’’نیا قانون ‘‘
بیچارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بیوقوفوں کی مانند کبھی استاد منگھو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف...
موجودہ حالات پر تبصرہ کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ جو سنتے ہیں ان کی چلتی نہیں ہے جن کو سنا جاتا ہے ان کی زبان پر گالی، کانوں میں روئی ٹھونس دی گئی ہے اور جن کی چلتی ہے وہ تبصرے سن کر کیا کریں گے۔ جب چل رہی ہے تو پھر چل رہی ہے۔ مگر ہم ملک میں پھیلی ہوئی بے چینی پر رائے کا اظہار کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔
حالات کا تقاضا ہے کہ آزادی اور انقلاب کے نعروں کو حقیقی پیرائے میں بیان کیا جائے۔ چونکہ میرا ناتواں قلم یہ سکت نہیں رکھتا کہ اس مبینہ تاریخی موقع کے مختلف پہلو آپ کے غور و خوض کے لیے بیان کر سکوں۔ لہذا مجھے سعادت حسن منٹو کے افسانے ''نیا قانون'' کے اقتباسات پیش کرنے کی اجازت دیجیے۔ استاد جو کہہ گیا ہے اس کا پیغام آفاقی ہے اور سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ افسانہ مختلف پیرائوں کو حذف کر کے اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔
میں نے اس میں کہیں پر کسی اضافے کی جسارت نہیں کی۔ مجھ میں ایسا کچھ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں کہ منگھو کوچوان جو تبدیلی کے نعرے سے سرشار ہو کر نئے قانون کے ذریعے آزادی حاصل کرنے نکلا تھا اس کا سفر کیسا گزرا۔
''منگھو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی قابلیت صفر کے برابر تھی اور اس نے اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے استاد منگھو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔۔۔۔۔ استاد منگھو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی۔۔۔۔۔
اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔۔۔۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا۔۔۔۔۔'' 'تیری جان کی قسم پہلے پہل جی میں آئی کہ ان کی کھوپڑی کے پرزے اڑا دوں۔۔۔۔۔ قسم ہے بھگوان کی ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آ گیا ہوں۔ جب بھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے کوئی نیا قانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم جان میں جان آئے۔'
اور جب ایک روز استاد منگھو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ' سنا ہے کہ ہندوستان میں نیا قانون چلے گا کیا ہر چیز بدل جائے گی۔' 'ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندوستان کو آزادی مل جائے گی' وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس کے دل کو اس وقت بہت ٹھنڈک پہنچی جب وہ خیال کرتا تھا کہ گوروں، سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آنے سے ہمیشہ کے لیے بلوں میں غائب ہو جائیں گی۔ ۔۔۔۔۔
وہ جب کبھی کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں۔۔۔۔۔ یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا۔ ایک روز اس کے ٹانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ ان بیرسٹروں کے درمیان گفتگو میں چونکہ ان کے بیشتر الفاظ انگریزی میں تھے اس لیے استاد منگھو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا کہ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نظر سے دیکھ کر کہا 'ٹوڈی بچے'۔ جب وہ کسی کو دبی زبان میں ' ٹوڈی بچہ' کہتا تو دل میں یہ محسوس کر کے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس الفاظ کا صحیح جگہ استعمال کیا۔
پہلی اپریل تک استاد منگھو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا مگر اس کے متعلق جو تصور اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا اور اس کا یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ضرور پہنچے گی۔ آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہو گئے۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگھو اٹھا اور اصطبل میں جا کر گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر پُر سرور تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔۔۔۔۔ بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگروئوں کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔۔۔ ان میں کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ استاد منگھو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ جب استاد منگھو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا اس کے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری سے گزر رہے تھے۔
اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا مگر وہ اطمینان کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اس غیر مغلوب قوت کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق بہت کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آ گیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔
' تو ہر وقت مردے کی طرح پڑی رہتی ہے ذرا اٹھ، چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح بچہ جن دے گی؟'۔۔۔۔۔وہ اس سوچ بیچار میں غرق تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔۔۔۔۔ سڑک کے اس طرف دور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک گورا کھڑا نظر آیا۔۔۔۔۔ جب اس نے تازہ گاہک گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے۔۔۔۔۔ استاد منگھو نے۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا 'کہاں جانا مانگٹا ہے' استاد منگھو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا ' ہیرا منڈی' 'کرایا پانچ روپے ہو گا' استاد منگھو کی مونچھیں تھر تھرائیں۔ یہ سن کر گورا حیران رہ گیا، وہ چلایا پانچ روپے۔۔۔۔؟ 'ہاں ہاں پانچ روپے' یہ کہتے ہوئے استاد منگھو کا داہنہ بالوں بھرا ہاتھ کھینچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔۔۔۔۔ پھر اس کا گھونسا کمان میں سے تیر کی طرح اوپر کو اٹھا تھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جا رہا تھا ۔
'پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ' ۔۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ ۔۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ'۔
لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگھو کی گرفت سے چھڑایا ۔ استاد منگھو دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔۔۔۔ منہ سے جھاگ ابھر رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔
'وہ دن گزر گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔۔۔۔۔ اب نیا قانون ہے میاں ۔۔۔۔۔نیا قانون!'
بیچارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بیوقوفوں کی مانند کبھی استاد منگھو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
'' استاد منگھو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے، راستے میں، تھانے کے اندر کمرے میں وہ 'نیا قانون، نیا قانون' چلاتا رہا۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
'نیا قانون' نیا قانون' کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا !' اور اس کو حوالات میں بند کر دیا۔
حالات کا تقاضا ہے کہ آزادی اور انقلاب کے نعروں کو حقیقی پیرائے میں بیان کیا جائے۔ چونکہ میرا ناتواں قلم یہ سکت نہیں رکھتا کہ اس مبینہ تاریخی موقع کے مختلف پہلو آپ کے غور و خوض کے لیے بیان کر سکوں۔ لہذا مجھے سعادت حسن منٹو کے افسانے ''نیا قانون'' کے اقتباسات پیش کرنے کی اجازت دیجیے۔ استاد جو کہہ گیا ہے اس کا پیغام آفاقی ہے اور سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ افسانہ مختلف پیرائوں کو حذف کر کے اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔
میں نے اس میں کہیں پر کسی اضافے کی جسارت نہیں کی۔ مجھ میں ایسا کچھ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں کہ منگھو کوچوان جو تبدیلی کے نعرے سے سرشار ہو کر نئے قانون کے ذریعے آزادی حاصل کرنے نکلا تھا اس کا سفر کیسا گزرا۔
''منگھو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی قابلیت صفر کے برابر تھی اور اس نے اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے استاد منگھو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔۔۔۔۔ استاد منگھو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی۔۔۔۔۔
اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔۔۔۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا۔۔۔۔۔'' 'تیری جان کی قسم پہلے پہل جی میں آئی کہ ان کی کھوپڑی کے پرزے اڑا دوں۔۔۔۔۔ قسم ہے بھگوان کی ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آ گیا ہوں۔ جب بھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے کوئی نیا قانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم جان میں جان آئے۔'
اور جب ایک روز استاد منگھو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ' سنا ہے کہ ہندوستان میں نیا قانون چلے گا کیا ہر چیز بدل جائے گی۔' 'ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندوستان کو آزادی مل جائے گی' وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس کے دل کو اس وقت بہت ٹھنڈک پہنچی جب وہ خیال کرتا تھا کہ گوروں، سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آنے سے ہمیشہ کے لیے بلوں میں غائب ہو جائیں گی۔ ۔۔۔۔۔
وہ جب کبھی کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں۔۔۔۔۔ یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا۔ ایک روز اس کے ٹانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ ان بیرسٹروں کے درمیان گفتگو میں چونکہ ان کے بیشتر الفاظ انگریزی میں تھے اس لیے استاد منگھو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا کہ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نظر سے دیکھ کر کہا 'ٹوڈی بچے'۔ جب وہ کسی کو دبی زبان میں ' ٹوڈی بچہ' کہتا تو دل میں یہ محسوس کر کے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس الفاظ کا صحیح جگہ استعمال کیا۔
پہلی اپریل تک استاد منگھو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا مگر اس کے متعلق جو تصور اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا اور اس کا یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ضرور پہنچے گی۔ آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہو گئے۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگھو اٹھا اور اصطبل میں جا کر گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر پُر سرور تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔۔۔۔۔ بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگروئوں کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔۔۔ ان میں کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ استاد منگھو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ جب استاد منگھو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا اس کے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری سے گزر رہے تھے۔
اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا مگر وہ اطمینان کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اس غیر مغلوب قوت کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق بہت کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آ گیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔
' تو ہر وقت مردے کی طرح پڑی رہتی ہے ذرا اٹھ، چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح بچہ جن دے گی؟'۔۔۔۔۔وہ اس سوچ بیچار میں غرق تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔۔۔۔۔ سڑک کے اس طرف دور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک گورا کھڑا نظر آیا۔۔۔۔۔ جب اس نے تازہ گاہک گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے۔۔۔۔۔ استاد منگھو نے۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا 'کہاں جانا مانگٹا ہے' استاد منگھو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا ' ہیرا منڈی' 'کرایا پانچ روپے ہو گا' استاد منگھو کی مونچھیں تھر تھرائیں۔ یہ سن کر گورا حیران رہ گیا، وہ چلایا پانچ روپے۔۔۔۔؟ 'ہاں ہاں پانچ روپے' یہ کہتے ہوئے استاد منگھو کا داہنہ بالوں بھرا ہاتھ کھینچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔۔۔۔۔ پھر اس کا گھونسا کمان میں سے تیر کی طرح اوپر کو اٹھا تھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جا رہا تھا ۔
'پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ' ۔۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ ۔۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ'۔
لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگھو کی گرفت سے چھڑایا ۔ استاد منگھو دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔۔۔۔ منہ سے جھاگ ابھر رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔
'وہ دن گزر گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔۔۔۔۔ اب نیا قانون ہے میاں ۔۔۔۔۔نیا قانون!'
بیچارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بیوقوفوں کی مانند کبھی استاد منگھو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
'' استاد منگھو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے، راستے میں، تھانے کے اندر کمرے میں وہ 'نیا قانون، نیا قانون' چلاتا رہا۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
'نیا قانون' نیا قانون' کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا !' اور اس کو حوالات میں بند کر دیا۔