میڈیا واچ ڈاگ برتر کون مرد یا عورت
مرد برتر ہے یا عورت۔۔۔ یہ ایک ایسی غلط بحث ہے جس میں نا چاہتے ہوئے بھی ہر کوئی الجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
مرد برتر ہے یا عورت۔۔۔ یہ ایک ایسی غلط بحث ہے جس میں نا چاہتے ہوئے بھی ہر کوئی الجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بحث صرف پاکستان میں نہیں چلتی بلکہ دنیا کے ہر میدان میں اس پر بات کرنے کو ہر شخص دامے، درمے، سخنے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالنے کو تیار رہتا ہے۔
پچھلے دنوں بھارت میں ایک اشتہار بنا۔ اس اشتہار میں مرد کو ایک عورت کا آفس میں ماتحت بتایا۔ عورت مرد کو ڈھیر سارا کام دیتی ہے اور کہتی ہے یہ آج ہی کرنا ہے۔ خود گھر جا کر کھانا تیار کرتی ہے۔ کھانا تیار کرکے اپنے شوہر کو فون کرتی ہے۔ یہ وہی مرد ہے جو آفس میں اس کا ماتحت ہے اور اپنے باس (بیوی) کی ہدایت کے مطابق تمام کام مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیوی موبائل سے کھانے کی ویڈیو اپنے شوہر کو دکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ باس سے کہو بیوی میرا انتظار کررہی ہے۔۔۔ اشتہار ختم ہوجاتا ہے لیکن بھارت میں اس اشتہار پر بحث ہوتی ہے۔
اس بحث میں سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آخر بیوی مرد سے بالہ کیسے ہوسکتی ہے؟ باس عورت کو کیوں مرد کو کیوں نہیں بنایا گیا؟ لیکن سوال تو یہاں یہ بھی اُٹھ سکتا تھا کہ یہ کھانا مرد بھی تو بناسکتا ہے۔ عورت ہی کیوں؟ یہ ساری خرابیاں اور برائیاں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم اس ساری بحث کو ایک انانیت پرست کے اینگل سے دیکھتے ہیں۔ درست اینگل کیا ہے؟ اور اسے درست ہم کیوں کہتے ہیں؟ یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے ذرا ایک ہلکا سا واقعہ سن لیں۔ رعایت اللہ فاروقی پاکستان کے معروف کالم نگار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میں بینک میں بل جمع کرانے گیا اوروں کی طرح لائن میں لگنا پڑا۔ اتنے میں دو خواتین آئیں۔ بینک کے اندر جا کر بل جمع کرایا اور اطمینان کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ رعایت اللہ فاروقی کہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے سخت غصہ آیا میں بینک کے اندر گیا اور چلا چلا کر بینک سر پر اٹھالیا۔
منیجر سے میں نے کہا۔ میں مرد و زن کی مساوات کا پرجوش حامی ہوں۔ ابھی خواتین آرام سے بل جمع کرواکر چلی گئیں اور میں دو گھنٹے سے لائن میں کھڑا ہوں۔ ان عورتوں کو بھی لائن میں لگنا چاہیے تھا۔ منیجر نے مجھے ٹھنڈا کرنے کی غرض سے میرا بل جمع کیا۔ میں باہر آیا۔ بل لہرا کر پسینے میں شرابور عوام کو دکھایا اور کہا جو مرد و زن کے مساوات پر یقین رکھتا ہے وہ میرا والا فارمولا استعمال کرسکتا ہے۔
بظاہر تو یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن آپ کے خیال میں اگر ایسا ہوجائے تو عورت کی زندگی کتنی مشکل ہوجائے گی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنا، بچے پیدا کرنا، ان کی تربیت کرنا، پھر گھر سے باہر جا کر کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو کسی طور انصاف نہیں، یقین کریں بچوں کی تربیت کرنا انتہائی مشکل اور جانگسل کام ہے۔ آج معاشرے میں اگر نوجوانوں کے بگڑنے کا تناسب 80 فیصد ہے تو اس میں سب سے زیادہ مائیں ہی تو قصور وار سمجھی جاتی ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی۔
رہی بات یہ کہ عورت اور مرد کا مقابلہ؟ یہ انتہائی عجیب بحث ہے۔ بھلا آپ انجینئر سے کہیں کہ فلاں مریض کے پھیپھڑوں میں مسئلہ ہے آپ وہ ٹھیک کردیں! یا پھر آپ ڈاکٹر سے کہیں کہ میری گاڑی جلدی گرم ہوجاتی ہے اس کو ٹھیک کردیں، ایسا کہنے پر آپ کو سب پاگل کہیں گے۔ اگر آپ کی عقل کام کررہی ہو تو آپ یہی کہیں گے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔ اسی طرح مرد اور عورت الگ الگ فیلڈ کے ماہر ہیں جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ بالکل اسی طرح مرد اور عورت کا نہیں ہوسکتا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ مرد بر تر ہے یا عورت؟
ہاہاہا۔۔۔ مذاق کررہا ہوں۔۔۔ دونوں بہتر ہیں ناں!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پچھلے دنوں بھارت میں ایک اشتہار بنا۔ اس اشتہار میں مرد کو ایک عورت کا آفس میں ماتحت بتایا۔ عورت مرد کو ڈھیر سارا کام دیتی ہے اور کہتی ہے یہ آج ہی کرنا ہے۔ خود گھر جا کر کھانا تیار کرتی ہے۔ کھانا تیار کرکے اپنے شوہر کو فون کرتی ہے۔ یہ وہی مرد ہے جو آفس میں اس کا ماتحت ہے اور اپنے باس (بیوی) کی ہدایت کے مطابق تمام کام مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیوی موبائل سے کھانے کی ویڈیو اپنے شوہر کو دکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ باس سے کہو بیوی میرا انتظار کررہی ہے۔۔۔ اشتہار ختم ہوجاتا ہے لیکن بھارت میں اس اشتہار پر بحث ہوتی ہے۔
اس بحث میں سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آخر بیوی مرد سے بالہ کیسے ہوسکتی ہے؟ باس عورت کو کیوں مرد کو کیوں نہیں بنایا گیا؟ لیکن سوال تو یہاں یہ بھی اُٹھ سکتا تھا کہ یہ کھانا مرد بھی تو بناسکتا ہے۔ عورت ہی کیوں؟ یہ ساری خرابیاں اور برائیاں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم اس ساری بحث کو ایک انانیت پرست کے اینگل سے دیکھتے ہیں۔ درست اینگل کیا ہے؟ اور اسے درست ہم کیوں کہتے ہیں؟ یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے ذرا ایک ہلکا سا واقعہ سن لیں۔ رعایت اللہ فاروقی پاکستان کے معروف کالم نگار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میں بینک میں بل جمع کرانے گیا اوروں کی طرح لائن میں لگنا پڑا۔ اتنے میں دو خواتین آئیں۔ بینک کے اندر جا کر بل جمع کرایا اور اطمینان کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ رعایت اللہ فاروقی کہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے سخت غصہ آیا میں بینک کے اندر گیا اور چلا چلا کر بینک سر پر اٹھالیا۔
منیجر سے میں نے کہا۔ میں مرد و زن کی مساوات کا پرجوش حامی ہوں۔ ابھی خواتین آرام سے بل جمع کرواکر چلی گئیں اور میں دو گھنٹے سے لائن میں کھڑا ہوں۔ ان عورتوں کو بھی لائن میں لگنا چاہیے تھا۔ منیجر نے مجھے ٹھنڈا کرنے کی غرض سے میرا بل جمع کیا۔ میں باہر آیا۔ بل لہرا کر پسینے میں شرابور عوام کو دکھایا اور کہا جو مرد و زن کے مساوات پر یقین رکھتا ہے وہ میرا والا فارمولا استعمال کرسکتا ہے۔
بظاہر تو یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن آپ کے خیال میں اگر ایسا ہوجائے تو عورت کی زندگی کتنی مشکل ہوجائے گی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنا، بچے پیدا کرنا، ان کی تربیت کرنا، پھر گھر سے باہر جا کر کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو کسی طور انصاف نہیں، یقین کریں بچوں کی تربیت کرنا انتہائی مشکل اور جانگسل کام ہے۔ آج معاشرے میں اگر نوجوانوں کے بگڑنے کا تناسب 80 فیصد ہے تو اس میں سب سے زیادہ مائیں ہی تو قصور وار سمجھی جاتی ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی۔
رہی بات یہ کہ عورت اور مرد کا مقابلہ؟ یہ انتہائی عجیب بحث ہے۔ بھلا آپ انجینئر سے کہیں کہ فلاں مریض کے پھیپھڑوں میں مسئلہ ہے آپ وہ ٹھیک کردیں! یا پھر آپ ڈاکٹر سے کہیں کہ میری گاڑی جلدی گرم ہوجاتی ہے اس کو ٹھیک کردیں، ایسا کہنے پر آپ کو سب پاگل کہیں گے۔ اگر آپ کی عقل کام کررہی ہو تو آپ یہی کہیں گے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔ اسی طرح مرد اور عورت الگ الگ فیلڈ کے ماہر ہیں جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ بالکل اسی طرح مرد اور عورت کا نہیں ہوسکتا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ مرد بر تر ہے یا عورت؟
ہاہاہا۔۔۔ مذاق کررہا ہوں۔۔۔ دونوں بہتر ہیں ناں!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔