احتجاجی سیاست……

لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ ’’جب پیڑ بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائیںگے‘‘۔


ابو حمزہ August 24, 2014

ملک میں سیاسی خندقیں کھودی جارہی ہیں۔ اﷲ رحم کرے دیکھیں کون کون اس میں گرتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں مخصوص اسباب کے تحت تخریبی سیاست کے مواقع وافر مقدار میں موجود ہیں۔ 1947 سے اب تک کی سیاست پر ذرا نظر ڈالیے۔ دھرنوں اور احتجاجی سیاست کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جب نواب زادہ لیاقت علی خان کا دور حکومت تھا اس زمانے میں بھی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ان سے اختلاف ہوا تھا اور ان کا شور شرابا لیاقت علی خان کے قتل پر ختم ہوا تھا۔ یہاں تک کہ جنرل محمد ایوب خان برسر اقتدار آئے اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا۔ جب مارشل لاء اور EBDO کے تحت سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو سائیڈ لائن لگایا گیا تو اس وقت ملک کے سیاسی اور مذہبی لیڈروں کو احساس ہوا کہ معاملہ کس رخ پر چلا گیا۔

لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ ''جب پیڑ بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائیںگے''۔ لیکن ملک کے ہمدردوں نے ہمت نہ ہاری، انھوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح اپنے من پسند لوگوں کو اقتدار میں لایا جائے۔ یہاں تک کہ محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیت کو حکومت مخالف میدان میں اتارا گیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی اور آخرکار جنرل ایوب کے 11سال کے طویل اور صبر آزما دور حکومت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر دوبارہ یہ انکشاف ہوا، بھٹو کے دور سے بہتر تو جنرل ایوب کا دور تھا۔دوبارہ سے جذباتی اور سیاسی ہنگامے شروع کیے گئے تاکہ سیکولر حکمرانوں کو بے دخل کرکے اپنی پسند کی حکومت لائی جائے۔

1977 میں ایک زبردست مذہبی اور سیاسی اتحاد بنا جس کا احتجاج اور ایجی ٹیشن توڑ پھوڑ کی حد تک جا پہنچا اور نتیجتاً بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جنرل ضیا کا مارشل لاء نمودار ہوا۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو پھر یہ احساس ہوا کہ جنرل ضیا کے دور حکومت سے بہتر تو بھٹو کا دور تھا تو 1981 میں MRD (Movement of Restoration of Democracy) کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس میں لگ بھگ 11جماعتیں شامل تھیں۔ لیکن یہ الائنس ملک گیر مقبولیت حاصل نہ کرسکا اور حکومت نے بھی اس کو سختی سے کچلا۔ اس ساری اکھاڑ پچھاڑ کا منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں تمام سماجی روایتیں ٹوٹ گئیں، لوگ دو طبقوں (حکمران اور غیر حکمران) میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوگئے، سیاسی ہنگامہ آرائیوں کی بنا پر وہ تعمیری کام نہ ہوسکا جسے مذہب، اخلاق اور تعلیم کے میدان میں انجام پانا تھا۔

قصہ مختصر جنرل ضیا کے دور اقدار سے اب تک ہر حکومت کے دور میں دھرنے اور احتجاجی ریلیاں ہی ملک کے افق پر جلوہ گر رہی ہیں۔ لیکن ملک اور عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اسلام کے نام پر بھی جتنی پرشور تحریکیں یہاں اٹھیں ان کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ سارے شوکت اسلام جلوسوں اور اسلامی انقلاب کے بلند بانگ نعروں کے بعد پتا چلتا تھا کہ یہاں کا معاشرہ اسلامی نظام قبول کرنے کو تیار ہی نہیں، یہاں کے مختلف گروہوں میں اتحاد کا مزاج ہی نہیں، ان میں یہ حوصلہ ہی نہیں کہ ذاتی مفاد پر ملی مفاد کو ترجیح دے سکیں۔ پچھلی نصف صدی سے مسلمانوں کی یہی کہانی ہے اور یہ ایک ہی کام کررہے ہیں۔

''دوسروں کو نشانہ بناکر شور شرابا اور ہنگامہ آرائی کرنا''۔ اس کے نتیجے میں لوگ اب دو طبقوں میں بٹ گئے ہیں، ایک وہ جو احتجاجی سیاست کو بطور پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں، دوسرے وہ جو چپ سادھے بیٹھے ہیں لیکن ان میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنی داخلی خامیوں کی فکر کرے، اسی وجہ سے ہر دور اقتدار میں دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں کا تو ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے جن میں وہی پرانے چہرے احتجاجی سیاست کرتے نظر آتے ہیں مگر ملک کی عوام اور نظام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

موجودہ زمانے کے رہنماؤں کا یہی المیہ ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کار کو استعمال نہیں کرتے اور پرشور تحریکیں چلاکر تبدیلی لانا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ جو کچھ حاصل تھا وہ بھی ان سے چھن جائے۔ قرآن میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے ''بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں'' (سورۃ رعد، آیت 11)

اس کی مثال اسلامی تاریخ میں موجود ہے کہ جب غزوہ احد اور غزوہ حنین میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا تو قرآن نے اس کی ذمے داری فریق ثانی پر نہیں ڈالی بلکہ یک طرفہ طور پر صرف مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ تمہاری فلاں کمزوریوں کی وجہ سے فریق ثانی کو یہ موقع ملا کہ وہ تمہارے خلاف اپنے عزائم میں کامیاب ہوں (سورۂ آل عمران، آیت 152، سورۂ توبہ آیت 25)

اﷲ کی طرف سے جو غلبہ کا وعدہ ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ پہلے اہل حق اپنے حصے کا کام انجام دیں اور اعلیٰ مقاصد کے لیے چھوٹے نقصانات برداشت کریں نہ کہ صرف دھرنوں اور احتجاج کی سیاست پر عمل کریں، دوسرے الفاظ میں نہ خود کام کریں اور نہ دوسروں کو کرنے دیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان اﷲ کے سامنے جواب دہ ہونے کا خوف دل میں رکھیں اور قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا رہنما بنائیں تو یہ ان کے لیے کامیابی کا راستہ ہے اور اپنے مصائب کا الزام دوسروں کو دینے کے بجائے اپنی اندرونی کمزوریوں پر قابو پائیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک اور عوام حقیقی معنوں میں آزاد ہوں اور اغیار کے منصوبے پیوند خاک ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔