مالکان اور کرایہ داروں کے تنازعات
قانون کرایہ داری کے تحت مالک کو بھی حقوق اور تحفظات فراہم کیے گئے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس میں چھپنے والی اس خبر نے بہت سے لوگوں کو چونکا کر رکھ دیا ہوگا جس میں بتایا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں قیام پاکستان سے قبل کے ایک 73 سال پرانے مقدمے کی کارروائی ایک خاص حد تک آکر رک گئی ہے۔
کرایہ داروں کو صرف کرایہ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے جو پہلے 2 روپے ماہانہ تھا اب 5 روپے ماہانہ کے حساب سے جمع کرایا جاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران کرایے کی جھگیاں مضبوط تعمیرات میں بدل چکی ہیں۔ یہ کوئی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ نہیں ہے، ایسے بہت سے واقعات و مقدمات ہیں۔ پاکستان میں خوراک کے بعد رہائش سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ شہر کی 80 فیصد سے زائد آبادی کرایہ کے مکانوں یا کچی آبادیوں میں رہتی ہے جس کی وجہ سے پیچیدہ قسم کے سماجی و قانونی مسائل جنم لے رہے ہیں، پچھلے کالم میں راقم نے اس موضوع پر لکھنے کا عندیہ دیا تھا۔ کرایہ دار اور جائیداد کے مالکان کا تنازعہ ازلی قسم کا ہے۔
پہلے پہل عام طور پر جائیداد کی ملکیت کے کاغذات بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ کرایہ داری کے معاہدات بھی زبانی ہوا کرتے تھے، کرایہ داری قوانین بھی مروج نہیں تھے، محض زبانی کلامی بات کا پاس رکھا جاتا تھا۔ اس وقت کے تنازعات میں عموماً لاعلمی، جاہلیت، انا یا لالچ کا عنصر کارفرما ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان تنازعات میں عیاری، مکاری، بدعنوانی اور عصبیت کا عنصر سائنٹیفک اور تکنیکی بنیادوں پر استوار ہوچکا ہے۔
لاعلمی، خوف اور لالچ کی وجہ سے مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ طویل عرصے تک کرایہ دار رہنے والا شخص جائیداد کا مالک بن جاتا ہے یا اس کا دعویٰ کردیتا ہے، اس لیے مالکان کرایہ دار کو زیادہ عرصے برداشت نہیں کرتے اور زیادہ کرایہ اور ایڈوانس کے لالچ میں کرایہ دار کو بلا کسی وجہ بے دخل کرنے کے لیے غیر اخلاقی و غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ عوام میں یہ غلط تاثر بھی عام ہے کہ معاہدہ کرایہ داری کی مدت ختم ہونے پر کرایہ دار کو مذکورہ جائیداد لازمی خالی کردینا چاہیے حالانکہ ایسا نہیں ہے، معاہدہ کی مدت کے اختتام کے بعد بھی وہ کرایہ دار متصور کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ کرایہ دار کی موت کی صورت میں یہ حق اس کے ورثا کو منتقل ہوجاتا ہے۔
دوسری جانب بعض کرایہ دار بھی مالک کی جائز ضرورت کی بنا پر بھی اس کی جائیداد خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، کرایہ بڑھانے سے انکار کردیتے ہیں، کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے میں تاخیر کرتے یا انکار کردیتے ہیں، کرائے کی جگہ کو اس کی اصل حالت میں رکھنے کے بجائے خراب کرتے ہیں یا توڑپھوڑ کرکے ردوبدل کردیتے ہیں۔
جائیداد کے مالکان اور کرایہ داروں کے درمیان تنازعات کو روکنے، ان کو حل کرنے اور ان کے مفادات و حقوق کو تحفظ دینے اور مالکان اور کرایہ داروں کے باہمی رشتے کو باضابطہ اور قانونی بنانے کے لیے تمام صوبوں اور کنٹونمنٹ نے کرایہ داری کے اپنے اپنے قوانین وضع کیے ہوئے ہیں۔
سندھ کے اربن ایریاز میں کرایہ داری کا قانون Sindh Rented Premises Ordinance, 1979 نافذالعمل ہے جو ایک نہایت جامع و موثر قانون ہے جس میں مالکان اور کرایہ داروں کے تمام حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ فراہم کردیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت مالک اور کرایہ دار کے مابین ایک سال سے کم کا معاہدہ رجسٹر ہونا لازمی نہیں ہے۔ کرایہ داری کے تحریری معاہدہ یا فریقین کے زبانی اقرار سے ان کے درمیان مالک اور کرایہ دار کا قانونی رشتہ استوار ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں دونوں کو بہت سے حقوق اور ان کے مفادات کا تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور بہت سی پابندیاں بھی عائد ہوجاتی ہیں جن کے حصول اور اطلاق کے لیے وہ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اگر مالک تنگ کرے، کرایہ نہ وصول کرے یا رسید جاری نہ کرے تو اس کے ان اقدام اور غیر قانونی وجبری بے دخلی سے بچنے کے لیے کرایہ دار کرایہ عدالت میں جمع کراسکتا ہے۔ عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرسکتا ہے ۔
قانون کے تحت کسی مالک کو کرایہ دار کی گیس، بجلی اور پانی بند یا منقطع کرنے کا اختیار نہیں کسی ایسے اقدام کے خلاف عدالت ان کی فوری بحالی کا حکم جاری کرسکتی ہے اور عدم تعمیل پر مالک کو 6 ماہ تک قید یا جرمانے کی سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر مالک عمارت کی ضروری مرمت، دیکھ بھال اور رنگ و روغن جو عمارت کو درست حالت میں رکھنے کے لیے ضروری ہو نہیں کراتا تو عدالت کرایہ دار کو اس بات کی اجازت دینے کی مجاز ہے کہ وہ یہ کام کرواکر اس کی رقم کرایہ سے منہا کرلے۔ اگر مالک غیر ضروری، بلاسبب اور دروغ گوئی سے کرایہ دار کے خلاف کوئی مقدمہ کرتا ہے تو عدالت کرایہ دار کو اس کا معاوضہ (Compensation) دلا سکتی ہے جو کرایہ کے 10 گنا تک ہوسکتا ہے۔
قانون کرایہ داری کے تحت مالک کو بھی حقوق اور تحفظات فراہم کیے گئے ہیں۔ یوٹیلیٹی بلز کو بھی کرائے میں شمار کیا گیا ہے ان کی ادائیگی میں ناکام (Defaulter) ہونے کی صورت میں کرایہ دار کی بے دخلی کا حق دیا گیا۔ اسی طرح کرایہ داری کے پہلے تین سال کی تکمیل پر دس فیصد اضافہ اور اس کے بعد ہر سال جاریہ کرایہ (Running Rent) پر دس فیصد سالانہ اضافے کا حق دیا گیا ہے۔ جائیداد کے مالک کو فیئر رینٹ کے تعین کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اس کی درخواست پر رینٹ کنٹرولر اسی معیار کی دیگر جائیدادوں کا کرایہ، تعمیراتی اور مرمت کے اخراجات میں اضافہ، جائیداد کی امپروومنٹ اور ایڈیشن، نئے ٹیکسز کے اجرا اور جائیداد کی سالانہ ویلیو جس کی بنیاد پر ٹیکسز عائد ہوتے ہیں جائزہ لینے کے بعد فیئر رینٹ مقرر کرے گا۔ فیئر رینٹ کے لیے کرایہ دار کو بھی درخواست دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اگر مالک جائیداد کو کرایہ کی جگہ اپنے، اپنی بیوی یا شوہر یا بیٹے یا بیٹی کے ذاتی استعمال کے لیے درکار ہو تو خالی کرائی جاسکتی ہے۔ اس کو یہ حق بھی دیا گیا ہے اپنی جائیدادوں میں سے جس جائیداد کو چاہے خالی کراسکتا ہے اس کا کسی پرانے یا نئے کرایہ دار یا جائیداد کی مکانیت اور محل وقوع اور موزونیت سے تعلق نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر مالک بیوہ ہوجائے یا نابالغ بچے جن کے ماں باپ دونوں مرگئے ہوں یا تنخواہ دار ملازم جو ریٹائر ہونیوالے ہوں کرایہ دار کو نوٹس دے کر کرایہ کی جگہ ذاتی استعمال کے لیے خالی کراسکتے ہیں۔ اگر مالک جائیداد ذاتی استعمال کے لیے خالی کرانے کے سال بھر کے اندر وہ جگہ کسی دوسرے کو کرایہ پر دیتا ہے تو سابقہ کرایہ دار جگہ کی واپسی کے لیے درخواست دے سکتا ہے اس اقدام پر رینٹ کنٹرولر مالک پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
مالک عمارت کی تعمیر نو کے لیے متعلقہ اداروں سے قانون کے مطابق اجازت لے کر عدالت کے ذریعے عمارت خالی کراسکتا ہے لیکن یقین دہانی کرانا ہوگی کہ تعمیر نو کے بعد کرایہ دار کو نئی عمارت میں جگہ فراہم کی جائے گی رینٹ کنٹرولر عمارت کی نوعیت، مکانیت، معیار، محل وقوع اور علاقے میں اس معیار کی جگہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کرایہ مقرر کرے گا۔ اگر مالک عمارت خالی کرانے کے بعد عمارت گراکر تعمیر نو شروع نہیں کرتا تو عدالت مالک کو مجوزہ جگہ کرایہ دار کو واپس کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
اگر کرایہ دار کرایہ ادائیگی میں ڈیفالٹر ہوتا ہے، کرایہ کی جگہ یا اس کے کسی حصے کو کسی دوسرے کے استعمال میں دیتا ہے، کرایہ کی جگہ جس مقصدکے لیے لی گئی ہو اس کے علاوہ کسی مقصد کے لیے استعمال کرے، ایسی حرکات میں ملوث ہو جن سے پڑوسیوں کو پریشانی و ایذا پہنچتی ہو یا ان کی وجہ سے عمارت یا اس میں فراہم کردہ سہولیات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو یہ وجوہات قانونی طور پر کرایہ دار کی بے دخلی کی بنیاد بنتی ہیں کرایہ داری کے مقدمات میں مقدمہ کی باقاعدہ سماعت سے پہلے کرایہ دار کو ماہانہ کرایہ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتی ہے تاوقتیکہ مقدمے کا فیصلہ نہ سنادیا جائے ۔
اگر کرایہ دار کرایہ کی رقم عدالت میں جمع نہیں کراتا تو بغیر کسی مزید عدالتی کارروائی کے کرایہ دار کا حق دفاع ختم کرکے اس کی بے دخلی کے احکامات جاری کردیتی ہے۔ اگر شہری قانون کرایہ داری سے آگاہی حاصل کریں اور اس پر پوری طرح عمل پیرا ہوجائیں تو بہت سی پریشانیوں تنازعات اور مقدمات سے اپنے آپ کو محفوظ کرسکتے ہیں قانون سے عدم واقفیت اور انحراف بہت غیر ضروری قباحتوں اور پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔