بلوچستان سے کچھ خبریں

بلوچستان میں خبروں کی قلت کے باعث یہاں غیر معمولی سمجھی جانے والی خبر بھی ۔۔۔

khanabadosh81@gmail.com

اگست کے وسط سے ملکی سیاست میں کچھ ایسی ہلچل رہی ہے کہ اخبارات سے لے کر ٹی وی چینلز تک سبھی کی توجہ کا مرکز اسلام آباد رہا ۔ اورکیوں نہ ہوتا کہ ہر لحاظ سے خبر کا وسیع ذخیرہ وہاں میسر تھا۔ لیکن نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس دوران ملک کے کونوں کھدروں سے کبھی کبھار اخبارات اور ٹیلی وژن کی اسکرین تک رسائی حاصل کرنیوالی چھوٹی موٹی خبریں ایک لحاظ سے 'بلیک آؤٹ' ہو کر رہ گئیں۔

بلوچستان میں خبروں کی قلت کے باعث یہاں غیر معمولی سمجھی جانے والی خبر بھی ،خبر وں کے گرداب میں گھرے مرکزی میڈیا تک پہنچتے پہنچتے معمولی بن کر رہ جاتی ہے۔نیزگزشتہ دنوں میں خبروں کا جو میلہ اور ریلہ رہا ہے، اس میں یہاں کی معمول کی خبروں کا اوجھل رہنا کوئی ایسی اچھنبے کی بات نہیں۔ اس عرصے میں، جب کہ اسلام آباد 'انقلابیوں' اور 'آزادیوں'کے نرغے میں رہا، بلوچستان سے ایسی کئی خبریں سامنے آئیں،جو مرکزی میڈیا اور وہاں کے قارئین کے لیے 'معمول' کی ہونے کے باوجود، بلوچستان کے مخصوص سیاسی و سماجی صورت حال کے پس منظر میں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ آئیے، ایسی ہی کچھ خبروں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

آغاز،اس اچھی،مثبت اورنہایت خوش کن خبر سے کہ پنج گور میں تین ماہ سے زائد عرصے تک بند رہنے والے نجی تعلیمی ادارے عیدکی تعطیلات کے بعد بالآخر کھل گئے۔ یاد رہے کہ رواں برس مئی کے آغاز میں ایک غیر معروف بنیاد پرست مذہبی تنظیم کی جانب سے ایک نجی تعلیمی ادارے کو بالخصوص بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے دی جانے والی دھمکیوں اور بعدازاں انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پنجگور کے تمام نجی تعلیمی ادارے حفاظت کے پیش نظر بند کر دیے گئے۔پہلے ایک ماہ تک تو اس معاملے پہ حکومت نے کان ہی نہ دھرے۔ تاوقتیکہ مذکورہ اداروں سے وابستہ مخلص اور اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب کواحتجاج کا دائرہ صوبائی دارالحکومت تک وسیع کرنا پڑا۔

دو ماہ کی مسلسل کاوشوں کے باوجود کہیں جا کر وزیر اعلیٰ نے بالآخر وہ اقدام اٹھایا، جو انھیں اس واقعے کے اولین روز لے لینا چاہیے تھا۔عیدکی تعطیلات کے بعد وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ خود پنجگور پہنچے۔ متعلقہ اداروں کے متاثرین سے ملاقات کی۔ انھیں سیکیورٹی سے متعلق یقین دہانی کروائی،گم نام بنیاد پرست تنظیم کے خلاف کھل کر مؤقف اپنایا۔ تب کہیں جا کر ان اداروں کی انتظامیہ ادارے دوبارہ کھولنے کی ہمت کر پائی۔وزیر اعلیٰ کی اس کاوش پہ بہرحال اتنا ہی کہا جا سکتا ہے، 'دیر آید، درست آید۔'

کوئٹہ میں میر غوث بخش بزنجو کی برسی منائی گئی...آپ پوچھ سکتے ہیں اس میں بھلا 'خبریت' کیا ہے۔ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ ہم ان خبروں پہ بات کریں گے جو بلوچستان کے مخصوص سیاسی و سماجی پس منظر میں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔کسی زمانے میں بابائے بلوچستان اور پھر بابائے مذاکرات قرار دیے جانے والے ،بلوچستان کے سیاسی اماموں میں سر فہرست میر بزنجوگزشتہ سات، آٹھ برس سے بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں سب سے زیادہ معتوب قرار پانے والے شخص رہے ہیں۔ ابھی چند برس پیشتر جب بلوچستان میں صرف مزاحمت کا راج تھا، اور سیاست پہ ، بالخصوص پارلیمانی سیاست پہ بات کرنا ممنوع قرار پا چکا تھا۔

میر بزنجو کی روح کو مغلظات سنائے بنا بلوچ طلبہ تنظیم کے عہدیداروں کا ناشتہ ہضم نہیں ہوتا تھا۔اور ان کی دہشت اس قدر تھی کہ خودکو بزنجو کا سیاسی پیروکار کہنے والے بھی محفلوں میں ان کا نام لینے سے کتراتے تھے۔ایسے میں ان کی فکری پیروکاری کا دم بھرنے والے چند سرپھرے اہلِ قلم ہی تھے، جنھوں نے ہر دُشنام سہا، اور میدانِ جنگ والے ماحول میں ، بے سروسامانی میںاپنے فکری قائد کا دفاع کرتے رہے۔لکھنے والا نہ نجومی ہوتا ہے، نہ ولایت کا حامل، وہ تو محض تاریخ کے تناظر میں حال کے ساتھ مستقبل کا تجزیہ کرتا ہے، جو کبھی درست تو کبھی غلط بھی قرار پاتا ہے۔


ابھی پانچ برس قبل اسی بزنجو کی برسی پہ شاہ محمد مری کی کتاب پہ تبصرہ میں بزنجو کی پیروکاری میں ہم نے لکھا تھا؛''اہلِ ایمان و عاشقانِ بلوچستان یہ یقین رکھتے ہیں کہ حالات کی آندھی ایک دن تھمے گی اور وقت کی گرد جب بیٹھے گی تو اس کے پیچھے سے بلوچستان کا اصل چہرہ نظر آئے گا؛ بابائے بلوچستان کا چہرہ، روشن ضمیر کا چہرہ، اجلے خمیر کا چہرہ، عاشقِ جمہور کا چہرہ، تاریخ کا چہرہ... بزنجو کا چہرہ، ہم سب کا چہرہ!''ابھی وقت کی گرد مکمل طور پہ نہیں تھمی، سو بزنجو کا دھندلا سا چہرہ ہمیں نظر آنے لگا ہے۔ جب یہ دھند مکمل طور پہ چھٹ جائے گی، تبھی ہم اس روشن چہرے کا حقیقی روپ دیکھ پائیں گے۔

اسی سے منسلکہ ایک خبر یہ ہے کہ بلوچستان میں کوئی ایک عشرے بعد چودہ اگست منایا گیا، اور اس میں اصل 'خبریت' یہ ہے کہ یہ پرامن بھی رہا، ماسوائے چند ایک معمولی واقعات کے، کہ جن میں تیرہ اگست کے روز کوئٹہ میں پاکستانی پرچم ، جھنڈیاں اور بیج فروخت کرنیوالی تین چھوٹی چھوٹی دکانوں کومختلف اوقات میں نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں درجن بھر افراد زخمی ہوئے۔

لیکن اس کے باوجود چودہ اگست کے دن کوئٹہ کی سڑکوں پہ لوگ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پہ پاکستانی پرچم لہراتے رہے۔انھیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ اس طرح کے مناظر سریاب کے علاقے میں بھی دیکھے گئے، جو ابھی چند برس قبل، مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔حکومتی سطح پر منعقد کی گئی تقاریب میں بھی تماشائیوں کی کثیرتعدادشامل رہی۔یہ اپنے تئیں بلوچستان میں حالات کی تبدیلی کا واضح اشارہ دِکھتا ہے۔ اندرونِ بلوچستان پہاڑوں کے مابین جاری کشمکش سے قطع نظر، کوئٹہ اپنے روایتی پُرامن ماحول کی جانب لوٹتا نظر آتا ہے۔

کوئٹہ ایئرپورٹ سے ملحقہ سمنگلی ایئربیس پہ دہشت گردوں کے حملے کی خبر البتہ ملکی میڈیا تک ضرور پہنچی۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے پس منظر میں یہ ایک بڑی خبر تھی۔ واقعہ میں تین خود کش حملہ آوروں سمیت درجن بھر دہشت گرد مارے گئے۔ لیکن اس معاملے کے جس پہلو پہ بات نہیں ہوئی، وہ ہے کوئٹہ میں طالبان کی موجودگی ۔ اس معاملے پہ برسوں پہلے طالبان کی 'کوئٹہ شوریٰ' کی خبریں میڈیا میں آئیں تو انتظامیہ نے بارہا اس کی تردید کی۔ جب کہ آزاد ذرائع اس کے لیے اکثر یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں خیبر پختونخوا اورافغانستان سے ملحقہ سرحد سے طالبان کامسلسل آنا جانا رہتا ہے، اور جب تک صوبے میں افغان مہاجرین موجود ہیں، انھیں یہ محفوظ پناہ گاہیں حاصل رہیں گی ۔

مذکورہ واقعہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔کہ آپریشن ضربِ عضب کے بعد جب ملک کے باقی حصوں میں طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، ایسے میں وہ کوئٹہ سے اتنی بڑی کارروائی کی اہلیت کیسے رکھتے ہیں۔ بیک وقت بارہ حملہ آوروں کا ایئر بیس پہ حملہ اگر کامیاب ہو جاتا تو یہ بہت بڑی تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔ واضح رہے کہ سمنگلی ایئربیس کے قریب عوامی آبادی کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔اور آئی ایس پی آر کے مطابق انھیںحملہ آوروں کی اطلاع بھی مقامی آبادی کے توسط سے ہی بروقت ملی۔ دوسرے معنوں میں متعلقہ سیکیورٹی ادارے اتنی بڑی کارروائی سے مکمل طور پر لاعلم تھے۔جو بہر حال ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت اورکارکردگی پہ ایک سوالیہ نشان ہے۔خبر کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بروقت ہونے والی کارروائی نے کوئٹہ کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔

آخر میں تذکرہ ملکی سیاست اور میڈیا پہ چھائے آزادی اور انقلاب مارچ کا۔ اور اس سلسلے میں خبر یہ ہے کہ بلوچستان ہر دو مارچز سے مکمل طور پر لاتعلق رہا ہے۔ جلد غصے میں آ جانے والے تحریک انصاف کے جنونیوں کو یہ بات اگر بری لگے تو ان کی تشفی کے لیے وضاحت ہے کہ کوئٹہ سے ان کے اپنے ذرائع کے مطابق دس گاڑیوں اور بیس موٹر سائیکلوں کا قافلہ روانہ ہوا، اس میں نفری کتنی ہوگی، اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اندرونی ذرائع کی خبر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانے والوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ باقی 'انقلابیوں' کا کوئی قافلہ روانہ ہوتے نہ کسی نے دیکھا، نہ سنا۔ بلکہ بلوچستان اسمبلی نے ان دونوں مارچوں کے خلاف سب سے پہلے پارلیمنٹ میں باضابطہ قرارداد منظور کی۔ عوام پہلے ہی اس سے لاتعلق تھے۔

مزید کچھ خبریں ایسی ہیں جو الگ نشست کی متقاضی ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر بلوچستان کے حوالے سے یہ حوصلہ افزا خبریں تھیں۔ ایک عرصے سے اچھی خبروں کو ترسے ہوئے بلوچستان کے لیے یہ کسی نعمتِ مترکبہ سے کم نہیں۔ دعا کیجیے کہ بلوچستان پہ اچھی خبروں کی آمد یونہی جاری ہے، اور ہم اور آپ اسی تشفی اورخوشی سے اس کا تذکرہ کرتے رہیں۔
Load Next Story