دنیا بھر سے کیا مودی واقعی پاک بھارت مذاکرات کے درمیان رکاوٹ ہیں
اگر کشمیر کے حوالے مذاکرات سے پہلے پاکستان کشمیری رہنماوں سے ملاقات کرتا ہے تو اِس میں کونسی بُری بات ہے؟
دنیا میں سب سے زیادہ انصاف،حقوق،اور مذاکرات کی بات کرنے والےبھارت کو جب بھی حقیقی طورپرپاکستان کے ساتھ مذاکرات کا موقع میسر آیا تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات چیت کو روک دیتا ہے۔ پھر کبھی بھارت میں پاکستانی دراندازی کو وجہ اعتراج بنایا گیا تو کبھی ممبئی حملوں کو اور کبھی کسی اور وجہ کو۔
ماضی کو بھول کر اگر حالیہ پاک بھارت تعلقات پر بات کریں تو بھارت نے پاکستان کی مذاکرات کی آفر کو قبول توکیا،لیکن عین وقت پر مذاکرات سے منہ پھیر کر تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔اس وقت بھارت میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہے اور یہ وہی مودی صاحب ہیں جنہوں نے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کو مذاکرات کا اشارہ دیا۔پاک بھارت سیکرٹری خا رجہ کے درمیان مذاکراتی عمل 25اگست کو اسلام آباد میں شروع ہونا تھا۔جس میں سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات میں اہم پیش رفت کی امید کی جارہی تھی۔لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بھارت عین وقت پر مذاکرات سے الگ ہو گیا اور اِس بار وجہ ہر گز پاکستان نہیں بلکہ خود نریندر مودی ہیں اور یہ میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کررہا بلکہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
بھارت کی جانب سے اس بار وجہ دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی کشمیری حریت پسند رہنماوں سے ملاقات کو بہانا بنایا گیا ہے۔اور ان مذاکرات کی منسوخی کا اشارہ براہ راست بھارتی وزیراعظم کی جانب سے دیا گیا۔بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے ایسے وقت میں مذاکرات سے انکار، جب پاک بھارت تمام معاملات کو باہم گفت شنیدکے ذریعے حل کرنے کی جانب اہم قدم بڑھایا جا رہا تھا کوئی اچھا فیصلہ ہر گز معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیری حریت رہنماوں سے ملاقات کی ہے تو اِس میں آخر اعتراض والی کونسی بات ہے؟ جو بھارتی وزیراعظم کو ناگوار گزری۔ اگر میرے کسی ذاتی فیصلے میں ثالث مجھ سے مشورہ کرتے ہیں تو بھلا وہ کون ہے جو اِس بات پر اعتراض کرسکتا ہے؟
کشمیری رہنماوں کا اعتماد حاصل کرنا دونوں فریقوں کے لئے نہایت ضروری ہے،جب تک کشمیریو ں کا اصل مطالبہ سامنے نہیں سُنا جائے گا تب تک مذاکرات میں کوئی بھی پیش رفت مشکل ہی نہیں شاید ناممکن ہے۔ اِس لیے میرا تو ذاتی خیال یہی ہے کہ بھارت کو بھی یہ چایئے کہ وہ بھی کشمیری حریت رہنماوں سے نہ صرف ملاقات کرے بلکہ مذاکرات کی میز پر کشمیر کے مسلئے پر کشمیری رہنماوں کو بھی شامل کرے۔لیکن اس کے لئے بھارتی لیڈرشیپ کو تنگ نظری کو ختم کرنا ہو گی۔بھارتی عوام نے نریندر مودی کو علاقائی لیڈر سے قومی لیڈر بنایا ہے لہذا اب مودی صاحب کو گجرات کے وزیراعلی کی سوچ کو چھوڑ کر بھارت کے وزیراعظم کی طرح سوچنا چاہیے۔ بھارت کو ایک ملاقات کو بہانا بنا کر کبھی بھی مذاکرات کے عمل کو نہیں روکنا چایئے تھا،ماضی میں بھی مذاکراتی عمل بار بار تعطل ہونے کی وجہ سے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔
لہذا بھارتی وزیراعظم کو یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ مذاکرات ہی وہ عمل ہے جس سے تمام معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطہ اب کسی بھی طرح سے تلخی کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اِسی لیے چاہے وہ بھارت ہو یا پاکستان سب کو سمجھداری اور عقل سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ بھارتی حکومت اورخصوصا بھارت کے وزیراعظم کو ایسی چھوٹی باتوں کو بالائے طاق رکھ کر مذاکرات میں سنجیدگی سے کام لینا ہو گا۔تب ہی پاک بھارت مذاکرات سے کوئی نتیجہ نکلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ماضی کو بھول کر اگر حالیہ پاک بھارت تعلقات پر بات کریں تو بھارت نے پاکستان کی مذاکرات کی آفر کو قبول توکیا،لیکن عین وقت پر مذاکرات سے منہ پھیر کر تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔اس وقت بھارت میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہے اور یہ وہی مودی صاحب ہیں جنہوں نے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کو مذاکرات کا اشارہ دیا۔پاک بھارت سیکرٹری خا رجہ کے درمیان مذاکراتی عمل 25اگست کو اسلام آباد میں شروع ہونا تھا۔جس میں سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات میں اہم پیش رفت کی امید کی جارہی تھی۔لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بھارت عین وقت پر مذاکرات سے الگ ہو گیا اور اِس بار وجہ ہر گز پاکستان نہیں بلکہ خود نریندر مودی ہیں اور یہ میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کررہا بلکہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
بھارت کی جانب سے اس بار وجہ دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی کشمیری حریت پسند رہنماوں سے ملاقات کو بہانا بنایا گیا ہے۔اور ان مذاکرات کی منسوخی کا اشارہ براہ راست بھارتی وزیراعظم کی جانب سے دیا گیا۔بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے ایسے وقت میں مذاکرات سے انکار، جب پاک بھارت تمام معاملات کو باہم گفت شنیدکے ذریعے حل کرنے کی جانب اہم قدم بڑھایا جا رہا تھا کوئی اچھا فیصلہ ہر گز معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیری حریت رہنماوں سے ملاقات کی ہے تو اِس میں آخر اعتراض والی کونسی بات ہے؟ جو بھارتی وزیراعظم کو ناگوار گزری۔ اگر میرے کسی ذاتی فیصلے میں ثالث مجھ سے مشورہ کرتے ہیں تو بھلا وہ کون ہے جو اِس بات پر اعتراض کرسکتا ہے؟
کشمیری رہنماوں کا اعتماد حاصل کرنا دونوں فریقوں کے لئے نہایت ضروری ہے،جب تک کشمیریو ں کا اصل مطالبہ سامنے نہیں سُنا جائے گا تب تک مذاکرات میں کوئی بھی پیش رفت مشکل ہی نہیں شاید ناممکن ہے۔ اِس لیے میرا تو ذاتی خیال یہی ہے کہ بھارت کو بھی یہ چایئے کہ وہ بھی کشمیری حریت رہنماوں سے نہ صرف ملاقات کرے بلکہ مذاکرات کی میز پر کشمیر کے مسلئے پر کشمیری رہنماوں کو بھی شامل کرے۔لیکن اس کے لئے بھارتی لیڈرشیپ کو تنگ نظری کو ختم کرنا ہو گی۔بھارتی عوام نے نریندر مودی کو علاقائی لیڈر سے قومی لیڈر بنایا ہے لہذا اب مودی صاحب کو گجرات کے وزیراعلی کی سوچ کو چھوڑ کر بھارت کے وزیراعظم کی طرح سوچنا چاہیے۔ بھارت کو ایک ملاقات کو بہانا بنا کر کبھی بھی مذاکرات کے عمل کو نہیں روکنا چایئے تھا،ماضی میں بھی مذاکراتی عمل بار بار تعطل ہونے کی وجہ سے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔
لہذا بھارتی وزیراعظم کو یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ مذاکرات ہی وہ عمل ہے جس سے تمام معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطہ اب کسی بھی طرح سے تلخی کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اِسی لیے چاہے وہ بھارت ہو یا پاکستان سب کو سمجھداری اور عقل سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ بھارتی حکومت اورخصوصا بھارت کے وزیراعظم کو ایسی چھوٹی باتوں کو بالائے طاق رکھ کر مذاکرات میں سنجیدگی سے کام لینا ہو گا۔تب ہی پاک بھارت مذاکرات سے کوئی نتیجہ نکلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔