حماس اور اسرائیل…
اس وقت حماس کے لیڈر خالد مشعل ہیں جوکہ شام میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔
حماس عربی لفظ ''حرکۃ المقاومہ الاسلامیہ'' کا مخفف ہے جس کا مطلب مزاحمتی اسلامی تحریک ہے۔ یہ تنظیم اسلامی انتہا پسند تنظیم اخوان المسلمون (جوکہ 1920 میں قائم ہوئی) کی فلاسفی سے متاثر ہوکر قائم کی گئی اور 1978 میں شیخ احمد یاسین کے زیرنگرانی وجود میں آئی۔ شروع میں اس تنظیم کو اخوان المسلمون کی طرح سماجی بہبود اور فلاح کے کاموں میں مصروف رکھا۔ جو زیادہ تر فلسطین پناہ گزین اور وہاں رہنے والے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں محو تھی۔
اس تنظیم نے مسجدوں میں اپنا اثر قائم رکھا اور ایران اور شام سے اپنے مضبوط تعلقات استوار ہے۔ اگست 1988 میں اس تنظیم نے اپنا چارٹر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ اسرائیل کے وجود کی ہر طرح سے مخالف ہے اور تمام مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ جو بھی مسلمان یہودیوں کے خلاف جدوجہد کو چھوڑے گا وہ غداری کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ یہ تنظیم ایک آزاد فلسطینی ممالک کے قیام کی جدوجہد پر عمل پیرا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف جہاد ہے اور نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں پر اسرائیل کے خلاف جہاد فرض ہے۔
1982 میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کی پاداش میں اس کے روحانی لیڈر شیخ احمد یاسین کو اسرائیل نے قید کردیا۔ پھر 1985 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت ان کو رہا کردیا گیا۔ اس کے ملٹری ونگ کا نام القسام (Al-Qisam) بریگیڈ ہے، جو وقتاً فوقتاً اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مصروف رہتا ہے جن میں راکٹ حملے، خودکش حملے اور اسرائیلی پوسٹوں پر فائرنگ وغیرہ شامل ہے، جس کے جواب میں اسرائیل سویلین آبادی پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔
22 مارچ 2009 کو حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو شہید کردیا گیا اس کے فوری بعد 17 اپریل 2009 کو ان کے جانشین عبدالعزیز بھی ایک قاتلانہ حملے میں اپنی جان سے گئے۔ اپنی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے حماس ہمیشہ سے غزہ کے علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کی پسندیدہ تنظیم رہی ہے۔ دنیا میں خودکش حملوں کا ٹرینڈ سب سے پہلے حماس نے شروع کیا جس کو بعدازاں دنیا بھر کے مسلح انتہا پسندوں نے اپنا ہتھیار بنایا۔ یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) نے جب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ سائن کیا تو حماس نے اس کی شدید مخالفت کی۔
1997 میں امریکا نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کی فنڈنگ پر ہر طرح سے قدغن لگا دی۔ جس کے بعد حماس کو اپنے لیے فنڈز جمع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کی معزولی کے بعد عبدالفتح السیسی جو کہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر ہے، نے اقتدار کی کمان سنبھالی ہے۔ جس کے بعد سے مصر جو ہمیشہ کسی نہ کسی طرح فلسطینی عوام کی مدد کرتا رہا ہے، اپنی پالیسی میں یو ٹرن لیا اور حماس کو اخوان المسلمون کی ذیلی تنظیم قرار دے کر اس پر الزامات کی بارش کردی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں بھی بند کردیں۔
یاسر عرفات کی پی ایل او کی ذیلی تنظیم ''الفتح''کو حماس نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر مذاکرات کے طویل ادوار کے بعد کچھ خاص حاصل نہ کرنے کا الزام لگایا۔ واضح رہے کہ الفتح کے رہنما اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس ہیں۔ جنھیں اسرائیل کے سامنے ایک کمزور شخصیت مانا جاتا ہے۔
2006 کے منعقدہ انتخابات میں حماس کو غزہ کے علاقے میں فتح نصیب ہوئی لیکن 2007 میں ان کی حکومت کو محمود عباس نے برطرف کردیا جس کی وجہ سے دونوں تنظیموں کے درمیان پہلے سے جاری اختلافات میں نمایاں شدت آگئی جس کے بعد حماس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الفتح کے حامیوں کو غزہ سے باہر نکال دیا۔ ان جھڑپوں میں کافی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اور حماس نے غزہ میں اپنی حکومت قائم کی جس کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ ہیں۔
اس وقت حماس کے لیڈر خالد مشعل ہیں جوکہ شام میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 25 جون 2006 کو اسرائیلی فوجی کے اغوا اور اس کے بعد اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے کے بعد خالد مشعل ایک نمایاں شخصیت بن کر عالمی افق پر نمودار ہوئے۔ 1956 میں مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں امام مسجد کے گھر پیدا ہونے والے خالد مشعل 1967 میں کویت منتقل ہوئے اور پھر 1970 کے بعد اخوان المسلمون کو جوائن کیا۔
شام کے شہر دمشق میں 2001 سے جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے خالد مشعل دنیا بھر میں حماس کے بہترین سفیر ہیں اور دنیا بھر سے امریکی پابندیوں کے بعد چندہ اکٹھا کرنے میں سرگرم رہے ہیں۔ جلاوطنی میں ہونے کے باوجود مشعل بہت موثر طریقے سے حماس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مشعل نے اپنی زندگی کے دو سال قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھی گزارے لیکن اب اپنی فیملی کو چھوڑ کر دمشق میں قیام پذیر ہیں۔
2006 میں اپنی کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں مشعل نے 100 ملین ڈالرز کا چندہ ایران اور قطر سے اکٹھا کیا۔ اپنے قتل کے ڈر سے مشعل نے بہت کم پبلک مقامات کا رخ کیا مگر تب بھی وہ بہت موثر طریقے سے اس تنظیم کو کنٹرول کرتے رہے۔ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے جنگ ضروری ہے جسے وہ جہاد کا نام دیتے ہیں اور مکمل جنگ بندی صرف اس وقت ممکن ہے جب اسرائیل 1967 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلا جائے کیونکہ اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر ان کی زمین پر قبضہ کیا ہے جس کا عالمی برادری کو حل بہرحال نکالنا ہے۔
اسرائیل نے کئی بار شامی حکومت سے خالد مشعل کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے شامی صدر نے ہمیشہ رد کردیا ہے۔ ایرانی حکومت سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد حماس نے اب ایران سے امداد لینا بند کردی ہے۔ جب کہ اسرائیل اپنی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے خالد مشعل کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کرتا آیا ہے۔
1997 میں جب خالد مشعل اردن میں مقیم تھے تو ان کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں دو اسرائیلی ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا۔ جس پر اردن کے شاہ حسین نے شدید احتجاج کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب اسرائیل اردن میں خالد مشعل کو ٹارگٹ نہ بنا سکا تو شام میں تو ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ کیونکہ امریکا حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اس لیے وہ ترک اور قطر کے ذریعے امن مذاکرات اور سیز فائر کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ تنازعے جون 2004 میں 3 یہودی لڑکوں کے اغوا اور قتل کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے حسب سابق حماس کی کارروائی قرار دیا ہے جب کہ تحقیقات کے بعد اسرائیل پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کسی آزاد گروہ کی کارروائی کا نتیجہ ہے جس کا علم نہ تو وزیراعظم اسماعیل ہانیہ کو ہے اور نہ خالد مشعل کو۔ لیکن پھر بھی اسرائیل حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے فلسطینیوں کے خون سے مستقل ہاتھ رنگ رہی ہے کیونکہ اس کے ذہن پر حماس کا خوف سوار ہے۔
ایک طے شدہ پالیسی کے ساتھ اسرائیلی فوج مظلوم اور نہتے فلسطینی شہریوں کا قتل عام کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اس کے بقول حماس کی مقبولیت میں کمی اور اس طرح اس کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی تاکہ اسرائیل کو درپیش مستقل خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکے۔ اسرائیل کو اپنے ان مذموم عزائم میں کس قدر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
اس تنظیم نے مسجدوں میں اپنا اثر قائم رکھا اور ایران اور شام سے اپنے مضبوط تعلقات استوار ہے۔ اگست 1988 میں اس تنظیم نے اپنا چارٹر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ اسرائیل کے وجود کی ہر طرح سے مخالف ہے اور تمام مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ جو بھی مسلمان یہودیوں کے خلاف جدوجہد کو چھوڑے گا وہ غداری کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ یہ تنظیم ایک آزاد فلسطینی ممالک کے قیام کی جدوجہد پر عمل پیرا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف جہاد ہے اور نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں پر اسرائیل کے خلاف جہاد فرض ہے۔
1982 میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کی پاداش میں اس کے روحانی لیڈر شیخ احمد یاسین کو اسرائیل نے قید کردیا۔ پھر 1985 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت ان کو رہا کردیا گیا۔ اس کے ملٹری ونگ کا نام القسام (Al-Qisam) بریگیڈ ہے، جو وقتاً فوقتاً اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مصروف رہتا ہے جن میں راکٹ حملے، خودکش حملے اور اسرائیلی پوسٹوں پر فائرنگ وغیرہ شامل ہے، جس کے جواب میں اسرائیل سویلین آبادی پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔
22 مارچ 2009 کو حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو شہید کردیا گیا اس کے فوری بعد 17 اپریل 2009 کو ان کے جانشین عبدالعزیز بھی ایک قاتلانہ حملے میں اپنی جان سے گئے۔ اپنی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے حماس ہمیشہ سے غزہ کے علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کی پسندیدہ تنظیم رہی ہے۔ دنیا میں خودکش حملوں کا ٹرینڈ سب سے پہلے حماس نے شروع کیا جس کو بعدازاں دنیا بھر کے مسلح انتہا پسندوں نے اپنا ہتھیار بنایا۔ یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) نے جب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ سائن کیا تو حماس نے اس کی شدید مخالفت کی۔
1997 میں امریکا نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کی فنڈنگ پر ہر طرح سے قدغن لگا دی۔ جس کے بعد حماس کو اپنے لیے فنڈز جمع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کی معزولی کے بعد عبدالفتح السیسی جو کہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر ہے، نے اقتدار کی کمان سنبھالی ہے۔ جس کے بعد سے مصر جو ہمیشہ کسی نہ کسی طرح فلسطینی عوام کی مدد کرتا رہا ہے، اپنی پالیسی میں یو ٹرن لیا اور حماس کو اخوان المسلمون کی ذیلی تنظیم قرار دے کر اس پر الزامات کی بارش کردی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں بھی بند کردیں۔
یاسر عرفات کی پی ایل او کی ذیلی تنظیم ''الفتح''کو حماس نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر مذاکرات کے طویل ادوار کے بعد کچھ خاص حاصل نہ کرنے کا الزام لگایا۔ واضح رہے کہ الفتح کے رہنما اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس ہیں۔ جنھیں اسرائیل کے سامنے ایک کمزور شخصیت مانا جاتا ہے۔
2006 کے منعقدہ انتخابات میں حماس کو غزہ کے علاقے میں فتح نصیب ہوئی لیکن 2007 میں ان کی حکومت کو محمود عباس نے برطرف کردیا جس کی وجہ سے دونوں تنظیموں کے درمیان پہلے سے جاری اختلافات میں نمایاں شدت آگئی جس کے بعد حماس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الفتح کے حامیوں کو غزہ سے باہر نکال دیا۔ ان جھڑپوں میں کافی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اور حماس نے غزہ میں اپنی حکومت قائم کی جس کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ ہیں۔
اس وقت حماس کے لیڈر خالد مشعل ہیں جوکہ شام میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 25 جون 2006 کو اسرائیلی فوجی کے اغوا اور اس کے بعد اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے کے بعد خالد مشعل ایک نمایاں شخصیت بن کر عالمی افق پر نمودار ہوئے۔ 1956 میں مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں امام مسجد کے گھر پیدا ہونے والے خالد مشعل 1967 میں کویت منتقل ہوئے اور پھر 1970 کے بعد اخوان المسلمون کو جوائن کیا۔
شام کے شہر دمشق میں 2001 سے جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے خالد مشعل دنیا بھر میں حماس کے بہترین سفیر ہیں اور دنیا بھر سے امریکی پابندیوں کے بعد چندہ اکٹھا کرنے میں سرگرم رہے ہیں۔ جلاوطنی میں ہونے کے باوجود مشعل بہت موثر طریقے سے حماس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مشعل نے اپنی زندگی کے دو سال قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھی گزارے لیکن اب اپنی فیملی کو چھوڑ کر دمشق میں قیام پذیر ہیں۔
2006 میں اپنی کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں مشعل نے 100 ملین ڈالرز کا چندہ ایران اور قطر سے اکٹھا کیا۔ اپنے قتل کے ڈر سے مشعل نے بہت کم پبلک مقامات کا رخ کیا مگر تب بھی وہ بہت موثر طریقے سے اس تنظیم کو کنٹرول کرتے رہے۔ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے جنگ ضروری ہے جسے وہ جہاد کا نام دیتے ہیں اور مکمل جنگ بندی صرف اس وقت ممکن ہے جب اسرائیل 1967 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلا جائے کیونکہ اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر ان کی زمین پر قبضہ کیا ہے جس کا عالمی برادری کو حل بہرحال نکالنا ہے۔
اسرائیل نے کئی بار شامی حکومت سے خالد مشعل کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے شامی صدر نے ہمیشہ رد کردیا ہے۔ ایرانی حکومت سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد حماس نے اب ایران سے امداد لینا بند کردی ہے۔ جب کہ اسرائیل اپنی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے خالد مشعل کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کرتا آیا ہے۔
1997 میں جب خالد مشعل اردن میں مقیم تھے تو ان کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں دو اسرائیلی ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا۔ جس پر اردن کے شاہ حسین نے شدید احتجاج کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب اسرائیل اردن میں خالد مشعل کو ٹارگٹ نہ بنا سکا تو شام میں تو ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ کیونکہ امریکا حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے اس لیے وہ ترک اور قطر کے ذریعے امن مذاکرات اور سیز فائر کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ تنازعے جون 2004 میں 3 یہودی لڑکوں کے اغوا اور قتل کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے حسب سابق حماس کی کارروائی قرار دیا ہے جب کہ تحقیقات کے بعد اسرائیل پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کسی آزاد گروہ کی کارروائی کا نتیجہ ہے جس کا علم نہ تو وزیراعظم اسماعیل ہانیہ کو ہے اور نہ خالد مشعل کو۔ لیکن پھر بھی اسرائیل حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے فلسطینیوں کے خون سے مستقل ہاتھ رنگ رہی ہے کیونکہ اس کے ذہن پر حماس کا خوف سوار ہے۔
ایک طے شدہ پالیسی کے ساتھ اسرائیلی فوج مظلوم اور نہتے فلسطینی شہریوں کا قتل عام کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اس کے بقول حماس کی مقبولیت میں کمی اور اس طرح اس کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی تاکہ اسرائیل کو درپیش مستقل خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکے۔ اسرائیل کو اپنے ان مذموم عزائم میں کس قدر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔