لاکھوں میں ایک پاکستانی نژاد امریکی گلوکار

افسوس کی بات یہ ہے، پاکستانی ذرایع ابلاغ مغربی موسیقی کی دنیا میں چمکنے والے اس مشرقی ستارے سے ناواقف ہیں

khurram.sohail99@gmail.com

کیا ہم یہ تصورکر سکتے ہیں، کراچی سے تعلق رکھنے والے متوسط طبقے کا ایک لڑکادنیا کے مقبول ترین میوزک چارٹ کا اولین گلوکار بن جائے ۔دنیا کی تمام بڑی میوزک کمپنیاں اس کے پیچھے پیچھے ہوں ۔ بھارتی فلمساز قطار بنا کر اس کے سامنے کھڑے ہوں ۔انگریز اوردیسی گلوکار اس کے ساتھ گانے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوں ۔ یہ سب سوچ کر ناقابل یقین لگتا ہے، مگر حقیقی طور پر ایسا ہوا ہے ۔ پاکستانی نژاد امریکی گلوکار''روجر ڈیوڈ۔Roger David''جس کی شہرت میوزک کی دنیا میں ''بوہیمیا''اور''راجا''کے نام سے ہے ۔ وہ اس حقیقت کی عملی صورت ہے ۔

افسوس کی بات یہ ہے، پاکستانی ذرایع ابلاغ مغربی موسیقی کی دنیا میں چمکنے والے اس مشرقی ستارے سے ناواقف ہیں ۔ہمارے ہاںعام طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ یہ بھارتی نژاد گلوکار ہے ، مگر دیر آئے درست آئے کی مانند پاکستان کے کوک اسٹوڈیو میں رواں برس مغربی موسیقی کے راجا کو مدعوکر لیا گیا ، جس سے کافی حد تک یہ غلط فہمی دور ہوئی اور پاکستان میں رہنے والے میوزک کے رسیا اس شاندار گلوکار سے روشناس ہوئے ۔

پاکستان میں جس طرح کلاسیکی ،نیم کلاسیکی،لوک اور پوپ میوزک ہے، اسی طرح مغربی موسیقی میں بھی کئی طرح کی اقسام ہیں،جن سے وابستہ گلوکاروں کی ایک بڑی تعداد کی دنیا بھر میں شہرت ہے ۔ موسیقی کے جس شعبے میں راجا نے ترقی کی منزلیں طے کیں،اس کو''رپ میوزک''RAP MUSIC کہاجاتا ہے۔میوزک کی یہ قسم تقریباً ایک صدی پہلے امریکا میںمتعارف ہوئی ۔ مغربی افریقا کے موسیقاروں نے اس کو وہاں پہلی مرتبہ پیش کیا۔

میوزک کے اس انداز میں ایک خاص ردھم اورموسیقیت کے ساتھ شاعری کو گایا جاتا ہے، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کہانی کو موسیقی کے ساتھ ملا کر سنانے کا نام''رپ میوزک'' ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں صرف، ہارمونیم ، بانسری یا چمٹے پر کوئی ہیر وارث شاہ پڑھے، یاکوئی گیت گائے ۔70کی دہائی سے ''رپ میوزک''کی مقبولیت امریکا سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلی۔کئی ممالک کے گلوکاروں نے اپنے مقامی انداز میں اس میوزک کے انداز کو اپنایا اورمقبولیت حاصل کی۔ پاکستان،بھارت اوربنگلہ دیش میں بھی ریمکس اورفیوژن میوزک کی طرح ''رپ میوزک''کو نوجوان نسل بے حد پسند کرتی ہے ۔

روجر ڈیوڈ عرف راجا کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی کے ایک عیسائی خاندان سے ہے۔کم عمری میں ہی یہ اپنے والدین کے ساتھ امریکا کی ریاست کیلی فورنیا منتقل ہوگیا تھا ۔اس کے والد کو دیسی موسیقی سے لگاؤ تھا، یہی چاہت راجا میں بھی منتقل ہوئی ۔امریکا میں رہتے ہوئے اس نے میوزک کو اپناکیرئیر بنانے کا ارادہ کیا۔سب سے پہلے اس نے اپنے علاقے کے مقامی اورچھوٹے میوزک بینڈز کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔

مقامی اسٹوڈیوز میں کی بورڈ بجانے سے آغاز کیا اورمختلف گلوکاروں کے ساتھ مل کر موسیقی ترتیب دی، پھر دھیرے دھیرے کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں ،یہ دیکھتے ہی دیکھتے امریکا اور یورپی ممالک کا ایک مقبول گلوکار بن گیا۔

راجا کو بچپن ہی سے شاعری کا بھی شوق تھا۔گلوکاری اورشاعری دونوں کو ملا کر اس نے انگریزی میوزک میں ایک نیا رجحان دیا ۔اس کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں یہ انداز مقبول ہوا ۔یورپ میں یوکے بھنگڑا، بھارت میں دیسی بینڈز، پاکستان میں فخرعالم ، تنویرآفریدی اورحال ہی میں ریلیز ہونے والا علی گل پیر کا مقبول گانا ''وڈیرے کا بیٹا'' موسیقی میں راجا کے متعارف کروائے گئے رجحان کی عکاسی ہے ۔

راجا کی زندگی کی ابتدا پریشان کن حالات میں ہوئی ۔ والدین کا تعلق متوسط طبقے سے تھا ۔ انھوںنے اچھے مستقبل کے لیے پاکستان سے امریکا ہجرت کی ۔کم عمری میں ہی راجا کے دوست چھوٹ گئے اوریہ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور آکر بس گیا ، ایک ایسی جگہ جہاں یہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔


یہی وہ درد کا دور ہے ، جب راجا کی والدہ کینسر جیسی موذی بیماری کا شکار ہوئی۔ ان تمام پریشان کن حالات کے باوجود اس نے اپنے جنون کی شدت کو کم نہ ہونے دیا اور اپنی تنہائی کو سخت محنت سے کاٹا، جس کا صلہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام بڑے میوزک چارٹس پر اس کے گانے سرفہرست ہوتے ہیں۔یہ دنیا کے جس ملک کا سفر کرتا ہے، وہاں شائقین اس کی آمد کے انتظار میں انگلیوں پر دن گنتے ہیں ۔

راجا دنیائے موسیقی میں ایک گلیمرس اسٹارگلوکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے اوڑھنے پہننے کے انداز کو نئی نسل اپناتی ہے اور اس کے گیتوں پر جھوم جھوم جاتی ہے۔اگر آپ راجا کو چہرے سے نہ پہچانتے ہوں اور وہ آپ کے سامنے آجائے ، تو آپ کبھی شناخت نہیںکرسکتے کہ یہ کوئی پاکستانی ہے ۔ ہمارے ہاں اکثر پوپ میوزک والوں کی اکثریت جینز پھاڑ کر اور بال لمبے کر کے اپنے آپ کو بہت بڑا اسٹار سمجھتی ہے، مگر بقول علی عظمت''ہم کچھ بھی کرلیں، مگر ہم تیسری دنیا کے ہی اسٹار رہیںگے ۔'' مگر راجا نے تیسری دنیا سے ناطہ ہونے کے باوجود پہلی دنیا ،جو انتہائی ترقی یافتہ ہے، اس پر راج کیا ۔

مغربی میوزک کی دنیا میں اس قدر سخت مقابلہ ہے، جس کا ہمارے ہاں کا گلوکار تصور بھی نہیں کرسکتا،اس مقابلے کی فضا میں ایک دیسی ہونے کے باوجود راجا نے مقبولیت کی سیڑھیاں ایک ایک کرکے چڑھیں اور فاتح رہا ۔ یہی وہ حقیقی مقبولیت ہے، جس کی تمنا کوئی بھی گلوکار کرتا ہے۔

راجا شہرت کی ان بلندیوں پر پہنچ کر بھی اپنے وطن کی خوشبو کو فراموش نہیں کرسکا اورنہ ہی وہ اپنے مشیران کو بھول پایا۔جب بی بی سی کا میوزک چینل انٹرویو کرتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے کہ'' تم شاعری میں کس سے متاثر ہو؟'' تو وہ ہمارے ہاں کے نوجوان گلوکاروں کی طرح جھوٹ بول کر مغربی شاعروں کے نام نہیں گنواتا،بلکہ بڑے فخر سے غالب ، فیض اور اقبال کا نام لیتا ہے اوراس بات میں سرشاری محسوس کرتا ہے کہ وہ اس دھرتی سے آیا ہے ، جہاں ایسے تخلیق کاروں نے جنم لیا ۔

ایک گیت کے کئی ملین روپے وصول کرنے والا یہ گلوکار اندر سے کتنا خالی ہے کہ جب اس کی پہلی البم ریلیز ہوئی، تو یہ اس البم کا نام''وچ پردیساں دے'' رکھتا ہے۔ اب تک اس کی پانچ البم ریلیز ہوچکی ہیں، جن کے نام ، وچ پردیساں دے، پیسہ نشہ پیار، ہزار گلاں، دی رپ اسٹار اور روح شامل ہیں ، جب کہ درجن سے زیادہ اس کے انفرادی گیت بھی مقبول ہوچکے ہیں ۔راجا نے ملکہ ترنم نورجہاں کا بھی ایک گانا ریمکس کیا ہے اور جن مختلف گلوکاروں کے ساتھ ملکرگانے گائے ہیں ، ان میں میکا سنگھ ، جیسمین سینڈلاس، ڈی جے چنٹو، اسٹریونیشن، دیسی بیم، جینفر اور دیگر کئی انگریزی اوردیسی گلوکار شامل ہیں ۔

2014ٗء میں پاکستان کے مقبول ترین میوزک کے پروگرام کوک اسٹوڈیو کے پانچویں سیشن میں اس نے اپنا مشہور گیت''پیسے دا نشہ ''گایا اور دوسرا گیت پاکستانی لوک گلوکاروں ''چکوال گروپ'' کے ساتھ گایا ۔ یہ دونوں گیت اس سیشن کے سب سے مقبول ترین گیت ثابت ہوئے ۔ راجا کا شمار ایشیا کے ان 100گلوکاروں میں بھی ہوتا ہے،جن کے گیت سب سے زیادہ ڈان لوڈ کیے گئے۔ وہ اب تک میوزک کے کئی بڑے عالمی سطح کے ایوارڈز بھی حاصل کرچکا ہے ۔اس کے ہم عصروں اورجونیئرگلوکاروں میں جیزی بی ، ہنی سنگھ ، عمران خان جیسے گلوکار ہیں ، مگر جو مقبولیت بوہیمیا عرف راجا کو حاصل ہوئی ہے ، اس کو پانا دیوانے کا خواب لگتا ہے ۔

پاکستان اور بھارت میں نئی نسل کے گلوکار جنھیں مغربی موسیقی کی کشش اپنی طرف کھینچتی ہے ،ان کے سامنے راجا ایک عملی مثال ہے،جس نے اپنی مادری زبان اوردھرتی سے ناطہ رکھتے ہوئے مغربی میوزک چارٹس پر اپنا قبضہ جمایا۔آج دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں اس کے ساتھ البم پر کام کرناچاہتی ہیں ، مگر راجا اپنی مرضی سے کام کرتا ہے ۔ دل کا نرم مگر مزاج کا گرم یہ گلوکار راجا بالکل صاف اورکھری بات کرتا ہے ، اس کی اپنی ویب سائٹ ہو یا میوزک چارٹس کی ، وہاں اس کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

راجا کے گیتوں کو غور سے سنیں تو اس میں سے لڑکپن میں وطن سے دوری کی اداسی ،کراچی کی گلیوں کی یادوں اوربچھڑے لوگوں کے رنگ جھلکتے ہیں ۔ مغرب کا مقبول ترین گلوکاراپنے اندر سے ہجر کے درد کو نکال نہیں پایا ، اسی لیے ہر گیت میں جدید موسیقی کی تال پر یہ درد بھی رقص کناں ہوتا ہے،اگر محسوس کرے کوئی تو...
Load Next Story