سیاسی کشیدگی سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی مہنگائی بڑھ گئی اسٹیٹ بینک
احتجاج سے سپلائی چین متاثرہوگی،افراط زربڑھے گا،حتمی اثرات کے بارے میں کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا، اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان اورڈائریکٹر مانیٹری پالیسی حمزہ ملک نے کہاہے کہ روپے کی قدرمیں حالیہ کمی سیاسی بے یقینی کانتیجہ ہے اس سے قبل اسٹاک مارکیٹ میں بھی اس کا ردعمل ظاہرہو چکاہے جب کہ احتجاج کے نتیجے میں سپلائی چین متاثرہونے سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کے صدردفتر میں میڈیا سے ملاقات میں انھوں نے کہاکہ امیدہے یہ کمی عارضی ہوگی کیونکہ آنے والے وقتوں میں ڈالرکے انفلوزاور آؤٹ فلوزنارمل رہیں گے۔ انھوں نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ روپے کی قدرکم ہونے سے بیرونی قرضوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن اس کاحتمی اندازہ قرضوں کی نوعیت پرمنحصر ہے۔ انھوں نے کہاکہ احتجاج کے نتیجے میں سپلائی چین متاثرہونے سے افراط زرمیں اضافہ ہوگا لیکن اس اضافے کے حتمی اثرات کے بارے میں کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا۔ ایک شاک کے نتیجے میں افراط زرپر پڑنے والادباؤ مانیٹری پالیسی کے فیصلے کی بنیادنہیں بن سکتا۔
انھوں نے کہاکہ معاشی اشاریے بہترہیں، فسکل خسارہ کم ہوچکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائرمستحکم ہیں، بینکوں سے حکومتی قرضے کم ہونے سے نجی شعبے کے لیے قرضوںکا حصول بڑھ گیاہے جس کے نتیجے میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہواہے۔ معاشی اشاریوں کی بہتری میں مانیٹری پالیسی کاکردار بھی اہمیت کاحامل ہے۔ معاشی بہتری کومستحکم بنیادوں پر جاری رکھنا ہوگا تاکہ ملک کوکرائسس منجمنٹ سے نکال کرسماجی بہتری اورترقی کی راہ میں حائل دیگرچیلنجز کے حل کی جانب بڑھا جاسکے۔
انھوں نے کہاکہ آئندہ 2سہ ماہیوںمیں حکومت کے نج کاری منصوبوں، سکوک اور یورو بانڈز کے اجرا، پروگرام اورپروجیکٹ لونزکے ذریعے سرکاری ذخائرمزید مستحکم ہوں گے جس سے روپے کی قدرمیں بھی مزیداستحکام پیدا ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں کوئی تعطل نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیٹ بینک کی فنکشننگ میں بہتری کے لیے 3تجاویز پرعمل کیا جاچکا ہے جن میں بینکوں کی رسک مینجمنٹ کمیٹی کی تشکیل، مانیٹری پالیسی سے متعلق اسٹیٹ بینک کے بورڈکے اجلاس کے منٹس کی اشاعت اورمانیٹری پالیسی پرمشاورت کے لیے ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کی تجاویزشامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کے لیے رسک مینجمنٹ سے متعلق کمیٹی تشکیل دے دی ہے جوکام کررہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے صدردفتر میں میڈیا سے ملاقات میں انھوں نے کہاکہ امیدہے یہ کمی عارضی ہوگی کیونکہ آنے والے وقتوں میں ڈالرکے انفلوزاور آؤٹ فلوزنارمل رہیں گے۔ انھوں نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ روپے کی قدرکم ہونے سے بیرونی قرضوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن اس کاحتمی اندازہ قرضوں کی نوعیت پرمنحصر ہے۔ انھوں نے کہاکہ احتجاج کے نتیجے میں سپلائی چین متاثرہونے سے افراط زرمیں اضافہ ہوگا لیکن اس اضافے کے حتمی اثرات کے بارے میں کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا۔ ایک شاک کے نتیجے میں افراط زرپر پڑنے والادباؤ مانیٹری پالیسی کے فیصلے کی بنیادنہیں بن سکتا۔
انھوں نے کہاکہ معاشی اشاریے بہترہیں، فسکل خسارہ کم ہوچکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائرمستحکم ہیں، بینکوں سے حکومتی قرضے کم ہونے سے نجی شعبے کے لیے قرضوںکا حصول بڑھ گیاہے جس کے نتیجے میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہواہے۔ معاشی اشاریوں کی بہتری میں مانیٹری پالیسی کاکردار بھی اہمیت کاحامل ہے۔ معاشی بہتری کومستحکم بنیادوں پر جاری رکھنا ہوگا تاکہ ملک کوکرائسس منجمنٹ سے نکال کرسماجی بہتری اورترقی کی راہ میں حائل دیگرچیلنجز کے حل کی جانب بڑھا جاسکے۔
انھوں نے کہاکہ آئندہ 2سہ ماہیوںمیں حکومت کے نج کاری منصوبوں، سکوک اور یورو بانڈز کے اجرا، پروگرام اورپروجیکٹ لونزکے ذریعے سرکاری ذخائرمزید مستحکم ہوں گے جس سے روپے کی قدرمیں بھی مزیداستحکام پیدا ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں کوئی تعطل نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیٹ بینک کی فنکشننگ میں بہتری کے لیے 3تجاویز پرعمل کیا جاچکا ہے جن میں بینکوں کی رسک مینجمنٹ کمیٹی کی تشکیل، مانیٹری پالیسی سے متعلق اسٹیٹ بینک کے بورڈکے اجلاس کے منٹس کی اشاعت اورمانیٹری پالیسی پرمشاورت کے لیے ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کی تجاویزشامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کے لیے رسک مینجمنٹ سے متعلق کمیٹی تشکیل دے دی ہے جوکام کررہی ہے۔