پاکستان ایک نظر میں دھاندلی کیسے ہوئی

بھانڈا پھوٹنے سے پہلے پہلے نواز حکومت مستعفی ٰ ہو جائے تو اسی میں ان کی بھلائی ہے !

بھانڈا پھوٹنے سے پہلے پہلے نواز حکومت مستعفی ٰ ہو جائے تو اسی میں ان کی بھلائی ہے !

پاکستان معجزات کی سر زمین ہے ۔یہاں انہونیاں کثرت سے وقو ع پذیر ہوتی ہیں، ناممکنات پل جھپکنے میں ممکن ہو جاتے ہیں اور محیر العقول عناصر پل پل تقدیریں بدلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑوں میں بھی کچھ ایسے پراسرار عناصر کا عمل دخل ہے جن سے پردہ اٹھا نا اب ناگزیر ہو گیا ہے ۔ ہوشربا انکشافات پر مشتمل یہ سطریں پڑھتے ہوئے یقیناًآپ کے رونگٹے کھڑے ہوں جائیں گے اور آپ بار بار یہ سوال کریں گے کہ کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ، کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ایسے ساحر موجود ہیں جو الٹے کو سیدھا اور سیدھے کو الٹا کر دیں ، کیا سائنسی ایجادات کی بھرمار کے باوجود انسان ابھی تک پراسرار طاقتوں کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا ہے؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات بے یقینی کے ناگ بن کر آپ کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بلاگ پڑھنے کے بعد آپ بھی میری طرح نہ صرف پر اسرار طاقتوں کے قائل ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے میری ہی طرح آپ بھی ان کے حصول کے لیے سر پٹ دوڑ لگا دیں۔

اس قصے کی ابتدا میری ایک زرد پوش بزرگ سے ملاقات سے ہوئی جن کے چہرے سے جلا ل ٹپک ٹپک ان کی ریش مبارک کو تر کر رہا تھا۔ ان کی سرخی مائل ہلالی آنکھوں میں ایسا رعب تھا کہ مارے ہیبت کے میری گھگی بندھ گئی ۔ میں نے گھگی پر بہ مشکل قابو پاکر ڈرتے ڈرتے سوال کیا : یا حضرت پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا حل کیا ہے ؟ حضرت نے اس کے جواب میں جو حل بتایا وہ عمران خان کے بیان کیے گئے حل سے ملتا جلتا تھا ۔ میں نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا لیکن سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ مجھے سراپا حیرت پا کر وہ خندہ لب ہوئے اور فرمایا کہ ان کا پی ٹی آئی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں کیوں کہ وہ مادی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہاں پی ٹی آئی کے بھنگڑے اور صوفیانہ رقص ان کے روحانی تاروں کو ضرور چھیڑتے ہیں۔ میں نے ہمت مجتمع کی اور پھر سوال کیا : یا شیخ دھاندلی کے الزامات میں کتنی صداقت ہے ؟ اس پر کچھ دیر وہ خلا میں نہایت معجوبانہ انداز سے گھورتے رہے پھر گویا ہوئے اور جلالی انداز میں محض اتنا کہا ''دھاندلی ہوئی ہے ضرور ہوئی ہے ''۔ میرے استفسار پر کہ دھاندلی کیسے ہوئی ان کے اور میرے درمیان سوال وجواب کا ایک مکالمہ شروع ہواجس کا خلاصہ میں یہاں من و عن درج کر رہا ہوں۔

بابا جی سائیں گیسو دراززرد لباس نے ہوشربا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابات سے پہلے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو عمران خا ن کی مقبولیت کا اندازہ ہو چکا تھا ۔ انہیں یقین تھا کہ عمران خان انتخابات میں جھاڑو پھیر دے گا اور ان دونوں کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے ریٹائر کر دے گا اس لیے انہوں نے لالو کھیت میں ایک مزار کے احاطے میں بھیس بدل کرخفیہ ملاقات کی اور دھاندلی کا منصوبہ بنایا۔ بہت سارے طریقوں پر غور وحوض کرنے کے بعد بھی جب ان کے خالی دماغ خالی رہے اور دھاندلی کا کوئی طریقہ کارگر نہ لگا تو انہوں نے بیرونی مدد تلاش کرنی شروع کر دی۔انتخابات میں دھاندلی کروانا انہیں اس لیے مشکل لگ رہا تھا کہ فخرو بھائی کو ایمانداری کی سخت بیماری تھی جس کے متعدی اثرات الیکشن کمیشن کے باقی ممبران پر بھی نمایاں طور پر نظر آرہے تھے ۔ الیکشن عملے کے طور پر ڈیوٹی دینے والے ہزاروں ماسٹر اور ماسٹرنیاں بھی ان سے کچھ ایسے خوش نہ تھے کہ ان کے دھاندلی والے منصوبے میں شریک ہوتے، بیو رو کریسی پر انحصار کرنا بھی اپنے پاؤں پر کلہا ڑی مارنے کے مترادف لگ رہا تھا اس لیے ایک آؤ ٹ آف دا باکس حل نکالا گیا۔

یہ حل بہت غیر روایتی اوربظاہربڑا عجیب و غریب تھا لیکن اس کے سوا زرداری و شریف کی جوڑی کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ کوہ ہمالیہ کی چوٹی میں چلہ کاٹنے والے ایک جوگی کو تلاش کیا گیا۔ اس ساحر نے جوجو گی کا بہروپ دھارے ہوئے تھا فیس بک پر کاہنوں اور جادو گروں کا ایک خفیہ گروپ بنا رکھا تھا جن کے ساتھ وہ رابطے میں رہتا تھا۔ زرداری و شریف کی جوڑی نے مختلف ذرائع سے اس سے رابطہ کیا اور اپنی مشکل اس کے سامنے رکھی۔ اس ساحر کو جس کا نام بابا جی نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر خفیہ رکھادھاندلی کے منصوبے کا انچارج بنا دیا گیا۔ اس نے دنیا بھر سے منجھے ہوئے عاملوں اور جادو گروں کو اکٹھا کیا اور اس بھیانک دھاندلی کا آغاز ہوا جس کو سوچ کر بھی جھر جھری آ جاتی ہے ۔ فخرو بھائی اور الیکشن کمیشن کے ممبران کو ہپناٹائز کرنے کے بعد ریٹرننگ افسروں کے ذریعے دماغ کو غیر حاضر بنا دینے والا یہ جادو ان ٹیچروں میں منتقل کیا گیا جو الیکشن ڈیوٹی پر تھے ۔ سیکرٹری داخلہ سے لے کر تمام صوبوں کے متعلقہ پولیس افسران تک پر مختلف عاملوں نے ایسا سحر طاری کر دیا کہ وہ دھاندلی کے عمل میں جی جان سے شریک ہوگئے ۔


تو قارئین اسطرح دھاندلی کو جادو کے زور پر الیکشن کے عمل میں شامل تمام افراد پر طاری کر دیا گیا اور ان سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے ۔ ٹیچروں کی تعداد چونکہ ہزاروں میں تھی اس لیے یہ ڈر تھا کہ شاید کسی پر سحر طاری نہ ہوا ہو ۔ احتیاطی تدبیر کے طور پر الیکشن میں مہروں کے لیے استعمال ہونے والی سیاہی کی ہر بوتل میں ایک ایک موکل بٹھا دیا گیا تاکہ اگر الیکشن عملہ مطلوبہ نتائج کے حصول میں کمزور جادو کی وجہ سے اگر کچھ غفلت بھی کرے تو یہ موکل مہروں پر بیٹھ جائیں اورووٹروں سے مرضی کے نشان پر ثبت کروائیں۔الیکشن عملے کے طور پر کام کرتے ایک ٹیچر نے مجھے خود یہ بتایا کہ ہر بوتل کو جب کھولا جاتا تھا تو اس میں سے ایک پر اسرار سی بو آتی تھی ۔ یہ بو یقیناًموکلین کی ہی ہوسکتی ہے۔

بابا جی کے انکشافات سن کر میں تو دم بہ خو د ہوں اور سمجھ نہیں آرہی کہ نواز و زرداری کے ٹولے کو اس دھاندلی پر کیسے گالیاں دوں ۔ جی چاہ رہا ہے کہ جعلی مینڈیٹ کی اس دھاندلی شدہ حکومت کے خلاف گریبان چاک کر کے دھمال ڈالنا شروع کر دوں اوردھمال ڈالتے ڈالتے عالمِ بے خودی میں کوہِ ہمالہ کی چوٹی پر دھونی رمائے اس ملعون جوگی کے سامنے جا پہنچوں جو اس سارے فساد کا ذمہ دار ہے اور اسے گھسیٹتا ہوا نئے پاکستان کے دھرنے میں لے آؤں۔اگر نواز شریف سیدھی طرح استعفیٰ نہیں دیتے تو آخری چارہ کار کے طور پر مجھے یہ کرنا ہی پڑے گا۔ بھانڈا پھوٹنے سے پہلے پہلے نواز حکومت مستعفی ٰ ہو جائے تو اسی میں ان کی بھلائی ہے !

آخر میں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ بابا جی سے میری یہ ملاقات عالمِ رویا میں ہوئی تھی اس لیے جملہ دروغ بر گردنِ بابا جی !

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story