ہاشم خان ایک نئی شروعات
جہاں ہاشم دنیا میں پاکستان کا نام پھیلا رہے تھے وہیں اپنے ملک میں ان نوجوانوں کو ترغیب دے رہے تھے ...
پاکستان کا سب سے پہلا اسپورٹس اسٹار جس نے اپنے ملک کو دنیا کے نقشے پر چیمپئن بناکر نمایاں کیا وہ نام ہے ''ہاشم خان''۔ ہاشم خان وہ پہلے اسپورٹس مین تھے جنھوں نے پاکستان کی طرف سے کوئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ جیتا اور وہ بھی ایک نہیں سات بار لگاتار، 1951 سے 1958 تک یہ اسکواش کا برٹش اوپن لگاتار جیتتے رہے، جہانگیر خان جنھوں نے یہ ٹائٹل دس بار جیتا ان کے بعد سب سے زیادہ بار برٹش اوپن جیتنے کا ٹائٹل ہاشم خان کے پاس ہے۔
ہاشم خان 1914 میں پیدا ہوئے اور چھوٹی ہی عمر سے برٹش آرمی اسپورٹس کلب میں ملازم ہوگئے، برٹش آرمی کے آفیسر ہاشم کو ''بال بوائے'' کہہ کر بلاتے کیوں کہ ہاشم کا کام کورٹ میں افسروں کو بال لاکر دینے کا تھا جب وہ اسکواش کھیل رہے ہوتے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ہاشم خان کی کبھی اسکواش میں کوئی باقاعدہ ٹریننگ نہیں ہوئی۔ یہ تو دور کی بات ہے، انھوں نے تو کئی سال تک اسکواش کورٹ میں قدم تک نہیں رکھا تھا لیکن کورٹ کے باہر بیٹھ کر دوسرے کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھ دیکھ کر انھوں نے خود اپنے آپ کو Train کرلیا۔ ہاشم کورٹ کے باہر بیٹھ کر یک ٹک ہر بال کو دیکھتے اور سوچتے کہ اگر میں اس کو کھیلتا تو کیسے کھیلتا؟
وہ برٹش آفیسرز جو کورٹ سے نکلتے ہوئے اس چھوٹے سے لڑکے کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ لڑکا محض ان کو دیکھ کر ایسا کھیل سیکھے گا کہ انھی کی سرزمین پر سات بار چیمپئن بنے گا۔
ہندوستان فلم لگان میں دکھایا گیا تھا کہ ڈیڑھ سو سال پہلے برٹش راج میں ہندوستان کے ایک گاؤں کے کچھ لوگوں کو گورے کرکٹ میچ کا چیلنج دیتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے کبھی کرکٹ نہیں کھیلی ہوتی لیکن وہ چھپ چھپ کر گوروں کا کھیل دیکھ دیکھ کر کرکٹ سیکھتے ہیں اور ان ہی کو ہرا دیتے ہیں۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہاشم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس زمانے میں ہر جگہ اسکواش کورٹس نہیں ہوتے تھے اور برطانوی اپنے اسپورٹس کلب میں مقامی لوگوں کو نہیں کھیلنے دیتے تھے، دن بھر گوروں کو کھیلتا دیکھتے اور شام کو اپنے گھر کے پیچھے کچی دیوار پر اپنے ہاتھ سے بنائے ریکٹ سے اسکواش کی پریکٹس کرتے۔
ہاشم خان نے اس وقت سب کو حیران کردیا جب انھوں نے 1944 میں انڈین چیمپئن شپ نہ صرف کھیلا بلکہ ہر میچ جیت کر آل انڈیا چیمپئن بن گئے۔
1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اگر آج کوئی بلی بھی درخت پر چڑھ جاتی ہے تو منٹ بھر میں اس کی تصاویر اور ویڈیوز دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں لیکن 1947 میں نیا ملک بننے کی خبر تیزی سے عام ہونا مشکل تھی، دنیا کے کئی علاقوں میں پاکستان بننے کی خبر اس وقت پہنچی جب ہاشم کی جیت کے ساتھ اخباروں کے اسپورٹس سیکشن میں پاکستان کا نام پہنچا۔
جہاں ہاشم دنیا میں پاکستان کا نام پھیلا رہے تھے وہیں اپنے ملک میں ان نوجوانوں کو ترغیب دے رہے تھے کہ وہ بھی اپنا نام روشن کرسکتے ہیں اور ملک کے وقار میں اضافے کا باعث ہوسکتے ہیں۔
پشاور کا وہ گاؤں جہاں سے ہاشم کا تعلق تھا وہاں کبھی کسی نے اسکواش کا نام نہیں سنا تھا لیکن اب وہاں کے نوجوان اس کھیل میں دلچسپی لینے لگے اور خود کو تربیت دینے لگے۔
ہاشم نے اپنے خاندان کے ہر لڑکے کو اسکواش کھیلنے کی طرف راغب کیا اور اتنے بڑے چیمپئن ہونے کے باوجود وقت نکال کر لڑکوں کو ٹریننگ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہی وجہ ہے کہ ان کے خاندان سے اسکواش کے بڑے بڑے کھلاڑی دنیا کے سامنے آئے۔
جہانگیر خان جنھوں نے دس بار اور جان شیر خان جنھوں نے چھ بار برٹش اوپن کا ٹائٹل جیتا ہاشم خان کے رشتے دار تھے۔
ایک زمانہ تھا جب دنیا کے ٹاپ ٹین اسکواش پلیئرز میں پاکستانی پلیئرز قمرالزماں، جہانگیر، جان شیر خان آپس میں ہی مقابلہ کیا کرتے تھے لیکن آج پاکستان میں اسکواش کے چیمپئنز کی گدی خالی ہے، پچھلے کئی سال میں ٹاپ تھری تو کیا کوئی پاکستانی کھلاڑی دنیا کے ٹاپ ٹین میں بھی شامل نہیں ہوا ہے اور اس کا قصوروار ہمارا سسٹم ہے۔
پاکستان کے سسٹم نے اسکواش کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، کئی اصول ایسے جو لڑکوں کو اس کھیل میں تربیت حاصل کرنے سے روکتے ہیں جیسے حکومت کسی بھی کھلاڑی کی اس وقت تک مالی معاونت نہیں کرے گی جب تک وہ کوئی چیمپئن شپ جیت کر نہیں آتا۔ جہاں دنیا کے دوسرے ملکوں نے ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو دیکھ کر اپنے اسکولوں میں بچوں کو اسکالر شپ دے دے کر اسکواش سکھایا وہیں ہمارے یہاں بچوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر اسکواش میں وقت ضایع کیا تو ہوسکتا ہے کہ اسکواش میں کوئی چانس نہ ملے اور زندگی میں بھی۔
وہ خاندان جس نے ہمارے درجنوں اسکواش کے چیمپئنز دیے ان کے نوجوان آہستہ آہستہ پاکستان سے باہر چلے گئے۔ جنھیں زندگی میں بہتر مواقع نظر آئے وہ اسکواش کو پیچھے چھوڑتے آگے بڑھ گئے اور ہاشم خان بھی امریکا جاکر اپنے بچوں کے ساتھ قیام پذیر ہوگئے۔
اب نئی نسل کے نوجوان اسکواش کو ''ماضی'' مانتے ہیں۔ ہم چیمپئنز کے ساتھ ''تھے'' لگاتے ہیں لیکن ہاشم خان کو امید تھی کہ پاکستان پھر کسی دن چیمپئن بنے گا اور اسی لیے انھوں نے اسی امید میں ہمیشہ اپنے ساتھ وہ ریکٹ رکھا جس کے ذریعے انھوں نے کئی بار اپنے ملک کا سر اونچا کیا تھا۔
کچھ دن پہلے ہمارا چیمپئن سو سال کی عمر میں ہمیشہ کے لیے سوگیا، وہ خاموش لیٹا تھا مگر اس کے سرہانے رکھا ریکٹ بہت کچھ کہہ رہا تھا۔
ہاشم خان کے دنیا سے چلے جانے کی کئی خبریں اخباروں میں چھپیں۔ سب نے بہت دکھ کا اظہار کیا، حکومت کیوں نہیں ہاشم خان کے نام پر ملک میں دس اسکالرشپس دینے کا اعلان کرتی، ان لڑکوں کو جو کل کے ہاشم خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان بن سکتے ہیں، ان لڑکوں کو سپورٹ کریں جو پاکستان کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں، کیوں نہ ہاشم خان کے چلے جانے کے دکھ سے زیادہ ان کے جذبوں کو ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے ایک نئی شروعات کا آغاز کریں اسکواش کو پھر زندہ کرکے۔