پاکستان ایک نظر میں اگست 2013 سے اگست 2014 تک

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون سا زمردخاں قوم کو اس ہیجان اور پریشانی سے نجات دلواتا ہے۔


یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون سا زمردخاں قوم کو اس ہیجان اور پریشانی سے نجات دلواتا ہے۔ فوٹو فائک

اگست کا مہینہ پاکستانی قوم کے لیے خوشیوں کا مہینہ ہوتا ہے جس میں قوم اپنے آزادی کے دن کو بڑے جوش و جذبے سے مناتی ہے۔ لیکن اس سال اگست کا مہینہ قوم کے لئے بڑے امتحانات بھی لے کے آیا ۔ جنرل ضیأالحق کے طیارے کا حادثہ ہو یا جنرل پرویز مشرف کے استعفیٰ کا مسئلہ۔ لیکن قوم نے ہر امتحان کا بڑی بہادری اور جرات مندی سے مقابلہ کیا۔ 2013کا اگست ، نئی ٓنے والی حکوموت کے لیے بھی خوشیوں کے ساتھ امتحان لے کر آیا۔ جب 15اگست کے دن ایک شخص نے اسلام آباد کے حساس ایریا میں اپنے ہی بیوی بچوں کو اغوا کر کے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی۔ اس مسلح شخص نے اسلام آباد کے حساس ایریا پر قبضہ کر کے پورے ملک کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ اس مسلح شخص کے سامنے بے بس دیکھائی دیں۔ اس شخص کا نام سکندر تھا ۔ سکندر اپنے گھریلوں جھگڑوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر منوانے کی کوشش میں تھا۔ سکندر کے بچے اس بات سے لا علم تھے کہ اُن کے والد سکندر کن مطالبات کو منوانا چاہتے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ سکندر نے ایک دن پوری قوم کو ہیجان میں رکھا اور آخر کار زمردخاں کی شکل میں مسیحا نے اپنی بیوقوفانہ بہادری سے قوم کو اس ہیجان اور پریشانی کی کیفیت سے نکالا۔

ہمارے سیاستدان بھی تو آخر ہمارے ہی ہیں۔ انہوں نے اس واقع سے سبق سیکھا اور سوچا کہ اگر سکندر اپنے مطالبات اسلام آباد کی سڑکوں پر منوانے کی کوشش کر سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے امپورٹ کئے گئے انقلابیوں سے مدد مانگی اور بد قسمتی سے اسی مہینہ کا انتخاب کیا جو قوم کی خوشیوں کا مہینہ تھا۔

14 اگست وہ دن جس میں پوری قوم یکجان ہو جاتی ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں اور انقلابیوں نے یہ ایک دن بھی قوم سے چھین لیا۔ 2014 کے 14 اگست کو قوم پارٹیوں میں تقسیم ہوئی اور پاکستانی پرچم کو چھوڑ کر اپنی پارٹیوں کے پرچم اٹھا لئے۔ اور آپس میں لڑائی جھگڑا کرنا شروع کر دیا۔ اب کا اگست قوم کے لئے جو امتحان لے کر آیا وہ پچھلے اگست سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔

2013اگست میں ایک سکندر نے اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنے گھر کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ 2014اگست میں دو سکندر اپنے گھر (ملک) کے مسائل اسلام آباد کی سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2013کے سکندر کے بچے اپنے والد کے غیر آئینی مطالبات اور مستقبل سے لاعلم تھے۔2014کے سکندروں کے ساتھ موجود اس قوم کے بیٹے ، بیٹیاں اپنے سکندر کے غیر آئینی مطالبات اور مستقبل سے لا علم ہیں۔ 2013 کو سکندر نے اپنے بیوی اور بچوں کو مطالبات منوانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔جبکہ 2013 کے سکندرنے اپنے بیوی کو مذاکرات کرنے کے لئے استعمال کیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ 2014کے سکندر کس کو مذاکرات کے لیے استعمال کرنے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ 2013کے سکندرکی بیوی بھی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور اپنے شوہر کی ضد کی وجہ سے بے بس تھی۔ 2014 کے سکندر سے بھی مذاکرات کرنے والے حکومت کی ہٹ دھرمی اور سکندر کی ضد کی وجہ سے بے بس ہیں۔ اب اس صورت حال میں قوم کو ایک بار پھر کسی زمرد خان کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ زمردخاں صرف اور صرف سیاسی پارٹی سے ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ زمرد خاں فوج کی صفوں سے آیا تویہ اپنی بیوقوفانہ بہادری سے نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون سا زمردخاں قوم کو اس ہیجان اور پریشانی سے نجات دلواتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں