فلسطینیوں کا قتل عام
ایوو مورالس نے دنیا بھر کے محنت کشوں سے سامراج کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کی اپیل کی ہے ...
965ء میں بصرہ میں پیدا ہونے والے عظیم سائنسداں ابن الہیثم جنھوں نے دنیا میں پہلی بار دوربین ایجاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ روشنی آنکھوں پر منعکس ہوتی ہے اور روشنی ہمیشہ سیدھی رفتار پہ چلتی ہے۔ اسی دوربین کی ایجاد کی بدولت ہم آج چاند تک پہنچ گئے اور مریخ پر تحقیق اور تجربہ کررہے ہیں بلکہ کیوریسٹی (پاتھ فائنڈر) اس وقت بھی ہمیں معلومات فراہم کررہا ہے۔ آج اسی بصرہ میں داعش نے 100 یزدیوں سمیت 700 افراد کا قتل کیا، اس کے علاوہ داعش نے فلسفہ اور کیمیا کے پڑھنے پڑھانے اور تحقیق کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
ادھر جس فلسطین میں حضرت موسیٰ نے غلاموں کی آزادی کے لیے عظیم الشان جلسہ منعقد کیا تھا آج اسی فلسطین پر موسیٰ کے ماننے والے اسرائیلی حکمران فلسطینیوں پر آگ برسا رہے ہیں اور اب تک 2 ہزار سے زائد فلسطینی اور 300 اسرائیلی مارے جاچکے ہیں۔ امریکا اور جرمنی کا داعش کے بارے میں سخت موقف ہے جب کہ اسرائیلی اور یوکرینی حکومتوں کے لیے نرم موقف ہے۔ یہ کھلی منافقت ہے۔ غزہ کی 500 اسکوائر کلومیٹر کی پٹی میں 20 لاکھ فلسطینی مقید ہیں۔ مصر کی سرحد بند ہے، ایک طرف سمندر ہے اور باقی ہر طرف اسرائیل۔ انھیں محصور کرکے مارا جارہا ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں طبی امداد فراہم کرنے والی ایک تنظیم ایم ایس ایف کے عہدیدار جوناتھن وٹال کے مطابق ''انسان کی وسیع آبادی ایک کھلی فضا والی جیل میں پھنسی ہوئی ہے۔ وہ اسے چھوڑ بھی نہیں سکتے اور یہاں زندگی گزارنا بھی عذاب ہے۔ اہم ترین ضروریات زندگی کی ترسیل بند کردی گئی ہے۔ اس جیل میں رہنے والوں نے اپنے نمایندے منتخب کر رکھے ہیں اور سماجی خدمات کو منظم کیا ہوا ہے۔ کچھ قیدیوں نے مسلح گروہ بنا رکھے ہیں اور اس عمرقید سے تنگ آکر وہ جیل کی دیواروں کے اس پار راکٹ پھینکتے ہیں، لیکن جیل خانے کا داروغہ بھیانک تباہی کے آلات سے لیس ہے اور اپنے قیدیوں پر بارود برساتا رہتا ہے۔''
اس یکطرفہ جنگ میں گرنے والی معصوم بچوں کی لاشیں اور مائوں کی چیخیں پتھر سے پتھر دل انسان کو بھی موم کردیتی ہیں لیکن اسلامی، عرب جمہوری اور لبرل غرضیکہ ہر جعلی صفت کے حکمرانوں کی سفاک بے حسی بہت کچھ عیاں کرتی ہے۔ کل 196 ممالک میں سے بولیویا وہ واحد ملک ہے جس کے سوشلسٹ صدر ایوو مورالس نے سرکاری طور پر اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست ڈیکلیئر کیا ہے۔ مورالس کے مطابق اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی بولیویا آمد پر بھی پابندی لگادی ہے۔
ایوو مورالس نے دنیا بھر کے محنت کشوں سے سامراج کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کی اپیل کی ہے۔ بولیویا اگر بڑی عسکری طاقت ہوتا تو شاید مورالس اسرائیل کے خلاف انقلابی جنگ کا اعلان بھی کردیتا۔ بولیویا کے علاوہ وینیزویلا، ایکواڈور اور لاطینی امریکا میں بائیں بازو کی چند دوسری حکومتوں نے بھی اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پوڈیم پر کھڑے ہو کر امریکی سامراج کو سب سے بڑا شیطان قرار دینے والے ہوگو شاویز کی کمی بھی آج محسوس کی جاسکتی ہے۔
2008 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد شاویز نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرکے اسرائیلی سفیر کو وینیزویلا سے نکال دیا تھا۔ مسلمان ملکوں میں بے گناہ انسانوں کو ذبح کرنے والے کرائے کے جہادی اور امت مسلمہ کا درس دینے والے ان کے آقا اب کہاں ہیں؟
ایوو مورالس کا مذہبی، نسلی، ثقافتی یا معاشی طور پر فلسطین کے عوام کے ساتھ دور کا بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ لیکن فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ ایوو مورالس کا وہی رشتہ ہے جو شاویز کا تھا، طبقے کا رشتہ، استحصال اور افلاس کا رشتہ، بھوک اور ننگ کا رشتہ، وہ رشتہ جو محکوم اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو کر حاکم اور ظالم سے لڑنا سکھاتا ہے، وہ رشتہ جو اس نظام کے تمام فرسودہ تعصبات سے بلند کرکے انسان کو انسان سے جوڑتا ہے۔ اسرائیلی شہروں میں صیہونی ریاست کے خلاف احتجاج کرنے والے کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو فلسطینی عوام سے جوڑ رکھا ہے۔
اسرائیل اگر خطے میں امریکی سامراج کا لے پالک ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کے عوام خصوصاً نوجوانوں نے نامساعد ترین حالات، جبر کی انتہا اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی دیوہیکل وحشی دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ دوسری جانب جمہوری اسرائیل بھی اتنا خوشحال اور آسودہ نہیں ہے۔ حالیہ خلفشار کا اہم پہلو اسرائیل کے اندر صیہونیت کے خلاف ہونے والے مظاہرے ہیں، جنھیں کارپوریٹ میڈیا کا کوئی دھڑا کوریج نہیں دے رہا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے مطابق 75 فیصد اسرائیلی شہری حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ دوسرے ہر سرمایہ دارانہ ملک کی طرح اسرائیل کے حکمراں بھی عوامی اخراجات میں سخت گیر کٹوتیاں کررہے ہیں۔
2011 کی عرب بہار کے دوران اسرائیل میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے سب سے بڑے تھے۔ جولائی 2011 اور اس کے بعد کے مہینوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اسرائیل کی کل آبادی کا 10 فیصد یروشلم، تل ابیب اور حائیفہ کی سڑکوں پر سوشلزم اور سماجی انصاف اور مبارک، اسد، نیتن یاہو مردہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ امت مسلمہ کے حکمران سامراج کی چاپلوسی اور اپنی عیاشی میں مصروف ہیں۔ ان کی ریاستوں کا کردار صہیونی مقصد، ریاستی جبر کے ذریعے حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی اور حکمرانوں کے دوسرے بین الاقوامی ادارے دھوکا دہی، فریب، ریاکاری اور لوٹ مار کے سیاسی اور سفارتی اوزار ہیں۔ پچھلے 67 سال کے دوران اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی جانے والی درجنوں قراردادوں کو صہیونی ریاست ردی کے ٹکڑوں کی طرح کوڑے دان میں پھینکتی آئی ہے۔ دنیا بھر میں ریاستی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے نتیجے میں گرنے والی ہر انسانی لاش ان اداروں اور بین الاقوامی کمیونٹی کا راز فاش کرتی ہے۔ سرمایے کی یہ دیوی اور کتنے انسانوں کی بلی مانگے گی؟ خون کی یہ پیاس جتنی بجھے گی، اتنی ہی بھڑکے گی۔
جمہوریت اور انسانی حقوق کا عالمی ٹھیکیدار اسرائیل کا کھلا حمایتی کس ڈھٹائی سے اسرائیلی دہشت گردی کی تاویلیں پیش کررہا ہے۔ سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف زہر اگل کر لبرل ازم اور جمہوریت کی دکانیں چلانے والے سابقہ بائیں بازو کے خواتین و حضرات عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟ اسلامی پارٹیوں اور بنیاد پرستوں کے بھی سامراج سے پرانے یارانے ہیں۔ مفادات کے رشتوں میں تصادم اور تنازعے بھی پیدا ہوتے ہیں، ایسا ہی دور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آیا تھا جب ڈالر جہادی وقتی طور پر بے روزگار ہوگئے تھے، لیکن لیبیا، شام اور عراق میں سامراجی دخل اندازی کے بعد بڑے پیمانے پر بھرتیاں کھل گئی ہیں۔ بنیاد پرستوں اور سامراجیوں کا معاشی اور اقتصادی پروگرام اور نظریہ ایک ہے۔
انڈونیشیا میں 10 لاکھ کمیونسٹوں کا قتل عام ہو یا افغانستان میں ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد، سامراج نے محنت کش عوام کی بغاوتیں کچلنے کے لیے ہمیشہ اسلامی بنیاد پرستوں پر انحصار کیا ہے۔ یہودی اور عیسائی بنیاد پرست اگر سب مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل لگاتے ہیں تو اسلامی بنیاد پرست تمام یہودیوں کو صہیونی قرار دیتے ہیں۔ نفرتیں بھڑکتی ہیں، لاشیں گرتی ہیں اور مذہب کے کاروبار چمکتے رہتے ہیں۔ یورپی حکمران اسرائیلی حکمرانوں کے اتحادی ہیں جب کہ یورپ کے 78 فیصد لوگ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہیں۔ فلسطین اور دنیا بھر کے محنت کش عوام اور شہریوں کے مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں مضمر ہے۔