قادری اور عمران کی حمایت کیوں

اس ملک کے 20 کروڑ عوام غربت، مہنگائی،بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ ....

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہر کالم نگار کے قارئین کا ایک حلقہ ہوتا ہے جو کالم نگار کے وژن اور خیالات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ ہمارے کالم کو پسند کرنے والوں کا بھی ایک حلقہ ہے جو ہمارے وژن، ہمارے نظریات کو پسند کرتا ہے۔ اگر وہ ہمارے کسی کالم میں کوئی نظریاتی خامی یا ابہام دیکھتے ہیں تو اس کی نشان دہی میں کوئی تکلف نہیں برتتے۔

پچھلے دنوں ہم نے ایک کالم ''فیصلہ کن مرحلہ'' کے عنوان سے لکھا تھا جس میں ہم نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی حمایت کی تھی اور مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتوں کو ان مارچوں میں شرکت کی تلقین بھی کی تھی۔ ہماری اس اپروچ پر کچھ قارئین ہی نہیں دوستوں نے بھی اعتراض کیا اور اسے ہمارے نظریات سے متصادم قرار دیا۔ بادی النظر میں ہماری یہ اپروچ ہمارے ان نظریات سے میل نہیں کھاتی اور اس سے نظریاتی کمزوری کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن ہم نے جس پیش منظر اور پس منظر میں یہ کالم لکھا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔

اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان انقلاب کے جھنڈے تھامے میدان سیاست میں کیوں وارد ہوئے ہیں جب کہ ان دونوں حضرات کا کوئی انقلابی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔جب کسی ملک، کسی معاشرے میں خاص طور پر پاکستان جیسے انتہائی جمود کے شکار معاشرے میں پورے کرپٹ اور استحصالی نظام کو بدلنے والی کوئی طاقت موجود نہیں اور 67 سال سے عوام کی آنکھیں تبدیلیوں کی آرزو میں پتھرا گئی ہوں تو پھر کیا مزید 67 سال انقلابی جماعتوں اور انقلابی قیادت کے ظہور کے انتظار میں گزارے جانے چاہئیں؟ کیا مزید 67 سال عوام کو زندہ درگور دیکھنا چاہیے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن میں ہماری نظریاتی کم فہمی کا جواب موجود ہے۔

اصل مسئلہ اپنے معاشرے کی ساخت اور مروجہ نظام کو سامنے رکھ کر تبدیلیوں کی طرف بڑھنے کا ہے۔ جب ہم اس المناک حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انقلابی قوتیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تو ہماری پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ انقلاب یا تبدیلی کی طرف دو قدم آگے بڑھنے والی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہماری مروجہ جمہوریت عملاً خاندانی مافیا بن گئی ہے جس نے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے آگے آنے کے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔

ہماری جمہوری تاریخ دھوکے، فریب، قومی دولت کی لوٹ مار، شہزادوں ولی عہدوں، بدعنوانیوں بدمعاشیوں کی تاریخ ہے، اس پوری جمہوری تاریخ میں عوام غریب سے غریب تر، امیر امیر تر ہوتے رہے، ہر آنے والی جمہوریت جانے والی جمہوریت سے زیادہ ظالم اور وحشی ثابت ہوتی رہی، ہر حکومت ترقی کے دعوے کرتی رہی لیکن اگر کوئی ترقی ہوئی تو وہ صرف اشرافیہ کی ترقی ہے۔


اس ملک کے 20 کروڑ عوام غربت، مہنگائی،بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ قومی اداروں میں اربوں روپوں کی کرپشن معمول کی بات بن گئی ہے، حکمران طبقات پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کے مقدمات عدالتوں میں عشروں سے زیر سماعت ہیں، دو کھرب سے زیادہ کے بینک قرضے معاف کرا لیے گئے ہیں، 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

جس جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خوف ہمارے جمہوریت کے آقاؤں اور ان کے نو رتنوں پر سوار ہے اور اس جمہوریت کو لاحق خطرے کو یہ لوگ ملک و قوم کے لیے خطرہ قرار دے کر اس کی ''ہر قیمت'' پر حفاظت کے دعوے کر رہے ہیں۔ کیا وہ جمہوریت اور اس کے سرپرست اس خاندانی جمہوریت، جمہوریت مافیا کے پارٹنر، جاگیردارانہ نظام، جمہوریت مافیا کو تحفظ فراہم کرنے والے انتخابی نظام، جمہوریت مافیا کی ڈھال بننے والے قانون اور انصاف کے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا عوام کو آگے لانے اور سیاسی قیادت کے مرحلے تک پہنچانے والے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا اربوں کھربوں کی قومی دولت کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کرنے اور لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے لیے تیار ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ کوئی مجرم اپنے جرائم کا خود احتساب نہیں کر سکتا۔

اس جمہوریت کے حامی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو اس جمہوریت کی بھینس کا دودھ پی رہے ہیں، دوسرے وہ جو نظریاتی طور پر جمہوریت کو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ سیاسی نظام سمجھتے ہیں۔ ان دوستوں کا خیال ہے کہ اس کرپٹ جمہوریت کے تسلسل کے پیٹ سے کبھی نہ کبھی حقیقی جمہوریت پیدا ہو گی۔ حقیقی جمہوریت کی ساری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز ہوتی ہے لیکن حقیقی جمہوریت کے آنے کے سارے راستے جعلی جمہوریتوں والے بند کر چکے ہیں۔ جب تک جعلی سے اصلی جمہوریت کی طرف جانے والے راستے کھولے نہیں جاتے، جعلی جمہوریت، فراڈ جمہوریت، حقیقی جمہوریت نہیں بن سکتی۔

جو اہل دانش، اہل فکر، اہل قلم اس جعلی جمہوریت کے بطن سے حقیقی جمہوریت کے تولد کی امید پر اس کی حمایت بلکہ غیر مشروط حمایت کر رہے ہیں وہ ان رکاوٹوں کو ہٹانے کی بات تک نہیں کرتے جو خاندانی جمہوریت، جاگیردارانہ نظام، اشرافیائی انتخابی نظام، بلدیاتی نظام کے بجائے کمشنری اور ایڈمنسٹریٹری نظام، انتخابات میں دھاندلی کے نظام، اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے والے قانون اور انصاف کے نظام کی شکل میں جمہوریت کا کوڑھ بنی ہوئی ہے۔

قادری اور عمران خان، چوہدری برادران اور ان کے ساتھی نہ انقلابی ہیں نہ وہ کوئی انقلابی نظام لا سکتے ہیں، لیکن وہ خاندانی جمہوریت کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہ انتخابی نظام میں تبدیل کی بات کر رہے ہیں، وہ قومی دولت کے لٹیروں کے احتساب کی بات کر رہے ہیں، وہ بلدیاتی نظام کے نفاذ کی بات کر رہے ہیں، وہ دھاندلی کے مرکز الیکشن کمیشن کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں اور عوام ان کی باتوں کو سن کر ان پر اعتماد کر کے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

کیا ان اقدامات سے 67 سالہ Status Quo نہیں ٹوٹے گا؟ اگر ٹوٹتا ہے تو یہ انقلاب تو نہیں انقلاب کی طرف دو قدم کی پیش رفت ضرور ہے۔ جب انقلابی جماعتیں اور انقلابی قیادت سرے سے موجود نہیں تو پھر ان نیم انقلابیوں کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے؟ کیا جمہوریت کے نام پر لٹیروں کو عوام کے سروں پر مزید 67 سال مسلط رہنے کی اجازت دینا چاہیے؟
Load Next Story