پاکستان ایک نظر میں کراچی میں فرانس کی ملکہ

کراچی میں ٹینکر مافیا اہلِ کراچی کا پانی چوری کرکے ان ہی کو منہگے دام فروخت کرتی ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سوریج بورڈ کی لاڈلی ٹینکر مافیا نے ہر جگہ پنجے گاڑھ رکھے ہیں جس نے شہر میں مصنوعی بحران پیدا کرکے پانی کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

فرانس کی ملکہ تو ویسے ہی بدنام ہیں۔۔۔ اپنے پاکستان میں فرانس کی ملکہ سے بڑے بڑے اداکار موجود ہیں۔ ہم نے جو ایک اسی قسم کے اداکار سے پوچھا: ''جناب! اگر پاکستان میں ''پانی'' ٹینکر مافیا ہڑپ کرجائے تو عوام کیا کرے گی؟''

انہوں نے ہماری بات نہایت تحمل سے سنی۔ ایک لمبی جمائی لی اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر اچانک چبا چبا کر بولنے لگے: ''بھائی! پہلی بات تو یہ ہے کہ پانی کھانا نہیں ہے جو ہڑپ کرلیا جائے۔۔۔ ہاں اس میں غڑپ ہوا جاسکتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ منرل واٹر کی بڑی بڑی فیکٹریوں کس کے لیے قائم کی گئی ہیں۔''
''کس کے لیے۔''ہم سے یہ پہیلی برداشت نہیں ہوسکی۔

''عوام کے لیے ۔۔۔میری جان اور کس کے لیے۔ اس لیے وہ منرل واٹر اور جوس پیئیں۔''

موصوف کی باتیں سن کر دماغ سلگ اُٹھا لیکن خاموش رہے کہ کہیں بھنک عمران خان اور طاہر القادری تک نہ پہنچ جائے۔ انقلاب تو وہ لارہے ہیں لیکن بہانہ یہ نہ ہوجائے کہ قوم پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر رہی ہے۔ پریشان ہے اور حکمران کہہ رہے تھے کہ جوس پی لو۔۔۔ وہ بھی آم والا۔

پانی کا سب سے بڑا مسئلہ کراچی میں ہے۔ پانی ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں۔ واٹر بورڈ کرپشن کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ آئے روز اخبارات میں واٹر بورڈ کی کرپشن سے متعلق خبریں لگتی رہتی ہیں۔ جگہ جگہ ٹینکر مافیا نے قبضہ جما یا ہوا ہے۔ ان کی دلیری اتنی بڑھ چکی ہے کہ کمشنر کراچی نے بھی کہہ دیا ہے کہ کراچی میں ٹینکر مافیا سرگرم ہے۔

لیکن بے بسی تو دیکھیے وہ اس ٹینکر مافیا کو لگام دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ روز اخبارات میں ٹینکر مافیا کے خلاف خبریں لگتی ہے لیکن یہ سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ پانی کا مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور پھر انہیں پر پانی بیچا جاتا ہے۔ شہر کے مختلف حصوں سے عوام سراپا احتجاج ہواجاتا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ صفورا سے چیک پوسٹ 6 کی طرف جاتے ہوئے پانی کے ٹینکروں کی لائینیں لگی ہوئی ہیں جو اندر پمپ سے پانی بھرے جارہے ہیں۔۔۔ اس سے کچھ ہی فاصلے پر علاقہ مکین پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح قائدآباد کے علاقے مرغی خانے میں بھی ایک پمپ اسٹیشن بنایا گیا ہے جو پولیس کی سرپرستی میں پانی کی ناجائز سپلائی میں دھڑلے سے مصروف ہے۔ جبکہ اس کے پیچھے جو علاقہ ہے قذافی ٹاؤن اور ظفرٹاؤن ۔۔۔وہاں پانی نہ ملنے کی وجہ سے علاقہ مکین کے گلے کے سوتے سوکھ گئے ہیں ہیں۔ مرغی خانے کے ٹینکرمافیا آکر ظفرٹاؤن اور قذافی ٹاؤن کا پانی پولیس کی موجودگی میں بند کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔


کراچی واٹر اینڈ سوریج بورڈ کی لاڈلی ٹینکر مافیا نے ہر جگہ پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ کراچی کا ٹینکر مافیا اہلِ کراچی کا پانی چوری کرکے ان ہی کو منہگے دام فروخت کرتی ہے، حب پمپنگ اسٹیشن کے عقبی حصے سے نکالی گئی مصنوعی نہر سے ٹینکر دھڑا دھڑ بھر کر سپلائی کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح اورنگی ٹاؤن میں بھی شہد کی مکھیوں کی طرح جتھہ لگائے مافیا کے کارندے جرمن اسکول پر پانی چوری میں مصروف ہیں۔ شہر کے بیچوں بیچ جمشید کوارٹر کے ایک رہائشی مکان میں بھی آبی فروخت کا انتظام کیا گیا ہے جہاں کھلے عام ٹینکرز موجود ہیں۔

آبی مافیا کا سب بڑا گڑھ بلدیہ ٹاؤن ہے جہاں جرائم پیشہ عناصر اتنے سرگرم ہیں کہ ایک نجی چینل کو کیمرہ بھی خفیہ استعمال کرنا پڑا، ہر دوسری گلی میں جہاں نگاہ اٹھاؤ گھر سے پائپ اور اس کے نیچے ٹینکر نظر آتا ہے، شام ڈھلنے کے بعد تو کام اور بھی دھڑلے سے ہوتا ہے۔ کورنگی چکرا گوٹھ کا منظر بھی مختلف نہیں وہاں بھی اطمینان سے شہریوں کے پانی پر ڈاکہ مارا جارہا ہے، پاک کالونی میں ٹینکر کچھ چھپ چھپا کے لگایا جاتا ہے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ طاقتور مافیا کا ڈر ہے یا پھر جیبیں گرم ہیں۔ یہ صرف چند مقامات کا ذکر ہے اس کے علاوہ شہر کے بیشتر مقامات پر ٹینکر مافیا سرگرم عمل ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسے روکے گا کون؟پانی بنیادی ضرورت ہے اور اگر پانی نہ ملے تو یہ عام عوام حلق میں گھس کر اپنا پانی نکال لے گی۔ لیکن مافیا سے ٹکرانے کا مطلب کچھ جانوں کا ضیاع یا قربانی۔۔۔

پولیس ، انتظامیہ، واٹر بورڈ یا پھر پیپلز پارٹی کی حکومت ان تھرڈ کلاس غنڈوں سے نہیں نمٹ سکتی۔۔۔ پانی کی چوری اور عوام کی بے بسی پر خاموش ہے تو اسے حکومت کرنے یا پولیس کی وردی پہننے کا اختیار بھلا کیونکر ہوسکتا ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story