چِترال کا پُل صراط اور پہلا مقتول

ہم سب پاکستانی خوب جانتے ہیں کہ قتلوں کے ویر کیا ہوتے ہیں اور ہمارے شمالی علاقوں میں تو قتل کا بدلہ ایمان کا ۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ان دنوں میں نے بے روز گاری اختیار کر رکھی تھی اور کرائے کے گھر میں لمبی تان کر آرام کر رہا تھا۔ محترم ائر مارشل اصغر خان کا فون آیا کہ میں چترال کے دورے پر جا رہا ہوں میرے ساتھ چلو۔ میں نے عرض کیا کہ ان دنوں کسی اخبار سے متعلق نہیں ہوں تو میرے جانے کا آپ کو کیا فائدہ مگر جواب یہ تھا کہ اسے صرف عبدالقادر حسن کی دعوت سمجھو کسی اخبار کی نہیں، آخر ہمارا بھی تو کوئی تعلق ہے۔

یہ وہ سیاسی وضعداری اور ثقافتی روائت تھی کہ میں خالی ہاتھ یعنی بغیر قلم کے اس لیڈر کے ساتھ اس سفر پر جا نکلا جس نے میری خصوصی مہمان داری کی کہ میں خود کو بے کار کا ہمسفر نہ سمجھوں، چترال شہر ایک چھوٹی سی جگہ تھی مختصر سی آبادی ایک اچھا ہوٹل تھا جس میں ہمارا قیام تھا۔ گوہر ایوب خان بھی ائر مارشل کے مہمان تھے جو بار بار یہ بتاتے رہے کہ میں نے اس سفر پر آئے موسمیات والوں سے رابطہ کیا موسم کا معلوم کیا اور اس کے مطابق بستر ساتھ رکھا ہے۔ ہمارے سیاستدان میزبان کی سیاسی ملاقاتیں تھیں اور ہمارے لیے ریاست چترال کے ان دیکھے نظارے۔

اس ریاست کے سربراہ کو 'مہتر' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے سنا ہے کہ ایک بار جب مہتر چترال لاہور کے دورے پر آئے تو علامہ اقبال نے لاہور کارپوریشن کے سربراہ کا تعارف یوں کرایا کہ ایں ہم مہتر لاہورست۔ (یہ بھی لاہور کے مہتر ہیں' مہتر ہمارے ہاں صفائی کرنے والے کو کہتے ہیں اور کارپوریشن کا بڑا کام شہر کی صفائی ہی ہوتا ہے تمام خاکروب کارپوریشن کے ملازم ہوتے ہیں۔) چترال ریاست سے میرا تعارف بس اتنا سا ہی تھا۔ چترال دو پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں آباد ہے اور ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سے دریا بہتا ہے۔

آپس میں جدا ان پہاڑی سلسلوں کے درمیان کوئی پل نہیں ہے ان کے درمیان دریا کے اوپر ایک موٹا رسا تنا ہوا ہے جو دونوں پہاڑوں کو ملاتا ہے یعنی دونوں طرف پہاڑ بیچ میں دریا اور اس کے اوپر یہ موٹا رسہ جسے چترال میں 'پل صراط' کہا جاتا ہے، میں نے وہاں کے مختصر سے قیام کے دوران اس پل صراط سے سامان اٹھا کر گزرتے ہوئے چترالی دیکھے جو رسے کے اوپر کسی سرکس کے مداری کی طرح گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک معمول ہے اور دونوں حصوں میں رابطے کا واحد ذریعہ۔ اسی ایک پہاڑ کی اوٹ میں کافرستان کا مشہور علاقہ بھی ہے جسے صرف تصویروں میں دیکھا ہے مگر وہاں جانے کا موقع نہ مل سکا۔ ان دو پہاڑوں میں سے ایک کے ساتھ آبادی ہے اور یہاں ایک نئی مسجد بہت نمایاں ہے۔

جب مقامی لوگوں سے پوچھا کہ یہ مسجد جو بالکل نئی ہے کس نے بنائی ہے تو ایک عجیب کہانی سننے کو ملی۔ یہ چترال کے پہلے مقتول کی قبر ہے جس پر یہ مسجد بنائی گئی ہے۔ چترال ایک ایسا خوش نصیب علاقہ تھا جہاں کوئی قتل نہیں ہوتا تھا۔ ہر جھگڑا مقامی عمائدین آپس میں گفتگو کے ذریعہ طے کر لیتے تھے اور پھانسی یا قتل تک نوبت نہیں پہنچتی تھی۔


ریاست کے مالک مہتر چترال ایسے تنازعات کی نگرانی کرتے تھے۔ یہ مقتول گزشتہ عید کی نماز کے بعد ایک فوری اشتعال انگیز واقعہ کے نتیجے میں قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ چونکہ بالکل نیا تھا اور ناقابل قبول بھی اس لیے ریاست کے لوگوں نے اس قتل پر بے حد رنج و ملال ظاہر کیا۔ ماتمی مجلسیں ہوئیں اور بالآخر طے ہوا کہ مقتول کے گاؤں میں اس کی یاد گار تعمیر کی جائے۔ پہلے تو تدفین ہوئی اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک مسجد بھی۔

یہ اس کوہستانی پر امن ریاست کا پہلا انسانی قتل کا واقعہ تھا اس لیے ریاست کی تاریخ میں اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ چترال کے دو مقامات میرے ذہن میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ایک تو پل صراط۔ ایک حیران کن طویل راستہ جس کے بہت نیچے ایک دریا بہتا ہے۔ دریائے چترال۔ اس پل صراط سے گرنے والا بچ نہیں سکتا ایک تو بلندی بہت زیادہ ہے دوسرے نیچے تیز بہتا ہوا دریا ہے مگر ان خطرات کے باوجود پل صراط سے گزرنے والوں کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں پہاڑوں کو ملانے والا یہ واحد راستہ ہے جسے مقامی طور پر بالکل درست نام دیا گیا ہے پل صراط جو لوگ چترال کی اس پل صراط سے صحیح و سالم گزر جاتے ہیں خدا انھیں قیامت کے پل صراط سے بھی خیریت سے گزار دے گا۔

دوسرا عجوبہ یہ مسجد ہے۔ یوں تو یہ مسجد ایک عام سی مسجد ہے۔ پتھر سے تعمیر ہوئی لیکن اس کے پیچھے جو داستان ہے وہ عجیب ہے۔ چترال ریاست کی تاریخ میں کوئی قتل نہیں ہوتا۔ یہ ریاست کا پہلا مقتول تھا جس کو مسجد کی تعمیر سے ایک عزت دی گئی اور پہلا مقتول اس لیے تھا کہ چترال کے باشندوں کے ذہنوں اور دلوں میں پہاڑوں کی مضبوطی تازگی اور ٹھہراؤ ہے۔

وہ باہمی مشورے سے اپنا کوئی بھی مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ یوں کہیں کہ یہ معقول اور شریف انسانوں کی بستی ہے جو مل جل کر رہنے کے فن سے آشنا ہو گئے ہیں اور انسانوں کو انسان سمجھتے ہیں۔ یہاں لاہور میں ہر روز ایک سے زیادہ قتل ہو جاتے ہیں بلکہ یہاں کی روائت کے مطابق ایک قتل دوسرے قتل کا باعث بنتا ہے۔

ہم سب پاکستانی خوب جانتے ہیں کہ قتلوں کے ویر کیا ہوتے ہیں اور ہمارے شمالی علاقوں میں تو قتل کا بدلہ ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے قتل کا بدلہ لازم ہے لیکن اس بدلے کے کچھ اور طریقے بھی ہیں جو پر امن بھی ہیں اور باعزت بھی بہر کیف پاکستان ہی میں شمالی پہاڑوں میں آباد ایک باقاعدہ ریاست کا ایسا علاقہ بھی ہے جس میں اگر کوئی قتل ہو گیا تو وہ اس ریاست کا پہلا مقتول تھا جسے زندہ رکھنے کے لیے اس کی قبر کے ساتھ ایک مسجد بھی بنائی گئی۔ مقتول کے وارث اس پر مطمئن ہیں۔

تو جناب چترال کا یہ سفر یاد آ گیا۔ دھرنوں سے فرار کا ایک راستہ مل گیا لیکن ایک دن کے لیے پھر یہی دھرنے جو اس ملک کو بھی خدا نہ کرے کیا بنا دیں گے۔ چترال کی یاد لواری ٹنل سے بھی تازہ ہوئی جہاں خرابی موسم کی وجہ سے وزیر اعظم نہ جا سکے اور پشاور سے لوٹ آئے ایک اور ٹنل میں جانے کے لیے۔
Load Next Story