یہ جمہوریت ہے
یقیناً اقتدار میں نشہ ہے ایسا نشہ جو بھلے برے کی تمیز مٹا دیتا ہے پاکستان کا دولخت ہونا بھی نشہ اقتدار تھا ۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور عوامی تحریک طاہر القادری کی منزل تقریباً ایک ہی ہے طاہر القادری پورا نظام بدلنا چاہتے ہیں جب کہ عمران خان بھی طاہر القادری ہی کی طرح وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ کرپشن کا خاتمہ اور ملک میں حقیقی جمہوریت اور حق داروں کو ان کے حقوق سپرد کرنے کے لیے دل و جان سے کوشاں ہیں اور نہایت ایمانداری اور سچائی کے ساتھ پاکستان کے استحکام اور اس کی ترقی کے خواہش مند ہیں۔
پی ٹی آئی اور پی اے ٹی حسب وعدہ 14 مارچ کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے جاں نثار کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے انھوں نے شدید مشکلات اور سفر کی صعوبتیں اٹھانے کے باوجود صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اور یہ یقینا بہت بڑی بات ہے اور جذبوں کی صداقت کی ضامن ہے۔
تادم تحریر یہ کارکن اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ان کے پایہ استقامت میں ذرہ برابر لچک نہیں آئی ۔ طاہر القادری کی 20 اگست کی تقریر اس بات کی غماز ہے کہ وہ مذاکرات کرنے کے لیے رضامند ہوگئے ہیں اور ان سے مذاکرات کرنے کے لیے حکومت کی کمیٹی آئی تھی اس سے قبل حیدر عباس اور اعجاز الحق طاہر القادری سے ملنے گئے تھے، ملاقات طاہر القادری نے بے حد خلوص کے ساتھ کی اور ان حضرات کے ایثار و قربانی کا بھی اعتراف کیا۔ حیدر عباس (ایم کیو ایم) نے اس بات کی مذمت کی کہ جلوس کے شرکا کے پاس نہ پینے کے لیے پانی ہے اور نہ کھانا۔
واش روم کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان مسائل کا ذکر حکومت سے کریں گے لیکن ان کے جانے کے بعد محرومیاں اپنی جگہ برقرار رہیں۔ آفرین ہے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں پر کہ وہ موسموں کی سختی کے باوجود اپنے قائدین کے احکامات کی تکمیل کرتے رہے۔ عمران خان کے پارٹی ورکر اور تحریک انصاف کے حامی اپنے قائد پر جان لٹانے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ گزشتہ رات سب نے دیکھ لیا کہ ایک جم غفیر اور تاحد نگاہ لوگوں کا موجیں مارتا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، عمران خان اور ان کے پارٹی کے رہنماؤں جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور خواتین ورکرز کے چہروں پر اطمینان جھلک رہا تھا، ان سب کو یقین ہے کہ فتح حق کی ہوگی۔
طاہر القادری کی جماعت کے 14 ارکان کو شہید کردیا گیا اور اس جمہوریت میں ابھی تک قاتل گرفتار نہ ہوسکے اور حکومت کے ارکان جمہوریت، جمہوریت کا نغمہ الاپ رہے ہیں ان کی جمہوریت میں شامیانے لگانے کی اجازت نہیں، بھوک نے سب کو نڈھال کیا ہوا ہے لیکن ہمت مرداں مدد خدا ۔
یقیناً اقتدار میں نشہ ہے ایسا نشہ جو بھلے برے کی تمیز مٹا دیتا ہے پاکستان کا دولخت ہونا بھی نشہ اقتدار تھا، دونوں طرف سے کوئی ایک طریق حکومت اور کرسی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ان صاحب اقتدار کی ہوس پرستی نے لاکھوں لوگوں کو خون میں نہلادیا، بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں آباد کوچوں میں خاک اڑنے لگی۔ زندہ ہنستے بستے لوگ موت کی اتھا وادیوں میں اتر گئے بلکہ انھیں اتار اگیا تھا محض اقتدار کے لیے، آج بھی اقتدار کی جنگ حکومت کی طرف سے ہے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اقتدار کی بجائے ملک میں حقیقی جمہوریت چاہیے، لوگوں کا تحفظ اور انصاف کی بالادستی چاہیے۔
عوام موجودہ اور سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اذیت میں مبتلا رہے ہیں بجلی، پانی اور گیس کے مسائل اپنی جگہ، محدود تنخواہوں کا دکھ اور علاج و معالجے کی سہولتیں، تعلیمی ماحول کا فقدان کا رونا الگ لیکن اس کے ساتھ سنگین ترین مسئلہ عدم تحفظ کا احساس۔ محلے اکھاڑہ گاہ اور جنگ کا نقشہ پیش کرتے رہے اور بینکوں اور گھروں میں دن دہاڑے ڈکیتیاں ہوں تو کیا اس ماحول کو ہم جمہوریت کہہ سکتے ہیں؟ لیاری کے علاقوں میں قتل و غارت گری مچی رہی اور آج بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، غریب و مظلوم انصاف کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہی جمہوریت ہے؟ کہ ایک غیرملکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کو قتل کرکے چلا جاتا ہے اور حکومت اسے باعزت طریقے سے بذریعہ ہیلی کاپٹر روانہ کردیتی ہے۔
ایسی ہی جمہوریت کی حمایت امریکا اور انگلینڈ کر رہے ہیں چونکہ غیر ملکیوں کو بغیر ویزا لاکر اسلام آباد بسایا گیا تھا اور وہ جو چاہتے کرتے تھے اور ان حالات میں حکومت نہ صرف چشم پوشی کرتی بلکہ ان کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک رہتی ہے کیا اسے ہم جمہوری نظام کہیں گے؟ ریڈ زون میں جلوس کے شرکا اور طاہر القادری کی دردناک تقریر بھی حکمرانوں کے دلوں کو پگھلا نہیں رہی ہے، یوں لگ رہا ہے کہ جیسے پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہو۔ حمزہ، شاہ رخ اور شاہ زیب کیس کو بھی کوئی نہیں بھولا ہے اور بھولا تو اس لڑکی کو بھی نہیں جس کا نام مختاراں مائی تھا اور جو ظالموں کے ظلم کا شکار ہوئی اور پھر امریکا نے اس سے ہمدردی کی اور اسے اپنے ملک بلالیا۔ بے شمار معصوم بچیاں درندوں کے ہتھے چڑھیں۔ ہزاروں پسند کی شادی کرنے کے جرم میں کاری کردی گئیں۔ کیا جمہوریہ پاکستان اسی ملک کا نام ہے۔
ایک دور ایسا بھی آیا تھا، جب ہر روز ہر دن،ہر گھنٹے معصوم ننھی بچیاں اغوا کی جاتیں اور قتل کردی جاتیں مقتول کے لواحقین کی ایف آئی آر تک درج نہ کی جاتی، یہی جمہوریت ہے؟
سرکار ان حالات میں بھی جمہوریت، جمہوریت کا نغمہ الاپ رہی ہے۔ افسوس صد افسوس اسی جمہوریت میں حج کرپشن بھی ہوتا ہے، ایفی ڈرین کیس جیسے سنگین کیس سامنے آتے ہیں۔ ان ہی مذموم مقاصد کی تکمیل اور دولت کی طمع نے پاکستان جیسے پاک ملک کا نام بدنام کردیا ہے آج دنیا بھر اور خصوصاً عرب دنیا میں پاکستانیوں کا وقار متاثر ہوچکا ہے۔
میرا چھوٹا بھائی ندیم اور کچھ عزیز عمرے کی سعادت سے سرفراز ہوئے ان کا آنکھوں دیکھا حال تھا کہ وہاں کے منتظمین اور افسران پاکستانیوں سے نہایت درشتگی سے گفتگو کرتے اور ان کے گلوں میں پاکستان کا مونو گرام دیکھ کر انھیں علیحدہ قطار میں کھڑا کیا جاتا اور سب ملکوں کے حجاج کرام کے کاموں کو نمٹا کر ان کی طرف متوجہ ہوتے نہ کہ سابقہ اور موجودہ حکومت نے اپنے عوام کے حقوق ادا کیے بلکہ دیار غیر میں بھی انھیں دو کوڑی کا کردیا، ان حالات میں کوئی تو ہو، جو حق کا پرچم سربلند کرے۔ اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ بقول عمران خان کے نواز شریف بادشاہ سلامت ہیں۔
پاکستان میں عرصہ دراز سے یہی ہو رہا ہے کہ اقتدار کی کرسیوں پر اپنے بچوں اور عزیزوں کو بٹھا دیا جاتا ہے لہٰذا سب کی رائے اور ترانہ ایک ہی طرز کا ہوتا ہے۔ کاش وہ پہلے ہی چار حلقے کھلوا دیتے لیکن انھیں حکومت جانے کا ڈر تھا۔ لیکن ڈر تو اب بھی ہے۔ لیکن زوال تو سب کا ہوتا ہے ان کا بھی جو اپنے آپ کو نعوذ باللہ خدا کہا کرتے تھے۔ کالم کے چھپنے تک دیکھیں صورتحال کیا ہوتی ہے۔ اور اونٹ کو کون سی کروٹ نصیب ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی اور پی اے ٹی حسب وعدہ 14 مارچ کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے جاں نثار کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے انھوں نے شدید مشکلات اور سفر کی صعوبتیں اٹھانے کے باوجود صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اور یہ یقینا بہت بڑی بات ہے اور جذبوں کی صداقت کی ضامن ہے۔
تادم تحریر یہ کارکن اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ان کے پایہ استقامت میں ذرہ برابر لچک نہیں آئی ۔ طاہر القادری کی 20 اگست کی تقریر اس بات کی غماز ہے کہ وہ مذاکرات کرنے کے لیے رضامند ہوگئے ہیں اور ان سے مذاکرات کرنے کے لیے حکومت کی کمیٹی آئی تھی اس سے قبل حیدر عباس اور اعجاز الحق طاہر القادری سے ملنے گئے تھے، ملاقات طاہر القادری نے بے حد خلوص کے ساتھ کی اور ان حضرات کے ایثار و قربانی کا بھی اعتراف کیا۔ حیدر عباس (ایم کیو ایم) نے اس بات کی مذمت کی کہ جلوس کے شرکا کے پاس نہ پینے کے لیے پانی ہے اور نہ کھانا۔
واش روم کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان مسائل کا ذکر حکومت سے کریں گے لیکن ان کے جانے کے بعد محرومیاں اپنی جگہ برقرار رہیں۔ آفرین ہے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں پر کہ وہ موسموں کی سختی کے باوجود اپنے قائدین کے احکامات کی تکمیل کرتے رہے۔ عمران خان کے پارٹی ورکر اور تحریک انصاف کے حامی اپنے قائد پر جان لٹانے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ گزشتہ رات سب نے دیکھ لیا کہ ایک جم غفیر اور تاحد نگاہ لوگوں کا موجیں مارتا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، عمران خان اور ان کے پارٹی کے رہنماؤں جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور خواتین ورکرز کے چہروں پر اطمینان جھلک رہا تھا، ان سب کو یقین ہے کہ فتح حق کی ہوگی۔
طاہر القادری کی جماعت کے 14 ارکان کو شہید کردیا گیا اور اس جمہوریت میں ابھی تک قاتل گرفتار نہ ہوسکے اور حکومت کے ارکان جمہوریت، جمہوریت کا نغمہ الاپ رہے ہیں ان کی جمہوریت میں شامیانے لگانے کی اجازت نہیں، بھوک نے سب کو نڈھال کیا ہوا ہے لیکن ہمت مرداں مدد خدا ۔
یقیناً اقتدار میں نشہ ہے ایسا نشہ جو بھلے برے کی تمیز مٹا دیتا ہے پاکستان کا دولخت ہونا بھی نشہ اقتدار تھا، دونوں طرف سے کوئی ایک طریق حکومت اور کرسی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ان صاحب اقتدار کی ہوس پرستی نے لاکھوں لوگوں کو خون میں نہلادیا، بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں آباد کوچوں میں خاک اڑنے لگی۔ زندہ ہنستے بستے لوگ موت کی اتھا وادیوں میں اتر گئے بلکہ انھیں اتار اگیا تھا محض اقتدار کے لیے، آج بھی اقتدار کی جنگ حکومت کی طرف سے ہے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اقتدار کی بجائے ملک میں حقیقی جمہوریت چاہیے، لوگوں کا تحفظ اور انصاف کی بالادستی چاہیے۔
عوام موجودہ اور سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اذیت میں مبتلا رہے ہیں بجلی، پانی اور گیس کے مسائل اپنی جگہ، محدود تنخواہوں کا دکھ اور علاج و معالجے کی سہولتیں، تعلیمی ماحول کا فقدان کا رونا الگ لیکن اس کے ساتھ سنگین ترین مسئلہ عدم تحفظ کا احساس۔ محلے اکھاڑہ گاہ اور جنگ کا نقشہ پیش کرتے رہے اور بینکوں اور گھروں میں دن دہاڑے ڈکیتیاں ہوں تو کیا اس ماحول کو ہم جمہوریت کہہ سکتے ہیں؟ لیاری کے علاقوں میں قتل و غارت گری مچی رہی اور آج بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، غریب و مظلوم انصاف کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہی جمہوریت ہے؟ کہ ایک غیرملکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کو قتل کرکے چلا جاتا ہے اور حکومت اسے باعزت طریقے سے بذریعہ ہیلی کاپٹر روانہ کردیتی ہے۔
ایسی ہی جمہوریت کی حمایت امریکا اور انگلینڈ کر رہے ہیں چونکہ غیر ملکیوں کو بغیر ویزا لاکر اسلام آباد بسایا گیا تھا اور وہ جو چاہتے کرتے تھے اور ان حالات میں حکومت نہ صرف چشم پوشی کرتی بلکہ ان کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک رہتی ہے کیا اسے ہم جمہوری نظام کہیں گے؟ ریڈ زون میں جلوس کے شرکا اور طاہر القادری کی دردناک تقریر بھی حکمرانوں کے دلوں کو پگھلا نہیں رہی ہے، یوں لگ رہا ہے کہ جیسے پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہو۔ حمزہ، شاہ رخ اور شاہ زیب کیس کو بھی کوئی نہیں بھولا ہے اور بھولا تو اس لڑکی کو بھی نہیں جس کا نام مختاراں مائی تھا اور جو ظالموں کے ظلم کا شکار ہوئی اور پھر امریکا نے اس سے ہمدردی کی اور اسے اپنے ملک بلالیا۔ بے شمار معصوم بچیاں درندوں کے ہتھے چڑھیں۔ ہزاروں پسند کی شادی کرنے کے جرم میں کاری کردی گئیں۔ کیا جمہوریہ پاکستان اسی ملک کا نام ہے۔
ایک دور ایسا بھی آیا تھا، جب ہر روز ہر دن،ہر گھنٹے معصوم ننھی بچیاں اغوا کی جاتیں اور قتل کردی جاتیں مقتول کے لواحقین کی ایف آئی آر تک درج نہ کی جاتی، یہی جمہوریت ہے؟
سرکار ان حالات میں بھی جمہوریت، جمہوریت کا نغمہ الاپ رہی ہے۔ افسوس صد افسوس اسی جمہوریت میں حج کرپشن بھی ہوتا ہے، ایفی ڈرین کیس جیسے سنگین کیس سامنے آتے ہیں۔ ان ہی مذموم مقاصد کی تکمیل اور دولت کی طمع نے پاکستان جیسے پاک ملک کا نام بدنام کردیا ہے آج دنیا بھر اور خصوصاً عرب دنیا میں پاکستانیوں کا وقار متاثر ہوچکا ہے۔
میرا چھوٹا بھائی ندیم اور کچھ عزیز عمرے کی سعادت سے سرفراز ہوئے ان کا آنکھوں دیکھا حال تھا کہ وہاں کے منتظمین اور افسران پاکستانیوں سے نہایت درشتگی سے گفتگو کرتے اور ان کے گلوں میں پاکستان کا مونو گرام دیکھ کر انھیں علیحدہ قطار میں کھڑا کیا جاتا اور سب ملکوں کے حجاج کرام کے کاموں کو نمٹا کر ان کی طرف متوجہ ہوتے نہ کہ سابقہ اور موجودہ حکومت نے اپنے عوام کے حقوق ادا کیے بلکہ دیار غیر میں بھی انھیں دو کوڑی کا کردیا، ان حالات میں کوئی تو ہو، جو حق کا پرچم سربلند کرے۔ اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ بقول عمران خان کے نواز شریف بادشاہ سلامت ہیں۔
پاکستان میں عرصہ دراز سے یہی ہو رہا ہے کہ اقتدار کی کرسیوں پر اپنے بچوں اور عزیزوں کو بٹھا دیا جاتا ہے لہٰذا سب کی رائے اور ترانہ ایک ہی طرز کا ہوتا ہے۔ کاش وہ پہلے ہی چار حلقے کھلوا دیتے لیکن انھیں حکومت جانے کا ڈر تھا۔ لیکن ڈر تو اب بھی ہے۔ لیکن زوال تو سب کا ہوتا ہے ان کا بھی جو اپنے آپ کو نعوذ باللہ خدا کہا کرتے تھے۔ کالم کے چھپنے تک دیکھیں صورتحال کیا ہوتی ہے۔ اور اونٹ کو کون سی کروٹ نصیب ہوتی ہے۔