سفارش
میں پائلٹ بننے کے لیے تمام مراحل طے کر چکا تھا جب توقیر حسین نے میرے آگے تجویز رکھی ۔۔۔
ہمارا آپ کا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت احسان فراموش یا ناشکروں میں شمار کی جا سکتی ہے، کام حسب خواہش ہوتے ہی ہم اسے اپنی محنت اور مہارت کے کھاتے میں ڈال کر مدد گار سے نظریں چراتے یا اس کا شکریہ ادا کرنے یا خدا کا شکر گزار ہونے سے گریز کرتے ہیں تا کہ اپنی انا مجروح نہ ہونے پائے لیکن بہت سے بے غرض لوگوں کو اکثر ایک دلچسپ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ وہ ایک ضرورت مند کی پوری تندہی سے مدد کر کے اس کا مشکل اور مدت سے رکا ہوا کام کروا دیتا ہے جسے کروانے کے لیے وہ اس با اثر شخص کے مکان کی دہلیز توڑ چکا ہوتا ہے لیکن جب اس کی مدد سے کام انجام پا جاتا ہے تو مذکورہ سائل مدد گار کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک اضافی چکر لگانے کے بجائے رستہ ہی بدل لیتا ہے اور اگر اتفاقیہ مڈبھیڑ ہو بھی جائے تو مدد گار یا سفارشی کے تصدیق چاہنے پر جواب پاتا ہے کہ اس نے اپنے اس تکمیل پا جانے والے کام کے لیے فلاں فلاں بااثر شخص سے بھی کہہ رکھا تھا۔
بیان کردہ یہ مشاہدہ کوئی غیر معمولی نہیں ہر کسی کے علم اور مشاہدے بلکہ ذاتی تجربے میں یقیناً اور لازماً ہو گا کہ سائل یہاں تک کہتا پایا گیا کہ بڑی مہربانی کہ فلاں کی سفارش اور کوشش سے میرا کام ہو گیا تھا۔ میرے علم میں صرف ایک بار ایسی انہونی آئی کہ مدد کرنے والے شخص کے سامنے جب ایک سائل نے یہ کہا کہ دراصل ایک اور طاقتور شخص کی مدد اور سفارش پر اس کا کام تکمیل کو پہنچا تھا تو اصل سفارشی نے غصے میں آ کر وہ کام Reverse کروا دیا۔اکثر دیکھا گیا کہ ناجائز کام کروانے پر سائل اپنے سفارشی کے گھر مٹھائی اور تحفہ تک پہنچا کر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
یوں تو ذاتی معاملات کا برملا ذکر کچھ زیادہ شائستہ نہیں سمجھا جاتا لیکن میرے بہت سے محسنوں میں سے ایک اتفاق سے مختصر دورے پر گزشتہ دنوں واشنگٹن سے لاہور آیا ہوا تھا جس نے ایک دن ہمارے ساتھ گزارا اور میں کم از کم اس کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میرا یہ اسکول کے دنوں کا دوست اور محسن توقیر حسین ہے جو فارن سروس میں منتخب ہو کر برازیل' اسپین اور جاپان میں دس سال تک پاکستان کا سفیر اور ایران' امریکا اور کینیڈا میں بھی تعینات رہا۔ کبھی کبھی انگریزی اخبارات میں کالم لکھتا ہے اور ان دنوں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ایشین اسٹڈیز پروگرام کے تحت Adjunct Professor کی حیثیت سے لیکچر دیتا ہے۔
اس دوست کے مزید ذکر سے پہلے ایک منفی محسن کا ذکر ضرور کروں گا کیونکہ اگر کوئی شخص دوسرے کی مدد یا رہنمائی کرنے کے بجائے اس کی امید اور توقع پر پانی پھیر کر اسے کی شکستہ دلی کرنے کا شغل اختیار کرے اور سائل باصلاحیت ہو تو ردعمل کے نتیجے میں اپنی سبکی کو چیلنج سمجھ کر متوقع مقام سے بہتر منزل کی سعی بھی کر سکتا ہے۔ ایسا ہی میرے مقدر میں تھا۔
میں نے عملی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے اخبار میں ایک ادنیٰ سرکاری افسر کی بھرتی کا اشتہار پڑھ کر اپنے ایک قریبی عزیز سے رابطہ کیا جو انگریزی ادب میں مہارت رکھنے کے علاوہ فوج میں کرنل کے عہدے پر تھے اور کئی اعلیٰ افسروں کے ذاتی دوست تھے انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے نوکری دلوا دیں گے۔
درخواست جمع کروانے کے بعد انٹرویو کی تاریخ آنے پر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور یاد دہانی کروائی کہ وہ متعلقہ افسر سے جو ان کا دوست تھا بات کر لیں۔ سفارش کرنے کے بجائے انھوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا حیران اور پریشان کن تھا انھوں نے کئی اعلیٰ سول افسروں کی مثالیں دے ڈالیں۔
جن کے پاس سفارش تھی نہ پڑھنے لکھنے کے لیے لالٹین تک لیکن انھوں نے محنت کی تھی یہاں تک کہ بجلی کے کھمبے پر لگے بلب کی روشنی میں مقابلے کے امتحان کے لیے تیاری کی تھی اور کامیاب ہوئے تھے نہ معلوم کیوں انھوں نے حقارت آمیز انداز میں میری اتنی مالش کی کہ پسینے میں شرابور وہاں سے بھاگ نکلا اور دوبارہ ادھر کا رخ نہ کیا لیکن ان کے اس دن کے رویے نے مجھے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا سبق دے دیا۔ لاء کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد GDP (جنرل ڈیوٹی پائلٹ) کے لیے اشتہار آیا تو میں نے بغیر کسی کے سہارے اکیلے کمر کس لی اور تمام منازل کامیابی سے طے کر لیں شاید یہ اس انسلٹ کا ردعمل تھا جو کرنل صاحب کے ہاتھوں ملی کہ اب تقدیر اپنے ہاتھوں بدلنی ہے۔
میں پائلٹ بننے کے لیے تمام مراحل طے کر چکا تھا جب توقیر حسین نے میرے آگے تجویز رکھی کہ سول سروس' کے امتحان کے لیے اکٹھے تیاری شروع کی جائے۔ ایک نوکری میرے ہاتھ میں تھی جب میں نے آتش نمرود میں بے خطر کود جانے والا فیصلہ کیا اور اس نئی آزمائش کو سر کرنے کا ارادہ کیا۔ ہم نے ایک کمرے میں جہاں ایک میز دو کرسیاں دو چار پائیاں اور کتابیں تھیں تیاری شروع کر دی۔ توقیر حسین مجھ سے زیادہ لائق اور صاحب علم تھا۔ وہ سول سروس کے امتحان کی تیاری میں میرا گائیڈ بھی تھا۔
پھر امتحان ہوا رزلٹ آیا توقیر حسین کے حصے میں فارن سروس آئی اور میرے نصیب میں صوبائی سول سروس لوگ اب احسان فراموش ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی جوانوں سے دوستوں کا ممنون احسان ہونے کے علاوہ میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں دو افراد کا احسان مند ہوں ایک اپنے عزیز اور بزرگ کرنل صاحب کا جنھوں نے مجھے نوکری دلوانے کے بجائے میری کئی گھنٹے تک مالش کی جسے میں نے اس وقت تھرڈ ڈگری بے عزتی سمجھا اور اول درجے کی نوکری ملنے تک اسے دل میں رکھا اور دوسرے ایمبیسڈر توقیر حسین کا جس نے مجھے ہاتھ آئی نوکری چھوڑ کر نئی جدوجہد کر کے کامیابی حاصل کرنے کی راہ دکھائی۔ لوگ اب پدرم سلطان بود ہوتے ہیں احسان مندی کو بے عزتی سمجھتے ہیں۔
بیان کردہ یہ مشاہدہ کوئی غیر معمولی نہیں ہر کسی کے علم اور مشاہدے بلکہ ذاتی تجربے میں یقیناً اور لازماً ہو گا کہ سائل یہاں تک کہتا پایا گیا کہ بڑی مہربانی کہ فلاں کی سفارش اور کوشش سے میرا کام ہو گیا تھا۔ میرے علم میں صرف ایک بار ایسی انہونی آئی کہ مدد کرنے والے شخص کے سامنے جب ایک سائل نے یہ کہا کہ دراصل ایک اور طاقتور شخص کی مدد اور سفارش پر اس کا کام تکمیل کو پہنچا تھا تو اصل سفارشی نے غصے میں آ کر وہ کام Reverse کروا دیا۔اکثر دیکھا گیا کہ ناجائز کام کروانے پر سائل اپنے سفارشی کے گھر مٹھائی اور تحفہ تک پہنچا کر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
یوں تو ذاتی معاملات کا برملا ذکر کچھ زیادہ شائستہ نہیں سمجھا جاتا لیکن میرے بہت سے محسنوں میں سے ایک اتفاق سے مختصر دورے پر گزشتہ دنوں واشنگٹن سے لاہور آیا ہوا تھا جس نے ایک دن ہمارے ساتھ گزارا اور میں کم از کم اس کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میرا یہ اسکول کے دنوں کا دوست اور محسن توقیر حسین ہے جو فارن سروس میں منتخب ہو کر برازیل' اسپین اور جاپان میں دس سال تک پاکستان کا سفیر اور ایران' امریکا اور کینیڈا میں بھی تعینات رہا۔ کبھی کبھی انگریزی اخبارات میں کالم لکھتا ہے اور ان دنوں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ایشین اسٹڈیز پروگرام کے تحت Adjunct Professor کی حیثیت سے لیکچر دیتا ہے۔
اس دوست کے مزید ذکر سے پہلے ایک منفی محسن کا ذکر ضرور کروں گا کیونکہ اگر کوئی شخص دوسرے کی مدد یا رہنمائی کرنے کے بجائے اس کی امید اور توقع پر پانی پھیر کر اسے کی شکستہ دلی کرنے کا شغل اختیار کرے اور سائل باصلاحیت ہو تو ردعمل کے نتیجے میں اپنی سبکی کو چیلنج سمجھ کر متوقع مقام سے بہتر منزل کی سعی بھی کر سکتا ہے۔ ایسا ہی میرے مقدر میں تھا۔
میں نے عملی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے اخبار میں ایک ادنیٰ سرکاری افسر کی بھرتی کا اشتہار پڑھ کر اپنے ایک قریبی عزیز سے رابطہ کیا جو انگریزی ادب میں مہارت رکھنے کے علاوہ فوج میں کرنل کے عہدے پر تھے اور کئی اعلیٰ افسروں کے ذاتی دوست تھے انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے نوکری دلوا دیں گے۔
درخواست جمع کروانے کے بعد انٹرویو کی تاریخ آنے پر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور یاد دہانی کروائی کہ وہ متعلقہ افسر سے جو ان کا دوست تھا بات کر لیں۔ سفارش کرنے کے بجائے انھوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا حیران اور پریشان کن تھا انھوں نے کئی اعلیٰ سول افسروں کی مثالیں دے ڈالیں۔
جن کے پاس سفارش تھی نہ پڑھنے لکھنے کے لیے لالٹین تک لیکن انھوں نے محنت کی تھی یہاں تک کہ بجلی کے کھمبے پر لگے بلب کی روشنی میں مقابلے کے امتحان کے لیے تیاری کی تھی اور کامیاب ہوئے تھے نہ معلوم کیوں انھوں نے حقارت آمیز انداز میں میری اتنی مالش کی کہ پسینے میں شرابور وہاں سے بھاگ نکلا اور دوبارہ ادھر کا رخ نہ کیا لیکن ان کے اس دن کے رویے نے مجھے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا سبق دے دیا۔ لاء کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد GDP (جنرل ڈیوٹی پائلٹ) کے لیے اشتہار آیا تو میں نے بغیر کسی کے سہارے اکیلے کمر کس لی اور تمام منازل کامیابی سے طے کر لیں شاید یہ اس انسلٹ کا ردعمل تھا جو کرنل صاحب کے ہاتھوں ملی کہ اب تقدیر اپنے ہاتھوں بدلنی ہے۔
میں پائلٹ بننے کے لیے تمام مراحل طے کر چکا تھا جب توقیر حسین نے میرے آگے تجویز رکھی کہ سول سروس' کے امتحان کے لیے اکٹھے تیاری شروع کی جائے۔ ایک نوکری میرے ہاتھ میں تھی جب میں نے آتش نمرود میں بے خطر کود جانے والا فیصلہ کیا اور اس نئی آزمائش کو سر کرنے کا ارادہ کیا۔ ہم نے ایک کمرے میں جہاں ایک میز دو کرسیاں دو چار پائیاں اور کتابیں تھیں تیاری شروع کر دی۔ توقیر حسین مجھ سے زیادہ لائق اور صاحب علم تھا۔ وہ سول سروس کے امتحان کی تیاری میں میرا گائیڈ بھی تھا۔
پھر امتحان ہوا رزلٹ آیا توقیر حسین کے حصے میں فارن سروس آئی اور میرے نصیب میں صوبائی سول سروس لوگ اب احسان فراموش ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی جوانوں سے دوستوں کا ممنون احسان ہونے کے علاوہ میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں دو افراد کا احسان مند ہوں ایک اپنے عزیز اور بزرگ کرنل صاحب کا جنھوں نے مجھے نوکری دلوانے کے بجائے میری کئی گھنٹے تک مالش کی جسے میں نے اس وقت تھرڈ ڈگری بے عزتی سمجھا اور اول درجے کی نوکری ملنے تک اسے دل میں رکھا اور دوسرے ایمبیسڈر توقیر حسین کا جس نے مجھے ہاتھ آئی نوکری چھوڑ کر نئی جدوجہد کر کے کامیابی حاصل کرنے کی راہ دکھائی۔ لوگ اب پدرم سلطان بود ہوتے ہیں احسان مندی کو بے عزتی سمجھتے ہیں۔