حکمران جمہور اور مزاحمت
فی الوقت انقلاب کا اس کے کلاسیکی مفہوم میں جشن منانے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔۔۔
پاکستان میں ''آزادی مارچ'' اور ''انقلاب مارچ'' کے آغاز کے فورا بعد سے ہی عالمی ذرائع ابلاغ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہوگئے تھے۔
عالمی سامراجی ذرائع ابلاغ کی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی مخالفت سے ایک بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ غیر جانب دار نہیں بلکہ ایک واضح پوزیشن لے چکے ہیں اور یہ دونوں جماعتیں اس وقت جو اقدامات کر رہی ہیں وہ عالمی سامراجی مفادات کے خلاف اور پاکستان کے ''قومی مفاد'' کے لیے ناگزیر ہیں، جب کہ موجودہ حکومت جو کہ پاکستان میں چند خاندانوں کو بہت جلد سرمائے کی اجارادارانہ شکل کی جانب لے جا کر عالمی سامراج کا حصہ بنا رہی ہے، اس کے مفادات اس وقت عالمی سامراج سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں پروپیگنڈا کرنے کے بعد امریکا اور برطانیہ نے بھی اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں کسی بھی غیر'' آئینی تبدیلی'' کی مخالفت کر دی ہے۔ لہذا واضح یہ ہوا کہ موجودہ حکومتی ڈھانچہ سامراجی مفادات کی نگہبانی کے لیے موزوں ترین ہے۔ عالمی سرمائے کے محافظوں کا یہ کہنا کہ وہ کسی بھی ''غیر آئینی'' تبدیلی کی حمایت نہیں کریں گے کافی معنی خیز ہے جس سے دہشت پسند امریکی ریاست کے اس عمل سے صورتحال کچھ مزید واضح ہو گئی ہے۔
یعنی حقیقی تضاد کی جڑیں صرف اور صرف پاکستان کے اندر مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں ہی پیوست نہیں ہیں، بلکہ نزاع کی وجہ کو حکومت کے گزشتہ چودہ مہینوں کی پالیسیوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ کیے گئے معاہدے جن میں باہمی مفادات کو یقینی بنایا گیا ہے، جن کے تحت سرمائے کے ارتقا کے لیے عالمگیریت (Globalisation) کی نمائندہ کمپنیوں کو پاکستان میں بغیر کسی بھی رکاوٹ کے رسائی دینی ہے۔
لہذا ''تضاد'' داخلی یعنی پاکستانی ریاست اور خارجی یعنی عالمگیریت کی نمائندہ کمپنیوں میں عدم ہم آہنگی سے جنم لے رہا ہے، جب کہ سامراجی نقطہ نظر سے موجودہ حکومت اس تضاد کی تحلیل کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔پاکستان میں عالمگیریت کے جس تصور کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں، ہندوستان میں یہ عمل تکمیل پاچکا ہے۔
ہندوستان میں اس نوعیت کی مزاحمت نہیں ہوئی تھی، جو پاکستان میں ہو رہی ہے۔ عالمگیریت کے اس عمل کو ہندوستانی ''ترقی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام میں سرمائے کے پھیلاؤ کے علاوہ ''ترقی'' کا اور کوئی مفہوم نہیں ہے۔
جب کہ سرمائے کے جمود کو ''بحران'' تصور کیا جاتا ہے۔ امکان اغلب ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پشت پر ''تیسری قوت'' ہو، مگر یہ بھی صحیح ہے کہ موجودہ حکومت کی پشت پر عالمگیریت کی نمائندہ کمپنیاں اور ان کی پروردہ مغربی و امریکی حکومتیں ہیں۔ وہ تمام ''دانشور'' جو ''جمہوری عمل'' کا ہمہ وقت راگ الاپتے رہتے ہیں اور پاکستان میں کسی بھی ''تیسری قوت'' کے سیاسی کردار کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، وہ پاکستانی سیاست میں امریکی و برطانوی کردار پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر اور تعصبات کو بالائے طاق رکھ کراگر غور سے دیکھا جائے تو ''جمہور'' کے نقطہ نظر سے عوامی تحریک کے مطالبات انتہائی قابلِ ستائش ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس اگرچہ کوئی عوامی ایجنڈا نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس کا مطالبہ قابلِ توجہ ہے۔ وہ لوگ جو پارلیمان کے تقدس کی بات کرتے ہیں حقیقت میں وہی لوگ ہیں جو جمہوریت کے نام پر جمہور کو مستقل طور پر غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ پارلیمان کو جمہورکا ووٹ ہی معنی عطا کرتا ہے۔ پارلیمان کی مرکزیت جمہور کی لامرکزیت سے عبارت نہیں ہے۔ پارلیمان اور جمہور کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پارلیمان کی آمریت قائم کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے ''آزادی مارچ'' اور ''انقلاب مارچ'' سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایک طرف حکمران ہیں اور دوسری طرف ان کو چیلنج کرنیوالے وہ رہنما جو کسی بھی وقت کوئی بھی سمجھوتہ کر کے عوام کو مایوس کر سکتے ہیں۔ اگر حکمرانوں اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو ا س سے سبق یہ ملتا ہے کہ رہنما قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ یہ درس مستقبل میں کسی بھی جدوجہد کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ لہذا احتجاج کے اس عمل کی مخالفت کرنا قطعی بے معنی ہے۔ عوام حقیقی جدوجہد ہی سے سیکھتے ہیں۔
اگر احتجاج کرنے والی جماعتوں کے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو اس سے عوام کا اپنی قوت پر یقین بڑھ جاتا ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ عوام کی ''موجودگی'' ہی ان کے فاعلانہ کردار کی نمائندہ نہیں ہوتی، یعنی عوام موجود ہوتے ہوئے بھی غیر موجود ہوتے ہیں جب تک ان کی 'موجودگی' ان کے عمل سے جڑی ہوئی نہ ہو۔ جب سمت اور عمل متعین نہیں تو موجود ہونے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ ''موجود'' ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ موجودگی کو بامعنی 'بننا' چاہیے۔ عوام کی موجودگی صرف اسی وقت بامعنی بن سکتی ہے جب انھیں اپنے عمل کی قوت کا شعور ہو اور وہ مزاحمت کا راستہ اپنائیں۔ مزاحمت در مزاحمت عوام کے بامعنی بنانے کا عمل ہے۔
موجودہ صورتحال میں اس ''بحران'' کا اگر کوئی حل نکلتا ہے تو وہ بلاشبہ سرمایہ داری نظام کے استحکام پر ہی منتج ہوتا دکھائی دیتا ہے، مگر عوام کم از کم اپنی ''تشکیل'' کے مراحل طے کر نے کے عمل سے آگاہ ہو جائیں گے۔
پاکستان میں طبقاتی شعور کا مکمل فقدان ہے۔ داخلی و خارجی عوامل کے مابین تفریق و امتیاز کے دھندلا جانے سے طبقاتی شعور کو ممیز کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ پیداواری قوتوں کے ارتقا سے پرانی شناختیں مٹ رہی ہیں۔ سائنس، تکنیک اور سائبر سپیس جیسے تصورات کے ارتقا سے طبقات کی تشکیل نو کا عمل جاری ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں آئیڈیالوجی کا تسلط ہے۔ مذہب کا غلبہ بہت واضح ہے۔ ایسے میں طبقاتی شعور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بلکہ مزاحمت کے ذریعے ممیز ہو گا۔
فی الوقت انقلاب کا اس کے کلاسیکی مفہوم میں جشن منانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے کم از کم اس ''واقعے'' کا جشن مناننا چاہیے کہ جو عوام کو ان کے ''ہونے'' کا احساس دلا رہا ہے۔ عہد حاضر میں ایسے 'واقعات' کہ جن سے حکمرانوں کے چہروں پر خوف دکھائی دے وہ قابلِ مذمت نہیں ہوتے۔ ہر 'واقعے' کا بنظر غور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کشمکش، احتجاج اور جدوجہد کے اندر سے جدلیاتی ربط تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ متصورہ اصولوں کے تحت واقعات کی تشریح کوئی معقول امر نہیں ہے۔ تھیوری میں زندہ رہنے کی بجائے حقیقت میں زندہ رہنا زیادہ بامعنی ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت شاید وہ کچھ ہونے جارہا ہے کہ کمزور دل والے جس کو دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایسے واقعات کوتاریخ کے اوراق میں پڑھ کر لوگ خوش ضرور ہوتے ہیں، مگر آنکھوں کے سامنے دیکھ کر خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔آج جن ''ترقی یافتہ'' مغربی معاشروں کی ''دانشور'' مثالیں پیش کرتے ہیں، ان میں خونی انقلابات بہت عرصہ پہلے عمل میں آچکے ہیں، لہذا یہ کہنا کہ جمہور کی برپا کی گئی مزاحمت ملک کو کسی 'بحران' سے دو چار کردے گی، درست نہیں ہے۔ یہ وقت مزاحمتی قوتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کا نہیں، یہ جمود کے ٹوٹنے او طاقت کے مراکز کی تحلیل کا منظر دیکھنے کا وقت ہے۔ جو لوگ اپنی زندگیوں میں اس طرح کے مناظر دیکھتے ہیں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں۔
عالمی سامراجی ذرائع ابلاغ کی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی مخالفت سے ایک بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ غیر جانب دار نہیں بلکہ ایک واضح پوزیشن لے چکے ہیں اور یہ دونوں جماعتیں اس وقت جو اقدامات کر رہی ہیں وہ عالمی سامراجی مفادات کے خلاف اور پاکستان کے ''قومی مفاد'' کے لیے ناگزیر ہیں، جب کہ موجودہ حکومت جو کہ پاکستان میں چند خاندانوں کو بہت جلد سرمائے کی اجارادارانہ شکل کی جانب لے جا کر عالمی سامراج کا حصہ بنا رہی ہے، اس کے مفادات اس وقت عالمی سامراج سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں پروپیگنڈا کرنے کے بعد امریکا اور برطانیہ نے بھی اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں کسی بھی غیر'' آئینی تبدیلی'' کی مخالفت کر دی ہے۔ لہذا واضح یہ ہوا کہ موجودہ حکومتی ڈھانچہ سامراجی مفادات کی نگہبانی کے لیے موزوں ترین ہے۔ عالمی سرمائے کے محافظوں کا یہ کہنا کہ وہ کسی بھی ''غیر آئینی'' تبدیلی کی حمایت نہیں کریں گے کافی معنی خیز ہے جس سے دہشت پسند امریکی ریاست کے اس عمل سے صورتحال کچھ مزید واضح ہو گئی ہے۔
یعنی حقیقی تضاد کی جڑیں صرف اور صرف پاکستان کے اندر مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں ہی پیوست نہیں ہیں، بلکہ نزاع کی وجہ کو حکومت کے گزشتہ چودہ مہینوں کی پالیسیوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ کیے گئے معاہدے جن میں باہمی مفادات کو یقینی بنایا گیا ہے، جن کے تحت سرمائے کے ارتقا کے لیے عالمگیریت (Globalisation) کی نمائندہ کمپنیوں کو پاکستان میں بغیر کسی بھی رکاوٹ کے رسائی دینی ہے۔
لہذا ''تضاد'' داخلی یعنی پاکستانی ریاست اور خارجی یعنی عالمگیریت کی نمائندہ کمپنیوں میں عدم ہم آہنگی سے جنم لے رہا ہے، جب کہ سامراجی نقطہ نظر سے موجودہ حکومت اس تضاد کی تحلیل کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔پاکستان میں عالمگیریت کے جس تصور کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں، ہندوستان میں یہ عمل تکمیل پاچکا ہے۔
ہندوستان میں اس نوعیت کی مزاحمت نہیں ہوئی تھی، جو پاکستان میں ہو رہی ہے۔ عالمگیریت کے اس عمل کو ہندوستانی ''ترقی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام میں سرمائے کے پھیلاؤ کے علاوہ ''ترقی'' کا اور کوئی مفہوم نہیں ہے۔
جب کہ سرمائے کے جمود کو ''بحران'' تصور کیا جاتا ہے۔ امکان اغلب ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پشت پر ''تیسری قوت'' ہو، مگر یہ بھی صحیح ہے کہ موجودہ حکومت کی پشت پر عالمگیریت کی نمائندہ کمپنیاں اور ان کی پروردہ مغربی و امریکی حکومتیں ہیں۔ وہ تمام ''دانشور'' جو ''جمہوری عمل'' کا ہمہ وقت راگ الاپتے رہتے ہیں اور پاکستان میں کسی بھی ''تیسری قوت'' کے سیاسی کردار کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، وہ پاکستانی سیاست میں امریکی و برطانوی کردار پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر اور تعصبات کو بالائے طاق رکھ کراگر غور سے دیکھا جائے تو ''جمہور'' کے نقطہ نظر سے عوامی تحریک کے مطالبات انتہائی قابلِ ستائش ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس اگرچہ کوئی عوامی ایجنڈا نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس کا مطالبہ قابلِ توجہ ہے۔ وہ لوگ جو پارلیمان کے تقدس کی بات کرتے ہیں حقیقت میں وہی لوگ ہیں جو جمہوریت کے نام پر جمہور کو مستقل طور پر غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ پارلیمان کو جمہورکا ووٹ ہی معنی عطا کرتا ہے۔ پارلیمان کی مرکزیت جمہور کی لامرکزیت سے عبارت نہیں ہے۔ پارلیمان اور جمہور کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پارلیمان کی آمریت قائم کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے ''آزادی مارچ'' اور ''انقلاب مارچ'' سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایک طرف حکمران ہیں اور دوسری طرف ان کو چیلنج کرنیوالے وہ رہنما جو کسی بھی وقت کوئی بھی سمجھوتہ کر کے عوام کو مایوس کر سکتے ہیں۔ اگر حکمرانوں اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو ا س سے سبق یہ ملتا ہے کہ رہنما قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ یہ درس مستقبل میں کسی بھی جدوجہد کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ لہذا احتجاج کے اس عمل کی مخالفت کرنا قطعی بے معنی ہے۔ عوام حقیقی جدوجہد ہی سے سیکھتے ہیں۔
اگر احتجاج کرنے والی جماعتوں کے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو اس سے عوام کا اپنی قوت پر یقین بڑھ جاتا ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ عوام کی ''موجودگی'' ہی ان کے فاعلانہ کردار کی نمائندہ نہیں ہوتی، یعنی عوام موجود ہوتے ہوئے بھی غیر موجود ہوتے ہیں جب تک ان کی 'موجودگی' ان کے عمل سے جڑی ہوئی نہ ہو۔ جب سمت اور عمل متعین نہیں تو موجود ہونے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ ''موجود'' ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ موجودگی کو بامعنی 'بننا' چاہیے۔ عوام کی موجودگی صرف اسی وقت بامعنی بن سکتی ہے جب انھیں اپنے عمل کی قوت کا شعور ہو اور وہ مزاحمت کا راستہ اپنائیں۔ مزاحمت در مزاحمت عوام کے بامعنی بنانے کا عمل ہے۔
موجودہ صورتحال میں اس ''بحران'' کا اگر کوئی حل نکلتا ہے تو وہ بلاشبہ سرمایہ داری نظام کے استحکام پر ہی منتج ہوتا دکھائی دیتا ہے، مگر عوام کم از کم اپنی ''تشکیل'' کے مراحل طے کر نے کے عمل سے آگاہ ہو جائیں گے۔
پاکستان میں طبقاتی شعور کا مکمل فقدان ہے۔ داخلی و خارجی عوامل کے مابین تفریق و امتیاز کے دھندلا جانے سے طبقاتی شعور کو ممیز کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ پیداواری قوتوں کے ارتقا سے پرانی شناختیں مٹ رہی ہیں۔ سائنس، تکنیک اور سائبر سپیس جیسے تصورات کے ارتقا سے طبقات کی تشکیل نو کا عمل جاری ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں آئیڈیالوجی کا تسلط ہے۔ مذہب کا غلبہ بہت واضح ہے۔ ایسے میں طبقاتی شعور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بلکہ مزاحمت کے ذریعے ممیز ہو گا۔
فی الوقت انقلاب کا اس کے کلاسیکی مفہوم میں جشن منانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے کم از کم اس ''واقعے'' کا جشن مناننا چاہیے کہ جو عوام کو ان کے ''ہونے'' کا احساس دلا رہا ہے۔ عہد حاضر میں ایسے 'واقعات' کہ جن سے حکمرانوں کے چہروں پر خوف دکھائی دے وہ قابلِ مذمت نہیں ہوتے۔ ہر 'واقعے' کا بنظر غور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کشمکش، احتجاج اور جدوجہد کے اندر سے جدلیاتی ربط تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ متصورہ اصولوں کے تحت واقعات کی تشریح کوئی معقول امر نہیں ہے۔ تھیوری میں زندہ رہنے کی بجائے حقیقت میں زندہ رہنا زیادہ بامعنی ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت شاید وہ کچھ ہونے جارہا ہے کہ کمزور دل والے جس کو دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایسے واقعات کوتاریخ کے اوراق میں پڑھ کر لوگ خوش ضرور ہوتے ہیں، مگر آنکھوں کے سامنے دیکھ کر خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔آج جن ''ترقی یافتہ'' مغربی معاشروں کی ''دانشور'' مثالیں پیش کرتے ہیں، ان میں خونی انقلابات بہت عرصہ پہلے عمل میں آچکے ہیں، لہذا یہ کہنا کہ جمہور کی برپا کی گئی مزاحمت ملک کو کسی 'بحران' سے دو چار کردے گی، درست نہیں ہے۔ یہ وقت مزاحمتی قوتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کا نہیں، یہ جمود کے ٹوٹنے او طاقت کے مراکز کی تحلیل کا منظر دیکھنے کا وقت ہے۔ جو لوگ اپنی زندگیوں میں اس طرح کے مناظر دیکھتے ہیں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں۔