں روپے کی امداد نے ان کی زندگی بدل دی اور ایدھی سینٹر میں مقیم کئی گمشدہ بچوں کو ان کے والدین سے ملا کر نیکی کی بے مثال تاریخ رقم کی اور ان بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچالی گئی۔

آغاز سحر میں قاری ابراہیم کاسی اور قاری حق نوازسعیدی کی دلکش قرأت اور ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کی فکرانگیز تشریحات نے قلوب کو منور کیا، سحروافطار کی روح پرور ساعتوں کو ڈاکٹرعامر لیاقت کے ساتھ ممتاز ثناخواں الحاج عمران شیخ عطاری، حافظ احمدرضا قادری، حافظ طاہر قادری، محمد ریحان قریشی، محمدعلی سہروردی، محمد مکرم علی خان، معین عالم اور شہریارطارق نے مسلسل پرکیف بنائے رکھا۔



گرافک ڈیزائنرز کی پاکستان کے موضوع پر خوبصورت منظر کشی کو بھی لوگوں نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ '' قصص الانبیاء'' اور ''آؤ کہانی سنیں'' میں معصوم بچوں کے ساتھ ڈاکٹر عامر لیاقت کی مفید اور دلچسپ گفتگو پر بھی لوگوں نے اپنی بھرپور پسندیدگی کا اظہار کیا، جب کہ ہر روز ایک نئی ڈش کے ساتھ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا پروگرام عشائیہ بھی مقبولیت میں کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بالخصوص خواتین میں اس پروگرام کو خاصی مقبولیت حاصل رہی۔ پاکستان سے عہد کو بھی لوگوں نے منفرد روایت قرار دیا۔ دورانِ نشریات رمضان کی تاریخ کاسب سے بڑا اور بیش قیمت کوئزشو ''زیرزبرپیش'' ناظرین کی خصوصی دلچسپی کا مرکز بنا۔

ذہنی آزمائش پر مبنی اس مقابلے کے دلچسپ اور منفرد فارمیٹ اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے خوبصورت انداز کو بھی لوگوں نے کافی سراہا۔ غرض یہ کہ سبز رنگ سے رنگی ''پاکستان رمضان نشریات'' ہر ایک کی سوچ اور توجہ کا مرکز بنی رہیں، جس کی ایک بڑی وجہ پاکستانی ٹیلی ویژن کی تاریخ میں سب سے بڑا سیٹ اور اِس پر اذانِ مغرب کے وقت تمام لوگوں کا ایک ساتھ روزہ افطار کرنا بھی تھا۔

حالیہ رمضان میں پاکستان میں ٹی وی چینلز کی مقبولیت کا حتمی جائزہ لینے کے بعد آزاد میڈیا ذرائع، معتبرریٹنگ ایجنسیز اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کی جاری کردہ ریٹنگ کے مطابق پاکستان میں بسنے والے 75 فیصد پاکستانیوں نے ''پاکستان رمضان'' نشریات دیکھنے کے لیے مستقل ایکسپریس ٹی وی کو آن رکھا، یہ ایک ناقابل یقین امر ہے اور یہ ناظرین کی وہ تعداد ہے جس کی بدولت ایکسپریس نے دیگر تمام چینلز کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ ہر ذہن میں یہ سوال بدستور موجود ہے کہ آخر ایسی کون سی چیز تھی جس نے ان نشریات کو اس قدر مقبول بنایا؟

درحقیقت دلوں کو چھونے والی اِن نشریات کی فقیدالمثال کامیابی کا سہرا صرف اور صرف ایک شخص کے سر بندھتا ہے جس کا نام ہے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین! وہ شخص جسے بیشتر پاکستانی ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور جنہیں سب سے زیادہ دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کے پریذیڈنٹ اور ہرطبقہ عمر میں مقبول ڈاکٹر عامر لیاقت حسین الیکٹرانک میڈیا کی سب سے زیادہ دیکھی اور پسند کی جانے والی شخصیت بن گئے ہیں۔ ان کی انتھک محنت اور غیرمعمولی کارکردگی کی بدولت ایکسپریس کی ''پاکستان رمضان'' نشریات نے تمام ٹی وی چینلز پر واضح برتری حاصل کی۔

رمضان نشریات میں شامل مقبول پروگرام ''پاکستان گھر'' نے بحیثیت مجموعی غیرمعمولی تعداد میں ریٹنگ پوائنٹس حاصل کرکے ملکی سطح پر مقبول ترین ٹی وی پروگرام ہونے کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور نشریات کا اختتام دیگر ٹی وی چینلز سے کئی گنا زیادہ برتری پر ہوا۔ نشریات کی ریکارڈ ساز کامیابی کی بڑی وجہ میزبان کا خوبصورت اور منفردانداز تھا، جن کے مخصوص اندازِ میزبانی، خوبصورت ثناخوانی، پرجوش مکالموں، اسلامی تاریخ پر مکمل عبور، گفتگو کے دوران بزلہ سنجی، پرلطف فقروں کے تبادلے، تاریخی واقعات اور قرآنی آیات کے فوری حوالوں نے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا گرویدہ بنایا اور لوگوں نے جوق درجوق شہررمضان کا رخ کیا، جو عوامی حلقوں میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی بے پناہ مقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اس غیرمعمولی کامیابی پر ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کو مبارکباد پیش کرتا ہے اور اپنے تمام ناظرین کا تہہ دل سے مشکور ہے جن کی پسندیدگی کی بدولت ایکسپریس یہ سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب ہوا۔


پاکستان رمضان کا سب سے بڑا کارنامہ گمشدہ بچوں کی گھر واپسی اور مستحقین کی امداد

اس ماہ مبارک میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جانب سے نیکی کاجو سب سے بڑا کام انجام دیا گیا وہ کئی برسوں سے گمشدہ بچوں کی تلاش میں بے قرار ماؤں کی ممتا کو قرار دینا اور بچھڑے ہوؤں کو ملانا ہے۔

پاکستان رمضان نے بچھڑے ہوئے بچوں کو والدین سے ملادیا اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی کوششوں سے اوکاڑہ کی 9 سالہ صائمہ، ملتان کا 13 سالہ شاہد، کوئٹہ کی 11 سالہ حسینہ، ملتان کی 12 سالہ سمیرا، فیصل آباد کی 14 سالہ تہمینہ اور 13 سالہ سلمیٰ ایدھی سینٹر سے اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

بچوں سے والدین کے ملاپ کے مناظر اور اشکوں کی برسات کو ناظرین شاید کبھی فراموش نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ پاکستان رمضان کے مقبول پروگرام ''راہ نیکی'' میں جس طرح ضرورت مندوں کی امداد کی گئی اس کی مثال پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی، کئی مریض بچے بیمار آئے اور صحت مند ہوکر لوٹے، بیروزگار باروزگار بن گئے، مستحقین کی بچیوں کے ہاتھ پیلے ہوئے، بے گھروں کو ٹھکانے مل گئے، بھوکوں کو کھانے مل گئے اور زندگی سے مایوس لوگوں کو جینے کے بہانے مل گئے۔

نشریات کے دوران معذوری اور مہلک امراض میں مبتلا افراد ''راہ نیکی'' کے مہمان بنے اور افطار سے قبل بابرکت ساعتوں میں بیروزگاروں کے لیے روزگار کا انتظام، ہر جمعے کو مستحق گھرانے کی دو بیٹیوں کو زیورات سمیت جہیز کے سامان کی فراہمی، نسرین بی بی کے دل کے امراض میں مبتلا بچوں کا علاج، کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو والی ننھی فاطمہ اور دعا کا آپریشن، لاڑکانہ کے امیر علی کے ڈیڑھ سالہ بچے کا علاج، جِلد کے کینسر میں مبتلا حسین بخش کے چار بچوں، ٹانگوں سے محروم نوجوان محمد زاہد کے لیے مصنوعی ٹانگوں کا انتظام، مہلک امراض میں مبتلا محمد شاہد اور ایوب مسیح کا علاج، ریڑھ کی ہڈی پر پھوڑے کی وجہ سے معذور ہوجانے والے بچے محمد مصطفی اور مریم، معذور نوجوان عبدالوحید کا علاج، کامران کے جگر کے مرض میں مبتلا ایک سالہ بیٹے کا آپریشن، قوت گویائی وسماعت سے محروم ساڑھے 4 سالہ بچی انیقہ کے لئے 20 لاکھ روپے کی امداد، ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے وحید کی ہاتھ پیروں سے محروم بچی کا علاج، دہشت گردوں کی گولی لگنے سے معذوری کی زندگی بسر کرنے والے ایمبولینس ڈرائیور بشیر احمد، ناک کے سوراخ سے محروم آپریشن کی منتظر آٹھ سالہ عائشہ، جھلس کر زندگی کی ٹھوکریں کھانے والی تسلیم کوثر کے علاج کے علاوہ والدین اور بے رحمانہ رسم ورواج کی بھینٹ چڑھ جانے والی بے سہارا خاتون کو خودسوزی سے بچانے کے نیک کارنامے انجام دیے گئے اور اس دوران معروف سماجی رہنما محمد رمضان چھیپا بھی مستقل سیٹ پر موجود رہے۔



عالم آن ایئر؛ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علمائے کرام کا حسین گلدستہ

نشریات کی ایک اور خاص بات ''عالم آن ایئر'' کے توسط سے ملک کے چاروں نمایاں مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کا ایک ہی نشست میں حاضرین کے سوالات کے جوابات دینا تھا۔ بعض امور پر علماء کے مابین اختلاف بھی ہوا مگر تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے پایا اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے علمی انداز نے اس پروگرام کو مزید دلنشین بنا دیا۔

یکم رمضان سے چاندرات تک عالم آن ایئر میں ملک بھر سے جن ممتاز علمائے کرام نے شریک ہوکر اسے رونق بخشی ان میں خطیب اہل سنت اور سواد اعظم اہل سنت حقیقی کے سربراہ علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی، جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مہتمم مفتی محمدنعیم، مجلس وحدت المسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی، ماہر امور افغان جہاد مولانا قاری منصور احمد، جماعت اہل سنت سندھ کے نائب امیرمولانا سید حمزہ علی قادری، جمعیت علماء اسلام پاکستان سمیع الحق گروپ کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالرؤف فاروقی، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمدابراہیم قادری، جامعہ نعیمیہ لاہور کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی رہنما علامہ شبیر حسن میثمی،

جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ناظم نشرواشاعت حافظ ہشام الٰہی ظہیر، جماعت اہل سنت سندھ کے ناظم تعلیم و تبلیغ علامہ نسیم احمد صدیقی، خطیب اہل بیت مولانا سید محمد علی زیدی الحسینی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں شعبۂ اسلامیات کے چیئرمین ڈاکٹر فضل احمد، مرکزی جمعیت اہل حدیث پنجاب کے نائب ناظم مفتی سید عتیق الرحمن شاہ کشمیری، شیعہ علماء کونسل کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ فیاض حسین مطہری، جامعہ بنوریہ عالمیہ سے منسلک مفتی فضل سبحان، تحریکِ اہل حدیث پاکستان کے سرپرست پروفیسر محمد یونس صدیقی، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے مہتمم مولانا خلیل الرحمن چشتی، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے مرکزی محرک مولانا مرزا یوسف حسین، پنجاب قرآن بورڈ کے رکن ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، مرکزی جمعیت اہل حدیث پنجاب کے نائب امیر ڈاکٹر محمد حمود لکھوی،

تنظیم المساجد اہل سنت پاکستان کے سربراہ مفتی محمد عابد مبارک اور ناظم اعلیٰ مفتی آصف سعید، شیعہ علماء کونسل کے صوبائی جنرل سیکریٹری علامہ سید ناظر عباس تقوی، مرکزی جمعیت اہل حدیث کراچی کے ناظم اعلیٰ ابو انشاء قاری خلیل الرحمن جاوید، رئیس دارالافتاء جامعہ امجدیہ مفتی ندیم اقبال، جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر مفتی عمران الحق کلیانوی، حضرت خدیجۃ الکبریٰ ایجوکیشنل سوسائٹی کے سربراہ علامہ ضامن عباس زیدی، جامعہ انوار القرآن میں شعبۂ تدریس سے وابستہ مفتی غلام دستگیر، جامع مسجد اہل حدیث شاد باغ لاہور کے خطیب پروفیسر مطیع اللہ باجوہ ، شباب اسلامی پاکستان کے سربراہ مفتی محمد حنیف قریشی، جامعہ کراچی میں شعبہ اصول الدین کے چیئرمین ڈاکٹر نصیر اختر، ادارۂ تبلیغ جعفریہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ علامہ عباس مہدی ترابی، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ناظم تعلیمات ڈاکٹر عبدالغفور راشد، محفل شاہ خراساں کے خطیب ڈاکٹر محمد حسن رضوی، دارالعلوم امجدیہ سے منسلک مفتی جہانگیر امجدی اور جامعہ بنوریہ سے فارغ التحصیل مفتی عبدالقادر شامل تھے۔

خاص میزبان کے خاص مہمان

جس طرح اس فقیدالمثال نشریات کے میزبان خاص تھے اسی طرح ان کے مہمان بھی خاص تھے۔ انہوں نے مہمانوں کا ایک حسین گلدستہ سجایا اور صرف ملک کی مشہور شخصیات کو مدعو ہی نہیں کیا بلکہ اُن لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش بھی کی گئی جنہیں ظالم سماج نے فراموش کر رکھا ہے۔

عامر لیاقت حسین کے مہمانوں میں عام ڈگر سے ہٹ کر جن مہمانوں کو مدعو کیا گیا اُن میں یکم رمضان سے 29 رمضان کے دوران سانحہ کراچی ایئر پورٹ کے متاثرین، ایدھی سینٹر میں مقیم مائیں، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور ڈکیتی میں مزاحمت پر جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین، دارالسکون میں زیرعلاج اسپیشل چلڈرن، معذوری کے باوجود نام کمانے والے دیوا اکیڈمی کے ہنر مند، ناظرین کو دم بخود کردینے والے کم سن قرآنی کمپیوٹر بچے، گھروں میں کا جھاڑو پونچھا کرکے روزی کمانے والی ماسیاں، امریکی عقوبت خانے میں اسیر پاکستان کی بہادر بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچے احمد اور مریم اور ان کی بہن فوزیہ صدیقی، زندگی کی جنگ لڑتے Make a Wish کے پرامید بچے، جان خطرے میں ڈال کر ہزاروں زندگیاں بچانے والے بم ڈسپوزل یونٹ کے اراکین، فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے ننھے محنت کش، سحر فاؤنڈیشن کے چیئرمین افتخار غزالی، تیزاب سے جھلس کر متاثر ہونے والی خواتین اور مسرت مصباح، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی میں زیرعلاج مریض، انجمن ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین سعید الٰہی، معروف کرکٹر باسط علی اور یونس خان،



مایہ ناز اداکار ہمایوں سعید، یوم فتح مکہ پر مسیحی، سکھ اور ہندو برادری، 21 رمضان کی مناسبت سے ہنگو میں اسکول کے طلباء کو خودکش حملے سے بچاتے ہوئے شہید ہونے والے باہمت نوجوان اعتزاز حسن بنگش شہید کے والد، کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر میں زیرتربیت خصوصی افراد، پولیس اور ٹریفک پولیس کے فرض شناس اہلکار، جامعہ المصطفیٰ رضویہ اور جامعہ سیدہ آمنہ میں زیرتعلیم ہونہار طلباء، ایکسپریس نیوز کے معروف تجزیہ نگار اور صف اول کے کالم نویس جاوید چوہدری، ایکسپریس نیوز کے معروف نیوز اینکرز سلمان حیدر، مہرین سبطین، مشعل بخاری اور اسداللہ خان،

ضرب عضب میں جام شہادت نوش کرنے والے شہید کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کے والد ڈاکٹر آفتاب ربانی، والدہ ساجدہ آفتاب اور بہن لویل ربانی، شہید نائیک ذکاء اللہ کی والدہ انور بی بی، بھائی سمیع اللہ اور بیٹی خدیجہ اور شہید محمد صدیق کے بہن بھائی، معروف گلوکار محمد افراہیم اور ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی پر ہونے والے حملے میں جاں بحق ہونے والے ایکسپریس میڈیا گروپ کے فرض شناس شہید سیکیوریٹی گارڈ محمد اشرف اور ملازم وقاص شہید کے لواحقین شامل تھے۔
Load Next Story