کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا
سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ ...
ایک بار پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ریاستی اداروں کو بچانے کے لیے متحرک ہو کر فریقین کو بامقصد مذاکرات کا مشورہ دینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مگر اس مشورے پر عمل کرنے کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ فریقین اپنے غیر سنجیدہ رویوں کے ذریعے فوج کو براہ راست مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ معاملات و مسائل جس سست روی سے چل رہے ہیں، ان کے فوری حل کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا موجودہ بے چینی اور احتجاج کے نتیجے میں عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کسی قسم کی کوئی پیش رفت ہو سکے گی یا نہیں؟ کیا سول سوسائٹی موجودہ صورتحال میں جمہوریت کی بقاء کے لیے کوئی فعال کردار ادا کر سکے گی یا نہیں؟
پھر عرض ہے کہ جمہوری نظم حکمرانی فکری کثرتیت سے مشروط ہوتی ہے۔ اس لیے ہر شراکت دار کو اپنے نقطہ نظر اور موقف کو بیان کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں کچھ حقوق ہوتے ہیں وہیں کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی کا ایک فورم ہوتا ہے، جسے پارلیمان کہا جاتا ہے۔ ماورائے پارلیمان کوئی بھی فیصلہ اور اقدام قابل قبول نہیں ہوتا۔ لیکن توقع یہ کی جاتی ہے کہ حکومت کے تمام اقدام اور فیصلے شفافیت پر مبنی ہوں گے۔
حکومت پارلیمان کے ذریعے عوام کو جوابدہی کی پابند ہو گی اور عوامی مسائل پر Responsive ہو گی۔ اپوزیشن حکومت کے اقدامات پر پارلیمان میں تنقید کرتے ہوئے انھیں چیلنج کرے گی۔ اپوزیشن اٹھائے گئے مسائل پر حکومتی عدم توجہی کے باعث ایوان سے باہر بھی احتجاج کا حق رکھتی ہے۔ مگر حکومت کی تبدیلی کے لیے صرف آئینی طریقہ کار پر ہی انحصار کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں قومی امور کی نزاکتوں اور عوامی مزاج اور خواہشات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اناپرستی، عجلت پسندی اور بے لچک رویے سیاسی عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک کی 67 برس کی تاریخ گواہ ہے کہ 1958ء سے پہلے سول بیوروکریسی اور گزشتہ 50 برس سے فوج سیاستدانوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔
ایسی کسی صورتحال میں جہاں سیاسی جماعتیں، سیاسی جماعتوں کی ثالثی کو اہمیت دینے پر آمادہ نہ ہوں، وہاں ان کا یہ مطالبہ کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے، بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حالیہ صورتحال میں کیا ہی بہتر ہوتا کہ فریقین بحران کے آخری حدود تک پہنچنے اور فوج کو تنبیہی پیغام دینے کی نوبت آنے سے پہلے ہی دیگر سیاسی جماعتوں کی ثالثی کو قبول کرتے ہوئے بامقصد و بامعنی مذاکرات پر آمادہ ہو جاتے۔ مگر سیاسی جماعتوں میں پایا جانے والا آمرانہ Mindset انھیں اپنی ہی جیسی سیاسی جماعتوں کے مشورے قبول کرنے سے ہمیشہ روکتا ہے۔
اب دوسری طرف آئیے۔ 14 اگست سے جاری بحرانی کیفیت کا جائزہ لینے پر تین اہم باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کی جڑ ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں پایا جانے والا فکری ابہام ہے۔ گزشتہ 67 برسوں کے دوران کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا کہ ریاست کیسی ہونی چاہیے؟ اس کا نظم حکمرانی کیا ہو؟ اس میں مختلف شراکت داروں کا کیا کردار ہو گا؟ اور انتظامی ڈھانچہ میں کن کلیدی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ جس نے نظم حکمرانی کے بحران کو جنم دیا۔ نظم حکمرانی کے اسی بحران نے ملک کو فلاحی کے بجائے سیکیورٹی ریاست میں تبدیل کر دیا۔
نتیجتاً جمہوری عمل کے تسلسل میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس پہلو پر توجہ دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ریاست کے قیام سے پہلے کی حکمت عملیوں اور قیام کے بعد کے تصورِ ریاست میں کیا بنیادی فرق ہونا چاہیے؟ چنانچہ ریاستی مقتدرہ نے ان قوتوں کی کھل کر سرپرستی کی، جو ریاست کے منطقی جواز کو تھیوکریٹک زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے اور آج بھی دیکھتے ہیں۔ اس رویے اور رجحان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک پر 32 برس فوج براہ راست مسلط رہی اور باقی عرصے میں پالیسی سازی اس کے زیر اثر رہی۔
دوئم، موجودہ انتظامی اور سیاسی نظام عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور آئین کے دائرے میں تبدیلی کا متقاضی ہے۔ مگر مراعات یافتہ طبقات اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر اس نظام کے تسلسل پر اصرار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوئم، حکمران طبقات معاملات و مسائل کی حساسیت اور نزاکتوں کو سمجھنے اور ان پر فوری توجہ دینے کے بجائے اس وقت تک تاخیری حربے اختیار کیے رکھتے ہیں، جب تک کہ کوئی شدید ردعمل نہیں آتا۔ یہ روش اور رویہ مسائل کو الجھانے اور پیچیدہ بنانے کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہی رویہ اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
دوسرا مسئلہ فیوڈل Mindset ہے، جو پورے ملک میں نیچے سے اوپر تک کینسر کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے صرف حکمران ہی نہیں، بلکہ ہر ادارہ اپنے آئینی مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کو اپنی سیاسی طاقت کا اظہار سمجھتا ہے۔ پہلے سول بیوروکریسی، پھر فوج نے اپنے آئینی مینڈیٹ سے انحراف کیا۔ 2007ء میں عدلیہ نے assert کرنے کا فیصلہ کیا۔ وکلاء اور سول سوسائٹی کے قوت بازو پر عدلیہ نے اپنی خودمختار حیثیت بحال کرا لی۔ جس میں ذرایع ابلاغ نے کلیدی کردار ادا کیا۔لیکن اعلیٰ عدلیہ نے عدالتی نظام کی Devolution اور دیگر اصلاحات کے ذریعے اور عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے اقدامات نہ ہو سکے۔
اس صورت حال نے نظم حکمرانی کو مزید پیچیدگیوں کا شکار کر دیا ہے۔ کیونکہ 1958ء کے بعد سے سیاسی حکومتوں کو فیصلہ سازی اور ریاستی انتظام میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تیوروں کو نظر میں رکھنا ہوتا تھا۔ لیکن 2009ء کے بعد سے انھیں عدلیہ کی رضامندی کو مدنظر رکھنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح پارلیمان جو عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ایک خودمختار ادارہ ہوتا ہے، آزادانہ کام کرنے کی صلاحیت سے عملاً محروم ہوچکا ہے۔ کیونکہ اب اسے صرف ریاست کے ایک ماتحت ادارے کی مداخلت ہی کا خوف نہیں ہے، بلکہ ایک اہم ریاستی ستون کی انتظامی امور میں مداخلت کا خوف بھی تلوار کی طرح اس کے سر پر لہرانے لگا ہے۔
اس طرح معاملات و مسائل مختلف نوعیت کی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ آئین میں پہلے سے متعین ادارہ جاتی حدود پر بھی عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔ لیکن ان معاملات پر نہ تو حکومت، نہ اپوزیشن جماعتیں اور نہ ہی سول سوسائٹی توجہ دے رہی ہے۔
لیکن یہ آئینے کا ایک رخ ہے۔ اگر دوسری جانب دیکھیں تو سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر ان گنت کمزوریاں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی سیاسی عمل میں مداخلت نے سیاسی عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کیونکہ 1958ء کے بعد بالعموم اور 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد بالخصوص سیاسی جماعتوں کی تشکیل، دھڑے بندیوں اور مختلف جماعتوں کے انضمام میں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار بن چکا ہے۔
سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں نئے کیڈرز کی آمد اور پہلے سے موجود کیڈرز کا اہلیت کی بنیاد پر ترقی کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ چند ایک جماعتوں کو چھوڑ کر بیشتر سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے کارکنوں کی فہرست تک نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کی کیا سبیل ہو؟ اور جو مختلف حل تجویز کیے جا رہے ہیں وہ کس حد تک دیرپا ثابت ہوں گے؟ اس سلسلے میں ہمارا خیال ہے کہ پارلیمان میں موجود اور اس سے باہر تمام سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے جمہوری نظام بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سیاسی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے بعد وسط مدتی انتخابات کرا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن کسی بھی غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام سے گریز کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا جائے۔ دھرنوں اور گھیرائو کے ذریعے حکومتیں ختم کرنے کا رجحان انتہائی خطرناک ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ روایت پڑ گئی تو کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت نہیں کر پائے گی اور پیدا ہونے والا سیاسی انتشار (Chaos) پورے ملک کو تباہی کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے وقت ہے کہ ابھی سے کچھ نہ کچھ کر لیا جائے۔