کراچی یونیورسٹی اور سندھ سے یکجہتی

اندرون سندھ گھوسٹ اسکولوں اور غیر حاضر اساتذہ کے بارے میں رپورٹیں عام ہوئیں...


Dr Tauseef Ahmed Khan August 22, 2014
[email protected]

سندھ کی یکجہتی کے لیے صوبے کی سب سے بڑی کراچی یونیورسٹی نے اپنی داخلہ پالیسی میں ترمیم کر دی، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر نے سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا کہ اب یونیورسٹی کی داخلے کی کیٹیگری میں اندرون سندھ کے طالب علم کراچی کے طلبا کے مساوی ہوں گے۔ یونیورسٹی میرٹ کی بنیاد پر سندھ بھر کے طلبا کو داخلہ دے گی۔

سندھ کی دوسری جنرل یونیورسٹیوں سندھ یونیورسٹی، شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور اور بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی نوابشاہ وغیرہ میں ہر ضلع کا کوٹہ مختص ہے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مخصوص کوٹے کی بنیاد پر داخلے ہوتے ہیں۔ سندھ کی پروفیشنل یونیورسٹیوں جن میں انجینئرنگ، میڈیکل اور ایگریکلچر یونیورسٹیاں شامل ہیں، مختلف اضلاع کے کوٹے کی بنیاد پر داخلے دیتی ہیں، یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے دیے جاتے ہیں مگر ترقی پزیر ممالک میں پسماندہ علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے گزشتہ صدی میں کوٹہ سسٹم کے تحت داخلے دیے جاتے تھے۔

شہروں اور کالجوں میں تعلیم کی سہولتوں کی کمی کی بناء پر ان علاقوں کے لوگوں سے ترجیحی سلوک کیا جاتا تھا مگر بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت مشرق بعید کے ممالک نے تعلیم کے پھیلائو پر خصوصی توجہ دی یوں ان ممالک میں خواندگی کا تناسب صد فیصد کے قریب ہوا، ان ممالک نے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتوں میں بھی تعلیم کو عام کرنے کے لیے کوشش کی یوں ان ممالک میں کوٹہ سسٹم سے نجات مل گئی۔

بھارت کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبید صدیقی کا کہنا ہے کہ بھارت کی یونیورسٹیوں میں اقلیتوں اور شیڈول کاسٹ کے لیے کوٹہ مختص ہے۔ پاکستان میں تعلیم کو کبھی بنیادی ترجیح نہیں دی گئی، جب 1972ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تعلیمی اصلاحات کیں اور اسکولوں و کالجوں کو قومیا لیا گیا تو تعلیمی بجٹ میں کچھ اضافہ ہوا مگر اضافہ جی این پی کے ایک فیصد سے زیادہ نہ ہو سکا، پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں شہری اور دیہی بنیادوں پر کوٹہ سسٹم نافذ کیا، یہ کوٹہ سسٹم تعلیم اور ملازمتوں کے لیے تھا اور 1973ء کے آئین میں کوٹہ سسٹم کو 10 سال تک برقرار رکھے کا تحفظ فراہم کیا گیا۔

وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ اندرون سندھ تعلیمی سہولتوں میں کمی کی بناء پر وہاں کے نوجوان شہری علاقوں کے نوجوانوں کا مقابلہ نہ کر سکے، اس بنا ء پر کوٹہ سسٹم ضروری ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ عزم تھا کہ حکومت دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولتوں اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دے گی یوں جب دیہی اور شہری علاقوں میں یہ فرق مٹ جائے گا تو کوٹہ سسٹم ختم کر دیا جائے گا، روشن خیال دانشوروں نے اس مؤقف کی بھرپور حمایت کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں کوٹہ سسٹم میں مزید 10 سال کے لیے توسیع کر دی گئی اور پھر ہر 10 سال بعد کوٹہ سسٹم کی معیاد بڑھتی گئی۔

اس دوران اندرون سندھ تعلیمی سہولتوں میں کچھ اضافہ ہوا، لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج اور جامشورو میں مہران انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کا معیار شہری علاقوں کے طالب علموں سے کم نہ تھا مگر اندرون سندھ پرائمری اور کالج کی سطح پر تعلیمی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے وہ اقدامات نہیں ہوئے جس کی ضرورت تھی۔

اندرون سندھ گھوسٹ اسکولوں اور غیر حاضر اساتذہ کے بارے میں رپورٹیں عام ہوئیں، بین الاقوامی اداروں نے اندرون سندھ طالب علموں خاص طور پر طالبات کے اسکول چھوڑنے کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا، حکومت نے اندرون سندھ تعلیمی سہولتوں کو بہتر بنانے کے دعوے کیے، کروڑوں روپے کے فنڈ اسکولوں، کالجوں میں سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے مختص ہوئے مگر نتائج بہت زیادہ حوصلہ افزا برآمد نہیں ہوئے۔

سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ طلبہ تنظیموں نے تعلیم کے ذریعے تعلیمی نظام کو برباد کرنا شروع کیا، بدقسمتی سے سندھ میں قائم ہونے والی فوجی اور جمہوری حکومتوں نے تعلیم کے بنیادی معاملے پر توجہ نہیں دی، شہری علاقوں میں بھی طلبہ تنظیموں نے نقل کرانے، جعلی دستاویزات تیار کرنے اور مختلف امتحانات میں پوزیشن ہولڈر کے لیے دباؤ کے طریقے استعمال کیے۔

مختلف بورڈ اور یونیورسٹیوں کے امتحانات کے شعبوں کے افسران نے امتحانات میں میرٹ کو پامال کر کے کروڑوں روپے کمائے، ایک طرف تو کراچی اور اندرون سندھ تعلیمی معیار برباد ہوا تو دوسری طرف بعض سیاسی جماعتوں نے کوٹہ سسٹم کو دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں ایک زمانے میں خاصی کشیدگی ہوئی۔ سندھ میں رہنے والے نچلے اور متوسط طبقے کے پاس مل جل کر رہنے اور ترقی کی راہیں تلاش کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

O اور A لیول کے تعلیمی اداروں اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھنے سے شہری اور دیہی علاقوں میں تعلیم رکھنے والے امراء کے طبقے کے لیے سندھ کی تعلیم کو اہمیت نہیں دی اور سیاستدانوں نے اس مسئلے پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ گزشتہ کئی برسوں سے اندرون سندھ کے طلبا کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلوں کا مسئلہ جلسے اور جلوسوں کا موضوع رہا، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ سندھ کے طالب علموں کو تمام جنرل یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہونا چاہیے، سندھ کی یونیورسٹیوں کو داخلہ ٹیسٹ کے معیار کو بلند کرنا چاہیے اور تمام یونیورسٹیوں کے داخلے کا معیار ایک ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ حکومت کو کراچی کے طالب علموں کے اندرون سندھ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور اندرون سندھ طلبا کو کراچی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، حکومت کو مختلف یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں میں اس طرح کے داخلوں کے لیے اسکالر شپ کا اہتمام کرنا چاہیے تا کہ یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی طالب علم مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکیں۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں میں داخلہ میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، یونیورسٹیاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیق کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں، اہل طالب علموں کو یونیورسٹی میں داخلہ کا موقع ملنا چاہیے، یہ بات خوش آیند ہے کہ سندھ یونیورسٹی نے داخلوں کو داخلہ ٹیسٹ سے منسلک کر دیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے چند شعبوں میں بھی داخلے کے لیے داخلہ ٹیسٹ کا نفاذ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی جیسے سائنسدان پیدا ہوں گے۔

ماہرین اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ سندھ کی یونیورسٹیوں کی گرانٹ کم ہے، یونیورسٹیاں مالیاتی خسارے کا شکار ہیں جس کی بناء پر انفراسٹرکچر کی پسماندگی معیار کو متاثر کرتی ہیں، کراچی یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی کی عمارت اب مخدوش ہو رہی ہے، ان عمارتوں کی مرمت اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے آلات کی فراہمی اور فیکلٹی کے اعلیٰ معیار پر توجہ سے اعلیٰ تعلیم کو بہتر بنایا جا سکتا۔

سندھ کی بعض یونیورسٹیوں میں عرصہ دراز سے مستقل وائس چانسلر نہیں ہے، کچھ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو سرچ کمیٹی کی سفارش کے بغیر مقرر کیا گیا ہے، ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایک غیر سرکاری یونیورسٹی میں ایم فل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یونیورسٹیوں میں مداخلت بند کر دینی چاہیے اور حکومت کو یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو بہتر بنانا چاہیے یوں تعلیم کے حقیقی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں