خاموش رہو ورنہ شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا

انڈونیشی حکام کی ہدایت پر سنگاپور کے باشندے سراپا احتجاج


غ۔ع August 26, 2014
انڈونیشی حکام کی ہدایت پر سنگاپور کے باشندے سراپا احتجاج ۔ فوٹو : فائل

باتم، انڈونیشیا کا شہر ہے۔ یہ شہر دراصل ایک جزیرہ ہے۔

صنعتی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ باتم میں سیروتفریح کے دل دادگان کے لیے دل چسپی کی بہت سی چیزیں اور مقامات ہیں۔ اس کے خوب صورت قدرتی نظارے سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ باتم کا سنگاپور سے فاصلہ محض بیس کلومیٹر ہے۔ روزانہ سنگاپوری شہریوں کی بڑی تعداد سیروتفریح کی غرض سے اس شہر کا رُخ کرتی ہے تاہم اس کے لیے انھیں امیگریشن کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

باتم جانے کے خواہش مندوں کو امیگریشن آفس سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ امیگریشن آفس کے باہر روزانہ سنگاپوریوں کی طویل قطار دیکھنے میں آتی ہے۔ سنگاپور کے باشندے باتونی ہونے کے لیے شہرت نہیں رکھتے، تاہم یوں معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشی امیگریشن حکام کو ان کی معمولی بات چیت بھی پسند نہیں۔ اسی لیے باتم کی سیر کرنے کے خواہش مندوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ امیگریشن آفس کے باہر قطار میں بالکل خاموش کھڑے ہوں، بہ صورت دیگر انھیں دفتری حدود سے نکال باہر کیا جائے گا اور باتم میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

لگتا ہے کہ سنگاپوریوں نے ابھی تک اس ہدایت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اس لیے روانہ درجنوں شہری امیگریشن آفس سے غصے اور مایوسی کے عالم میں واپس لوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔



باتم سینٹر میں قائم امیگریشن آفس کے ہال میں ایک علامتی تصویر لگا کر شہر میں داخلے کے خواہش مندوں کو خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امیگریشن کے اہل کاروں کی نظر جیسے ہی کسی بات چیت میں مصروف شخص پر پڑتی ہے تو وہ اسے پکڑ کر قطار سے نکال دیتے ہیں اور باہر چلے جانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر ہفتے اوسطاً پچاس افراد کو محض گفتگو کرنے کی ' پاداش ' میں باتم میں گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

انڈونیشی امیگریشن حکام کے اس طرزعمل نے سنگاپوریوں کوبرافروختہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قطار میں کھڑے ہوکر بات چیت کرنا کیا کوئی جرم ہے جس کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے انھیں باتم میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایسے ہی ایک سنگاپوری نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' میں چھٹیاں گزارنے کے لیے وہاں جانا چاہتا تھا۔ میں اور میرا دوست قطار میں کھڑے تھے۔ میں اپنے دوست سے ہلکی پھلکی بات چیت کر رہا تھا جب انھوں نے ہمیں نکال باہر کیا۔ انڈونیشیا کے حکام ہمیں یہ بتائیں کہ کس قانون کے تحت قطار میں کھڑے ہوکر بات چیت کرنا جُرم ہے؟''

غصے میں بھری ایک خاتون نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا،'' یہ لوگ ( امیگریشن اہل کار ) ہمیں اس طرح ڈانٹتے ہیں جیسے ہم ان کے غلام ہوں اور ہم سے کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ امیگریشن آفس کو لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔'' مذکورہ خاتون اپنے اہل خانہ کے ساتھ باتم جانا چاہتی تھیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امیگریشن اہل کاروں نے انھیں روک لیا اور ان کے اہل خانہ کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔

اس صورت حال کے بارے میں امیگریشن حکام کا موقف ہے کہ ہال میں خاموشی اس لیے ضروری ہے تاکہ سیاح، افسران کی جانب سے دی جانے والی ہدایات بہ آسانی سن سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں