سیاست ایک عجیب کھیل
انسان کی محبت کے کئی درجے، کئی خلاصے، کئی رتبے ہوتے ہیں۔ آپ انھیں مختلف سمتوں اور جہتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
انسان کی محبت کے کئی درجے، کئی خلاصے، کئی رتبے ہوتے ہیں۔ آپ انھیں مختلف سمتوں اور جہتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کی نفرت کے بھی کئی اسباب و عوامل ہوتے ہیں اور ان پر یہ تمام تر انحصار کرتی ہے۔ محبت معاف کردینے کی منزل سے ہم کنار رہتی ہے اور نفرت انتقام پر آمادہ رہتی ہے۔
اگر آپ ایک طوطا پال لیں اور اس محبت کا سلوک کریں تو وہ کاٹنے والی چونچ رکھنے کے باوجود آپ کو نہیں کاٹتا۔ وہ آپ کے منہ سے سیب کا ٹکڑا نکال کر اسے اسی چونچ سے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے جو کچھ دیر پہلے آپ کے لبوں کے قریب تھی اور جس سے وہ با آسانی آپ کے لب تراش سکتا تھا، مگر جذبہ محبت اس قدر شدید ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔
یہ بات آپ سانپ کے بارے میں یقین سے نہیں کرسکتے، دنیا بھر کے سانپ پالنے والے اور ہمارے ملک کے سانپوں کے کنگ تاجپورکے سانپ ماہر سانپ کے کاٹے سے ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے کیوں کہ سانپ بالآخر سانپ ہی ہے۔
سانپ کا زہر کتنا بھی نکال دیا جائے وہ دوبارہ زہر حاصل کرلیتا ہے اور آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب اس نے زہر حاصل کرلیا اور یوں آپ دھوکے کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ دھوکا آپ کو موت کی منزل تک لے جاتا ہے۔
کیوں وہ لوگ اس ملک میں پیدا ہوئے، وہ مدرسے جہاں سے پانچ وقت اذان اور نماز کی آوازیں گونجتی تھیں اور گونجتی ہیں ان لوگوں کے ٹھکانے بن گئے اور کیوں جہاں سے امن و آشتی کا پیغام جانا چاہیے تھا وہاں سے نفرت اور دہشت کا پیغام پاکستان کو ملا۔
کیا قصور تھا پاکستان کا؟ یہی کہ اس نے دنیا بھر کے اسلامی ریاستوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے خلاف ان ملکوں کے جد وجہد کرنے والوں کو مہمان رکھا۔ ان کو بہترین سہولتیں دیں، بھائیوں سے بڑھ کر چاہا اور سب کچھ ان کے سامنے رکھ کر ''میثاق مدینہ'' کو دہرایا۔
اچھا نہیں کیا انھوں نے میزبانوں کے ساتھ، غلط لوگوں کا ساتھ دیا، کیا ظلم کا مقابلہ کبھی ظلم سے کیا جاسکتا ہے تو پھر ایٹم بم گرانے والوں، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والوں، انسانی آبادیوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کو انسانوں کا راہنما اور نجات دہندہ کا رتبہ دینا چاہیے۔ اسرائیل کو قیام امن کا سب سے بڑا علمبردار قرار دینا چاہیے؟
مگر ایسا نہیں ہے ساری دنیا نفرت کرنے والوں، نفرت کا پیغام دینے والوں کی مذمت کررہی ہے اور کرتی رہی ہے، انسانی تاریخ کی ساری مذمتیں ہمیشہ نفرت کرنے والوں کے نام لکھی گئی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور یہ جاری رہے گا، جب جب ظلم ہوگا مذمت ضرور ہوگی۔
ایک قسم جو قابل ذکر ہے وہ ایسی نفرت ہے جس کی شدت شاید نہ ہو مگر یہ جنم محبت سے لیتی ہے یہ آپ کا بھی تجربہ ہوگا۔ میں ہزاربار اس سے گزرا ہوں مگر میری سرشت ایسی ہے کہ میں اس سے گریز نہیں کرسکتا۔
آپ شاید حیران ہوں۔ میں بھی حیران ہوتا ہوں۔ میں محبت کرنے سے باز نہیں آتا جس محبت کا ذکر کر رہا ہوں وہ بھی عجیب ہے، کسی سے ملا نہیں اس کے بارے میں صرف سن لیا کسی ایسے شخص سے جسے میں جانتا ہوں کہ قابل اعتبار ہے تو اس شخص سے پیار سا ہوگیا، اب یہ چاہے شخص ہو یا ادارہ کیوں کہ میری نظر میں ہر ادارہ، ہر شخص اس وقت تک ہی اچھا نہیں ہے جب تک وہ مجھ سے اچھا ہے بلکہ میں اس کے First Impression کو فراموش نہیں کرپاتا۔ یوں اس سے ایک خاص انسیت برقرار رہتی ہے اور جہاں ایک بار پھر رابطہ ہوا تھا ، مل گئے، سلسلہ جاری ہے ۔
شاید میری یہ فطرت میری قوم کی عکاس ہے۔ میری قوم بھی معاف کردینے کے جذبے سے معمور ہے۔ مگر کہیں کہیں اس میں کچھ لوگ، کچھ رہنما ایسے بھی آجاتے ہیں جو معاف کرنے کے بجائے انتقام پر تیار رہتے ہیں، اسے محبت کہنا چاہیں تو کرلیں۔ میری نظر میں یہ قوم سے ''انتقام'' ہے۔
''اتفاق' عدم اتفاق'' پڑھتا رہتا ہوں کہ سیاست کا حسن ہے۔ یہ کیسا حسن ہے کہ پورا چاند ہی ''گہنا'' جائے یہ سمجھ میں نہیں آتا اور وہ لوگ کون ہیں جو ساری دنیا میں رائج ان معنی کو تبدیل کردیتے ہیں، پاکستان میں؟ آپ نے کبھی غور کیا کہ ان حالات کی وجہ کیا ہے، جہاں تک رائے قائم کرنے کا تعلق ہے ایک وجہ تو ''رشتہ'' ہے کہ غلطی اگر کسی اور سے ہوجائے تو آپ اسے فوراً ایک طرف بٹھادیتے ہیں اور معاملے کو رفع دفع کردیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ غلطی آپ کے رشتے دار سے ہوجائے تو آپ اپنے آپ کو دائو پر لگادیتے ہیں اور اس رشتے دار کو جو بہت قریبی ہے وہاں سے نہیں ہٹاتے، دوستوں کو جو ''دوست نہیں ہیں'' تبدیل نہیں کرتے۔
سیاست ایک عجیب کھیل ہے اس میں کوئی کسی کا دوست نہیں اور کوئی کس کا رشتے دار نہیں یہ مثال اورنگ زیب سے بہت واضح ہے مگر اب پاکستان میں لگتا ہے کہ یہ ''رشتے دارانہ بحران'' ہے میری یہ تحریر انتہائی مخلصانہ ہے ان لوگوں سے جو اس بحران کا شکار ہیں۔
غور کیجیے! فیصلہ کیجیے! وقت کم ہے اگر تھوڑی سی ''انا'' کی قربانی دیکر سب کچھ بچایا جاسکتا ہے تو سودا برا نہیں ہے، یہ سب کے لیے ایک Open Offer ہے حالانکہ حالات کی بات کان لگاکر سننا چاہیے، ملک سانجھا ہے۔ چھوڑو ضد بحث کی باتیں نقصان کسی کا نہیں ہو رہا قوم کا نقصان ہو رہا ہے ملک کا نقصان ہورہا ہے ان تمام حالات میں جہاں بات ''رک جائے' اٹک جائے'' Way Out ڈھونڈنا چاہیے اور وہ ہوتا ہے ہر ''بند گلی'' سے باعزت واپسی ہوسکتی ہے اور ہر واپسی عزت دے سکتی ہے۔
میں محبت میں ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہوں، مگر روز ''چھوٹی چھوٹی محبتیں'' کرتا ہوں، لوگ آخر کار مجھے نظر انداز کردیتے ہیں، سوچتے ہیں چھوڑیے کیا سوچتے ہیں۔ سوچنے دیجیے۔ مجھے نئی محبتیں مل جاتی ہے۔ اس کائنات میں کیا محبتوں کی کمی ہے۔ ہر گز نہیں اس کائنات کی ہر شے اپنے خالق کی محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔
سمندروں کی لہریں، پرندوں کے گیت، انسانوں کے خوشی اور مسرت کے گانے۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ محبت کا ثبوت ہیں، محبت ضرورت ہے مگر بینک بیلنس نہیں ہے کہ چھپاکر رکھو، یہ کھلا سرمایہ ہے اس کا اظہار کرتے رہو، پھیلاتے رہو۔ دیتے رہو۔
سانپ کا زہر نکال رہے ہیں ہمارے جوان، جانوں کا نذرانہ دے کر، اب کیا کرنا ہوگا، کیا پھر ان کے واپس آجانے کے بعد سانپ پالنے کا شوق پورا کرنا ہے، اپنے گھر کو سانپوں سے پاک رکھنا گھر، محلے، وطن سب کے لیے اچھا ہے، دوستو! یہ در بدری کب تک آپ نے کشمیر بھارت سے چھین لیا، گھر نہیں بچاسکتے؟بولو جواب دو۔
اگر آپ ایک طوطا پال لیں اور اس محبت کا سلوک کریں تو وہ کاٹنے والی چونچ رکھنے کے باوجود آپ کو نہیں کاٹتا۔ وہ آپ کے منہ سے سیب کا ٹکڑا نکال کر اسے اسی چونچ سے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے جو کچھ دیر پہلے آپ کے لبوں کے قریب تھی اور جس سے وہ با آسانی آپ کے لب تراش سکتا تھا، مگر جذبہ محبت اس قدر شدید ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔
یہ بات آپ سانپ کے بارے میں یقین سے نہیں کرسکتے، دنیا بھر کے سانپ پالنے والے اور ہمارے ملک کے سانپوں کے کنگ تاجپورکے سانپ ماہر سانپ کے کاٹے سے ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے کیوں کہ سانپ بالآخر سانپ ہی ہے۔
سانپ کا زہر کتنا بھی نکال دیا جائے وہ دوبارہ زہر حاصل کرلیتا ہے اور آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب اس نے زہر حاصل کرلیا اور یوں آپ دھوکے کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ دھوکا آپ کو موت کی منزل تک لے جاتا ہے۔
کیوں وہ لوگ اس ملک میں پیدا ہوئے، وہ مدرسے جہاں سے پانچ وقت اذان اور نماز کی آوازیں گونجتی تھیں اور گونجتی ہیں ان لوگوں کے ٹھکانے بن گئے اور کیوں جہاں سے امن و آشتی کا پیغام جانا چاہیے تھا وہاں سے نفرت اور دہشت کا پیغام پاکستان کو ملا۔
کیا قصور تھا پاکستان کا؟ یہی کہ اس نے دنیا بھر کے اسلامی ریاستوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے خلاف ان ملکوں کے جد وجہد کرنے والوں کو مہمان رکھا۔ ان کو بہترین سہولتیں دیں، بھائیوں سے بڑھ کر چاہا اور سب کچھ ان کے سامنے رکھ کر ''میثاق مدینہ'' کو دہرایا۔
اچھا نہیں کیا انھوں نے میزبانوں کے ساتھ، غلط لوگوں کا ساتھ دیا، کیا ظلم کا مقابلہ کبھی ظلم سے کیا جاسکتا ہے تو پھر ایٹم بم گرانے والوں، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والوں، انسانی آبادیوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کو انسانوں کا راہنما اور نجات دہندہ کا رتبہ دینا چاہیے۔ اسرائیل کو قیام امن کا سب سے بڑا علمبردار قرار دینا چاہیے؟
مگر ایسا نہیں ہے ساری دنیا نفرت کرنے والوں، نفرت کا پیغام دینے والوں کی مذمت کررہی ہے اور کرتی رہی ہے، انسانی تاریخ کی ساری مذمتیں ہمیشہ نفرت کرنے والوں کے نام لکھی گئی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور یہ جاری رہے گا، جب جب ظلم ہوگا مذمت ضرور ہوگی۔
ایک قسم جو قابل ذکر ہے وہ ایسی نفرت ہے جس کی شدت شاید نہ ہو مگر یہ جنم محبت سے لیتی ہے یہ آپ کا بھی تجربہ ہوگا۔ میں ہزاربار اس سے گزرا ہوں مگر میری سرشت ایسی ہے کہ میں اس سے گریز نہیں کرسکتا۔
آپ شاید حیران ہوں۔ میں بھی حیران ہوتا ہوں۔ میں محبت کرنے سے باز نہیں آتا جس محبت کا ذکر کر رہا ہوں وہ بھی عجیب ہے، کسی سے ملا نہیں اس کے بارے میں صرف سن لیا کسی ایسے شخص سے جسے میں جانتا ہوں کہ قابل اعتبار ہے تو اس شخص سے پیار سا ہوگیا، اب یہ چاہے شخص ہو یا ادارہ کیوں کہ میری نظر میں ہر ادارہ، ہر شخص اس وقت تک ہی اچھا نہیں ہے جب تک وہ مجھ سے اچھا ہے بلکہ میں اس کے First Impression کو فراموش نہیں کرپاتا۔ یوں اس سے ایک خاص انسیت برقرار رہتی ہے اور جہاں ایک بار پھر رابطہ ہوا تھا ، مل گئے، سلسلہ جاری ہے ۔
شاید میری یہ فطرت میری قوم کی عکاس ہے۔ میری قوم بھی معاف کردینے کے جذبے سے معمور ہے۔ مگر کہیں کہیں اس میں کچھ لوگ، کچھ رہنما ایسے بھی آجاتے ہیں جو معاف کرنے کے بجائے انتقام پر تیار رہتے ہیں، اسے محبت کہنا چاہیں تو کرلیں۔ میری نظر میں یہ قوم سے ''انتقام'' ہے۔
''اتفاق' عدم اتفاق'' پڑھتا رہتا ہوں کہ سیاست کا حسن ہے۔ یہ کیسا حسن ہے کہ پورا چاند ہی ''گہنا'' جائے یہ سمجھ میں نہیں آتا اور وہ لوگ کون ہیں جو ساری دنیا میں رائج ان معنی کو تبدیل کردیتے ہیں، پاکستان میں؟ آپ نے کبھی غور کیا کہ ان حالات کی وجہ کیا ہے، جہاں تک رائے قائم کرنے کا تعلق ہے ایک وجہ تو ''رشتہ'' ہے کہ غلطی اگر کسی اور سے ہوجائے تو آپ اسے فوراً ایک طرف بٹھادیتے ہیں اور معاملے کو رفع دفع کردیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ غلطی آپ کے رشتے دار سے ہوجائے تو آپ اپنے آپ کو دائو پر لگادیتے ہیں اور اس رشتے دار کو جو بہت قریبی ہے وہاں سے نہیں ہٹاتے، دوستوں کو جو ''دوست نہیں ہیں'' تبدیل نہیں کرتے۔
سیاست ایک عجیب کھیل ہے اس میں کوئی کسی کا دوست نہیں اور کوئی کس کا رشتے دار نہیں یہ مثال اورنگ زیب سے بہت واضح ہے مگر اب پاکستان میں لگتا ہے کہ یہ ''رشتے دارانہ بحران'' ہے میری یہ تحریر انتہائی مخلصانہ ہے ان لوگوں سے جو اس بحران کا شکار ہیں۔
غور کیجیے! فیصلہ کیجیے! وقت کم ہے اگر تھوڑی سی ''انا'' کی قربانی دیکر سب کچھ بچایا جاسکتا ہے تو سودا برا نہیں ہے، یہ سب کے لیے ایک Open Offer ہے حالانکہ حالات کی بات کان لگاکر سننا چاہیے، ملک سانجھا ہے۔ چھوڑو ضد بحث کی باتیں نقصان کسی کا نہیں ہو رہا قوم کا نقصان ہو رہا ہے ملک کا نقصان ہورہا ہے ان تمام حالات میں جہاں بات ''رک جائے' اٹک جائے'' Way Out ڈھونڈنا چاہیے اور وہ ہوتا ہے ہر ''بند گلی'' سے باعزت واپسی ہوسکتی ہے اور ہر واپسی عزت دے سکتی ہے۔
میں محبت میں ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہوں، مگر روز ''چھوٹی چھوٹی محبتیں'' کرتا ہوں، لوگ آخر کار مجھے نظر انداز کردیتے ہیں، سوچتے ہیں چھوڑیے کیا سوچتے ہیں۔ سوچنے دیجیے۔ مجھے نئی محبتیں مل جاتی ہے۔ اس کائنات میں کیا محبتوں کی کمی ہے۔ ہر گز نہیں اس کائنات کی ہر شے اپنے خالق کی محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔
سمندروں کی لہریں، پرندوں کے گیت، انسانوں کے خوشی اور مسرت کے گانے۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ محبت کا ثبوت ہیں، محبت ضرورت ہے مگر بینک بیلنس نہیں ہے کہ چھپاکر رکھو، یہ کھلا سرمایہ ہے اس کا اظہار کرتے رہو، پھیلاتے رہو۔ دیتے رہو۔
سانپ کا زہر نکال رہے ہیں ہمارے جوان، جانوں کا نذرانہ دے کر، اب کیا کرنا ہوگا، کیا پھر ان کے واپس آجانے کے بعد سانپ پالنے کا شوق پورا کرنا ہے، اپنے گھر کو سانپوں سے پاک رکھنا گھر، محلے، وطن سب کے لیے اچھا ہے، دوستو! یہ در بدری کب تک آپ نے کشمیر بھارت سے چھین لیا، گھر نہیں بچاسکتے؟بولو جواب دو۔