آئیڈیل مرد آج اور کل
اس کا آئیڈیل مغرب کا مرد ہے جو جینز پہنتا ہے، بیئر پیتا ہے اور مہنگی کار ڈرائیو کرتا ہے ...
مردوں کی پسندیدہ عورت تو وہ ہے جو کام میں ماسی سکینہ اور دیکھنے میں کترینا ہو مگر عورتوں کا آئیڈل مرد کون ہے؟ یعنی عورتیں کس قسم کے مرد کو پسند کرتی ہیں؟ وہ کیا چاہتی ہیں کہ مرد میں کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں؟ میں نہیں جانتا، اگر جانتا بھی ہوں تب بھی بتانا نہیں چاہتا کہ کل کی عورت کا آئیڈیل مرد کون تھا۔ کیوں کہ کل میں کیا رکھا ہے؟ سوائے افسوس اور حسرت کے! آج کی بات اہم ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ آج کی عورت کیا چاہتی ہے؟ اسے کیسا مرد چاہیے؟
یہ سوال اس حوالے سے بھی ہم ہے کہ کل یہ سوال صرف مردوں سے پوچھا جاتا تھاکہ اس کو کیسی عورت چاہیے؟ اس سوال پر ایک انڈین گانا بھی مشہور ہوا تھا جس میں ایک مرد سے پوچھا جاتا تھا کہ:
وہ پری کہاں سے لاؤں،
تیری دلہن جسے بناؤں
کہ چھوری کوئی پسند نہ آئے تجھ کو
کہ گوری کوئی پسند نہ آئے تجھ کو
مگر آج کی عورت آزاد ہوچکی ہے۔ وہ کلی جیسے ہونٹ اب کھل چکے ہیں اور برملا اپنی پسند کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ مگر ایسا سروے پاکستان جیسے ملک میں کم ہوتا ہے جب کہ مغرب میں ایسے سروے عام ہوتے رہتے ہیں۔ وہاں پر عورتوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ''آپ کی پسند کا مرد کون ہے؟'' تو وہ بڑی محبت سے وہ خوبیاں گنوانے لگتی ہیں جن کو پڑھ کو ہم تو مایوس ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ آج کمیونیکیشن کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی عورت بھی وہی کچھ پسند کرنے لگی ہے جو مغرب میں عورتوں کو پسند ہے۔ کیوں کہ ہماری عورتیں اب برقعے سے تو کیا اس دوپٹے سے بھی آزاد ہو رہی ہیں جس پر کبھی مشرقی عورت کو فخر ہوا کرتا تھا اور وہ ہوا میں تتلی کی طرح اڑتے ہوئے گایا کرتی تھی کہ:
ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا
مگر اب وہ لال دوپٹہ نہ معلوم اڑ کر کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے اور عورت سادہ اور معصوم ہونے والا کردار چھوڑ چکی ہے۔ وہ اپنے وجود کی گواہی بڑی بہادری سے دینے لگی ہے اور کہنے لگی ہے کہ اسے وہ مرد نہیں چاہیے جو اس کے والدین اور گھر والوں کو پسند آئے بلکہ اسے ایسا مرد چاہیے جو اسے پسند آئے؟ جب عورتوں سے پسند کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے تو وہ یہ بتاتی ہیں کہ انھیں ایسا مرد چاہیے جس میں پہلی خوبی تو یہ ہو کہ وہ ہنس مکھ ہو۔ جب کہ کل تک یہ خوبی ایک خرابی سمجھتی جاتی تھی۔
کل ایسے مرد کو کم پسند کیا جاتا تھا جو عورت کو ہنسانے کی صلاحیت کا مالک ہو۔ کل کی عورت کو ایک سوبرشخصیت کا مالک مرد اچھا لگتا تھا۔ اس لیے وہ راج کپور کے مقابلے میں اس دلیپ کمار کو اپنا فیورٹ ہیرو قرار دیا کرتی تھی جو ہنسانے کے بجائے ان کے ساتھ سوبر انداز کے ساتھ پیش آیا کرتا تھا۔ مگر آج انھیں سلمان خان جیسا ہیرو زیادہ بھاتا ہے، کیوں کہ وہ قد میں بھی اچھا ہے، اس کا جسم بھی مسکیولر ہے، اور اپنی اوٹ پٹانگ حرکات سے انھیں ہنساتا بھی ہے اور بڑی بات کہ پچاس برس کی عمر میں ہونے کے باوجود ٹائٹ جینز پہنتا ہے۔
آج کی عورت کو سوٹ میں ملبوس مرد اتنا پسند نہیں۔ اگر ہوتا تو انڈیا کے ایکٹر صرف فل سوٹ میں نظر آتے۔ انڈیا کی فلموں کی بات میں اس لیے کر رہا ہوں کیوں کہ وہ فلمیں نہ صرف ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں کے خیالات کی عکاسی کرتی ہیں، اس لیے اتنا بزنس کرتی ہیں بلکہ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے مخصوص انداز سے لوگوں کی پسند پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ وہ غیر شعوری انداز کے ساتھ عوام کو متاثر کرتی ہیں اور ان کی نفسیات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہی سبب ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی صنف نازک کی ذہنیت انڈین فلم انڈسٹری سے متاثر ہے۔ اور اس حوالے سے جب ہم انڈیا کے ہیروز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مشہور ہیروز سلمان خان اور شاہ رخ نظر آتے ہیں، مگر شاہ رخ بھی عورتوں میں اس درجہ مقبول نہیں جس درجہ مقبول وہ سلمان خان ہے جو پھٹی ہوئی جینز پہن کر شرٹ کو اتار پھینکتا ہے۔ مگر ہر وہ لمبا لڑکا جو پرانی جینز پہنتا ہے اور اس کی ٹی شرٹ اس کے جسم کو چھپانے کے بجائے دکھانے کا سبب بنتی ہے وہ ان لڑکیوں کا ہیرو نہیں بن سکتا کیوں کہ وہ اس سادہ سے لباس میں ملبوس ہوکر امپورٹڈ کار نہیں چلاتا، وہ سڑک پر چلتا ہے، اس لیے وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔ کل کا ہیرو اپنے اصولوں پر ثابت قدمی کے ساتھ چلا کرتا تھا۔
اس کی غربت میں ایک قسم کی شان دیکھی جاتی تھی، مگر آج نہیں۔ آج کی عورت بااصول کنگلے کو پسند کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اس لیے آج کے مرد کو اگر عورت کا آئیڈل ہونا ہے تو اسے ہینڈسم ہونے اور پرانی جینز پہننے کے ساتھ ساتھ امیر بھی ہونا چاہیے۔
کل کا ہیرو مجسمہ اخلاق ہوا کرتا تھا۔ وہ شراب اور بیئر کے قریب تب جاتا تھا جب عشق میں ناکام ہوا کرتا تھا۔ جب اس کی محبوبہ اس سے دور ہوا کرتی تھی تب وہ اپنے غم کو شراب میں ڈبونے کا اعلان کیا کرتا تھا مگر آج کے ہیرو کے لیے آج کی عورت نے اپنے معیار تبدیل کردیے ہیں۔ وہ آج اس بات کو برا نہیں سمجھتی لیکن اس میں اعتدال ہو۔ اعتدال اس لیے کہ نہیں چاہتی وہ مدہوشی میں اسے فراموش کردے، مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ وہ تھوڑی سی رومانیت کو بھی برا سمجھے۔
اس کا آئیڈیل مغرب کا مرد ہے جو جینز پہنتا ہے، بیئر پیتا ہے اور مہنگی کار ڈرائیو کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے معاشرے پر ایسے کردار مسلط ہو رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کی اخلاقیات سے تال میل نہیں کھاتے مگر پھر بھی وہ معاشرے میں آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہے ہیں اور کل جب آزادی پھٹ کر سامنے آجائے گی تو ہماری وہ پرانی نسل جو ابھی تک اپنے بیتے ہوئے کل میں جی رہی ہے اس کے لیے یہ سب کچھ ایک صدمہ ہوگا، جو اسے بہرحال برداشت کرنے پڑے گا۔ کیوںکہ ہیرو کے معیارات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوا کرتے۔ جس طرح معاشرہ تبدیلی سے گزرتا ہے ویسے انسانوں کے خیالات بھی وہی نہیں رہتے۔
وہ تبدیل ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کی تشکیل عورت نے کی ہے، اس لیے سب سے پہلے عورت کا ذہن تبدیل ہوتا ہے اور وہ مرد کو تبدیلی کے لیے مجبور کردیتی ہے۔ اس طرح ہمیں اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس دور کو مرد چلا رہے ہیں۔ اس دور پر عورت حکمران حیثیت میں اپنی مرضی مسلط کر رہی ہے مگر وہ تسلط جبر کا نہیں بلکہ محبت اور پیار بھرا ہے۔ اس طرح ہم اس رومانوی ڈکٹیٹرشپ کو قبول بھی کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش میں بھی رہتے ہیں۔
اس طرح ہمیں یہ بات قبول کرنا ہوگی کہ آج کی عورت کچھ انگریزی اور کچھ انڈین فلموں کے ٹکڑوں کو اکٹھا کرکے ایک ایسے مرد کا مجسمہ بنانے میں مصروف ہے جو مرد اس مرد جیسا نہیں ہے جس کو کلاسیکل لٹریچر میں ہیرو کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ آج عورتوں کا پسندیدہ مرد امیر اور حسین اور معاشرے کی پروا نہ کرنے والا ایک ایسا شخص ہے جو نہ صرف ہماری معاشرتی بلکہ ہماری سیاسی زندگی میں بھی اپنا عمل دخل بڑھا رہا ہے۔ میں کسی کا نام لینا نہیں چاہتا۔ میں کسی کا حوالہ پیش کرنے کے موڈ میں نہیں۔
اس طرح سے ایک خوشگوار موضوع خواہ مخواہ متنازعہ بحث میں بدل جائے گا۔ اس لیے بقول کہنہ مشق صحافیوں کے کہ ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو'' وہ تیل جو کل جلتا تھا اور آج جلاتا ہے، جو تیل بہتے ہوئے کہتا ہے کہ ''میرے ساتھ بہو'' اور ہم اس کے ساتھ بہتے ہوئے نہ معلوم کہاں سے کہاں جا رہے ہیں؟
جس طرح غالب نے کہا تھا کہ:
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں
اس دور کے مرد کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔