پیاری ڈائری!
کیا لکھوں اور کیوں لکھوں؟ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے زیادہ بولنے کی عادت نہیں۔ یاد ہے شادی والے دن بھی جب نکاح خواں نے دوسری مرتبہ مجھ سے پوچھا کہ آیا مجھے یہ شادی قبول ہے تو میں نے ان سے بھی پوچھ لیا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں یقین نہیں آرہا ؟؟؟ خیر، کم بولنے اور زیادہ کھانے کی عادت تو مجھے بچپن سے ہی تھی اور شاید اسی وجہ سے والدہ مرحومہ فرماتی تھیں کہ یہ میسنا بڑا ہوکر ضرور سیاستدان بنے گا۔ ماں کی دعائوں میں کتنی برکت ہوتی ہے اس کا اندازہ عمر کے اس حصے میں جاکر ہورہا ہے۔
یوم آزادی کے بعد سے گھر کے باہر پہلے سپاہیوں اور پھر عوام کا ایک ہجوم جمع ہوگیا ہے۔ خیر سے ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے کہ گھر میں بند ہیں۔ نہ کہیں آ سکتے ہیں نہ کہیں جاسکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو یہ سب بہت اچھا لگا کیوںکہ کسی نے ہمیں یہ خوش فہمی دے دی تھی کہ یہ لوگ ہماری رہائی کیلئے آئے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ یہ خام خیالی بھی دور ہوگئی۔ دوسری طرف بیگم صاحبہ بھی اس سب سے تنگ آگئی ہیں۔ عورت کو وقت پر سانس نہ ملے تو پھر بھی گزارہ ممکن ہے مگر وقت پر کام والی ماسی نہ ملے تو۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔ اب سلسلہ یہ ہے کہ ایک ہفتے سے ماسی نہیں آرہی اور بیگم صاحبہ کو سارے کام خود کرنے پڑ رہے ہیں۔ آج صبح تنگ آکر بول ہی پڑیں کہ؛ فارغ ہی تو بیٹھے رہتے ہیں، زرا سبزی ہی کاٹ دیں۔
میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خدانخواستہ یہ آنسو ذلت کے نہیں تھے کیونکہ بیوی کا ہاتھ بٹانے میں کیسی ذلت؟ ذلت تو تب ہوتی جب میں ہاتھ بٹانے سے انکار کردیتا۔ خیر سے سبزیاں کاٹنے بیٹھا تو ماضی کی ساری حسین یادیں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ہوش تب ہوا جب بیگم صاحبہ کی چنگھاڑ سنائی دی کہ یہ برنس روڈ نہیں شاہراہ دستور ہے اور اب ہم چاٹ نہیں منجن بیچتے ہیں! یہ ڈھیروں پیاز جو کتری ہے اب اسے کھائے گا کون؟ لو جی، پیاز کترنے بیٹھے تھے اور آلو آگیا۔
اس آلو، پیاز اور ماضی سے جان چھڑانے کیلئے ہم ٹیلی وژن کے آگے بیٹھ گئے۔ ایک عجیب نفسانفسی اور مارا ماری کا حال چل رہا تھا۔ کہیں کسی لیڈر کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور کہیں کوئی اینکر مرگی میں مبتلا نظر آرہا تھا۔ ہر لمحہ لائیو کوریج دینے کے شوق میں یہ قوم پتہ نہیں کہاں نکل گئی ہے۔ شکر ہے کہ پرانے زمانے میں میڈیا نہیں تھا ورنہ ایران، چین اور فرانس وغیرہ میں آج تک لوگ دھرنوں میں ہی بیٹھے ہوتے کہ ہر لیڈر یہ جانتا ہے کہ انقلاب کے بعد کیمروں کا رخ اس کے چہرے سے ہٹ کر اس کی کارکردگی پر چلا جاتا ہے۔ اور مفت میں ملنے والی اس شاندار کوریج پر کس کافر کا ایمان خراب نہ ہو؟ خیر یہ تو سیاسی باتیں ہیں اور مجھے بڑے میاں جی نے سختی سے تاکید کی ہے کہ بھائی ویسے تو اب کوئی اٹھاون ویں ترمیم نہیں رہی مگر پھر بھی خدا کے واسطے آپ نے کوئی سیاست نہیں کرنی ہے!!
ٹیلی وژن بند کرکے کافی دیر بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کس کو رکنا چاہیئے اور کس کو جانا چاہیئے؟ باہر جتنے لوگ کھڑے ہیں ان میں سے کتنے جانتے ہیں کہ میاں جی کے رکنے یا جانے کا معاملہ وہی ہے کہ مالک کوئی بھی ہو، گدھے کی زندگی پر فرق نہیں پڑتا۔ ان مالکان کو تبدیل کرنے کے بجائے یہ گدھے اگر ایک مرتبہ خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرلیں تو ان مالکان اور ان کو ہٹانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ تبدیلی، انقلاب اور مذہب وہ تین چیزیں ہیں جن کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ دکان خوبصورت ہونی چاہیئے اور گاہک بےشمار۔ مگر ان گدھوں کو اس بات کا شعور کبھی نہیں ہوسکتا۔ شعور ہوجائے تو گدھے کہلائیں ہی کیوں؟
شام کو ٹہلتا ہوا میں بھی ہجوم میں شامل ہوگیا۔ دھرنے میں کراچی سے آئے ہوئے دو تین لوگوں نے پہچان لیا اور برنس روڈ والے دہی بڑوں کی بہت تعریف بھی کی۔ آنکھیں بھر آئیں، دل کیا کہ سب کچھ تیاگ کر ایک مرتبہ پھر واپس کراچی چلا جاؤں جہاں میرے محلے میں اب تک میری تصویر کے ساتھ تلاش گمشدہ کے اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ پھر مگر یاد آگیا کہ عام طور پر سیاست کے سینے میں دل، سیاسی کارکن کے سر میں دماغ اور سیاسی قیادت کے اندر ضمیر ہونا محض کتابوں میں اچھا لگتا ہے۔ اصل زندگی میں ہم سب کو صرف قائداعظم سے محبت ہے۔ جی وہی تصویر والے۔
والسلام
منو!!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔