آجکل سپر ماڈل ایان اپنے گانے کی ویڈیو '' یو اینڈ آئی'' کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں ۔ کوئی اس گانےکو میوزیک کا جنازہ کہہ رہا ہے ، کوئی چربہ قرار دے رہا ہے ، کسی کو آواز پر اعتراض ہے تو کسی کو ایان کے لباس پر۔ تاہم اس سے قبل متھیرا ، عائشہ عمر اور انہی کی طرح کی دیگر گلوکاراؤں نے جب اپنے گانے اور میوزک ویڈیوز ریلیز کیں تو وہ بھی اسی طرز کی تنقید کا شکار رہیں۔ لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
فن چند اشخاص کی پسند و نا پسند ، مخصوص نقط نظر ،غیر ضروری کڑی حدود برائے معیار اور مرد و عورت کی تخصیص سے بالا تر شعبہ ہے ۔ کوئی فنکار جب عوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے تو فطری طور پر پزیرائی کا خواہاں ہوتا ہے ۔اکثر فنکار اپنے مخصوص شعبہ سے باہر آکر دوسرے شعبہ شعبوں میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ مثلا اداکاری، ہدایتکاری ،لکھاری، میزبانی وغیرہ جن میں سے اکثر نئی راہوں کو دریافت کرتے ہوئے اپنا نام بلند کرتے ہیں ۔
اسی طرح گلوکاری کا شعبہ ان تمام لوگوں کی توجہ کھینچتا ہے جن کو اپنی آواز اچھی ہونے کا یقین ہوتا ہے ۔ اب تو کھلاڑی بھی اداکاری کے میدانوں کا رخ کررہے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ان تمام افراد کے تجربات کامیاب ہوں یا پھر ایوارڈ پانےکی سطح تک پزیرائی حاصل کریں ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ سب یکساں طور پر مطمئن ہو کر قبولیت کی سند بخشیں ۔
کوئی بھی شعبہ کسی جنس کےلئے مخصوص ہےنہ ہی قدغن۔ لیکن بدقسمتی سے شاید ہمارا معاشرہ اس حقیقت کو سمجھ نہیں پایا ہے ۔ ہم تنقید برائے تسکین کرتے ہیں ۔ مرد بھی اس تنقید کا شکار ہوتے ہیں لیکن اگر صنف نازک کوئی نیا کام کرے تو تنقید بحر بیکراں بننا شروع ہوجاتا ہے، خصوصا میڈیا سے وابستہ خواتین کا لباس ، میک اپ، اٹھنا بیٹھنا ، بول چال سب کچھ گرفت میں کرنے کیلئے نام نہاد نقاد ہمہ وقت تیار رہتےہیں ۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ خواتین گلیمر ورلڈ کا حصہ ہیں ۔ بدلتی دنیا کےساتھ گلیمر ورلڈ کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو فیلڈ میں زندہ رکھنے کےلئے نت نئے تجربات ان سیلیبریٹیز کو متحرک رکھتے ہیں ۔ فن و فنکار کی جدت ایک مضبوط پریزینٹیشن ہے تاکہ لوگوں کی نظر میں رہا جائے ورنہ تیز رفتار دور میں لوگ جلد بھول جاتے ہیں ۔
ہمارے یہاں تو فنون لطیفہ کے پنپنے کے مواقع ویسے بھی کم ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ خواتین سیلیبیریٹیز وہی کریں جو لوگ چاہیں ، کچھ ذاتی پسند و نا پسند بھی ہوتی ہے ،اپنے شوق کی تسکین بھی ہوتی ہے ۔ ہمیں اپنے اندر برادشت پیدا کرنی چاہیے ۔ یہ بھی مزے کی بات ہے کہ سب لوگ کسی چیز کو دیکھ کر رائے نہیں دیتے ، اکثر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رائے قائم کرنا شروع ہوجاتے ہیں جو غلط ہے ۔ پہلے دیکھئے ، پرکھئے پھر رائے دیجئے ۔ تنقید برائے تنقید نہ کیجئے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔