دہکتا سلگتا پاکستان ……
’’کون پوشیدہ ہے اس پردۂ ژنکاری میں‘‘۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت نہایت خطرناک سازشی جال میں جکڑا جاچکا ہے
''کون پوشیدہ ہے اس پردۂ ژنکاری میں''۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت نہایت خطرناک سازشی جال میں جکڑا جاچکا ہے۔ عوام بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہیں۔ جب کہ بیرونی کفریہ طاقتیں مسلم اقوام اور خصوصاً پاکستانی عوام کو ہی اپنا سب سے بڑا دشمن خیال کرتی ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کی وجہ سے یہ مسلم اور غیور قوم کسی بھی وقت امریکا اور استعماری طاغوتی طاقتوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
چنانچہ ایک طرف تو سرزمین پاکستان پر فحاشی اور عریانی، بے حیائی اور بے پردگی کو عام کیا جارہا ہے اور دوسری جانب وزیرستان سے کراچی کے ساحل تک ایک آگ کا دریا ہے اور پوری قوم اس میں ڈوبتی جارہی ہے۔ شہر قائد کی تو گلی گلی، کوچہ کوچہ میں ٹارگٹ کلنگ کے نام پر آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ہر روز بے گناہ شہریوں کے جنازے سرد خانوں کی نذر کیے جارہے ہیں اور کراچی کے ڈیڑھ کروڑ عوام ہی نہیں، پوری سیاسی قیادت انگشت بدنداں حکمرانوں کے تمام اعلانات ویقین دہانیاں اور روایتی اقدامات اب تک نقش بر آب ثابت ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات کا ذمے دار کون ہے؟ اور ہمارے سیاسی بازی گروں کی ڈور کس خفیہ ہاتھ میں ہے؟ اس سوال کا جواب ان دو واقعات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ 19 اکتوبر 2001 کے بعد سابق امریکی صدر ''بش'' اور اس کے رفقا نے ایک طویل میٹنگ میں اس بات پر زور دیا کہ سب سے پہلے امریکا اپنے دشمنوں کی نشاندہی کرے اور ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے پھر ایک حصے کے دشمن ممالک میں ردوبدل کے ساتھ اپنی من پسند حکومتیں قائم کی جائیں جب کہ دوسرے حصے کے دشمن ممالک کے کلچر کو یکسر تبدیل کردیا جائے۔
چنانچہ اس میٹنگ میں 8 ممالک کو اپنا دشمن قرار دے کر امریکی انتظامیہ نے دو فہرستیں تیار کیں۔ ایک فہرست میں افغانستان، عراق اور ایران شامل تھے جن کی ثقافت وکلچر کو تبدیل کرنا تھا جب کہ دوسری فہرست میں پاکستان، سوڈان، شام، سعودی عرب اور شمالی کوریا کو رکھا، جہاں اپنی پٹھو حکومتوں کو لانا تھا۔ دوسرا واقعہ کریمٹ روز ویلٹ کا ہے۔ کریمٹ روز ویلٹ امریکا کے سابق صدر ''روز ویلٹ'' کا پوتا اور 1950 تا 1960 کی دہائی میں سی آئی اے کا ایک بڑا اور نہایت ذہین افسر تھا، جس نے اپنی حیران کن خداداد صلاحیتوں سے امریکن سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی بنادیا۔
1952 میں ایرانی وزیراعظم ''مصدق'' کی حکومت کا تختہ الٹنا اور سی آئی اے کے جاسوس ''جنرل زاہدی''' کو وزیراعظم بنانا کریمٹ کا وہ کارنامہ تھا جس نے اس کو بین الاقوامی شہرت بخش دی۔ کریمٹ جب مصدق کی حکومت کا خاتمہ کرکے واپس وطن پہنچا تو اس نے حکومتیں توڑنے، معاشروں کے تاروپود ہلانے اور فکری ونظریاتی تبدیلیوں کا ایک چار نکاتی فارمولا تیار کیا جو آج بھی دنیا میں ''کریمٹ فارمولا'' کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ 1۔ دشمن ممالک میں سماجی تبدیلیاں پیدا کردی جائے۔ 2۔ اپنے مخالفین کی دفاعی پوسٹوںاور پناہ گاہوں کو ہمیشہ ٹارگٹ پر رکھا جائے۔ 3۔ دشمن ممالک کی لیڈرشپ اور عوام کے درمیان منافرت ومخالفت قائم کردی جائے۔ 4۔ ان ممالک میں حقیقی مذہبی رہنما اور علمائے کرام کو قتل کروادیا جائے اور نئی نسل کو مذہب کے نام سے نفرت دلادی جائے تاکہ دینی جذبات ختم ہوجائیں۔
اب آپ دونوں واقعات کو ذہن نشین کرکے گزشتہ تاریخ اور بالخصوص گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کا تجزیہ کریں تو سازشی جال کی تمام گتھیاں سلجھتی چلی جائیں گی اور ہر سوال کا جواب اور نقاب پوش چہرہ کھل کر سامنے آجائے گا۔
آپ کریمٹ کے پہلے نقطہ نظر کو ذہن میں رکھیے، یعنی ثقافت ونظریات کی تبدیلی، پھر 2001 کے بعد ملکی صورت حال کا جائزہ لیں، ہمارے ملک میں سب سے پہلے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو ٹارگٹ بنا کر روشن خیالی کی فضا عام کی گئی، بالآخر پورے ملک میں فحاشی وعریانی اور بے حیائی وبے پردگی اور مخلوط نظام عام کردیا گیا، ملک میں تہوار کے نام پر ''ویلنٹائن ڈے'' بسنت، نیو ایئر نائٹس کو فروغ دیا گیا۔
اس کا دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ دشمن ملکی پناہ گاہوں اور حفاظتی پوسٹوں کو ٹارگٹ بنایا جائے، چنانچہ کسی دن کا اخبار دیکھ لیں نیوز چینلوں پر تبصرہ سن لیں آپ کو سرزمین پاکستان کی حالت زار اور کسمپرسی کا اندازہ ہوجائے گا کہ وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے لاکھوں افراد بے گھر اور خود وزیرستان مردوں کا مسکن بنادیا گیا حتیٰ کہ ہماری پاک فوج کے حفاظتی ٹھکانے بھی اب محفوظ نہیں اور فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور شہید کیا جارہا ہے۔ جب کہ گنجان آبادی والے شہروں اور گائوں غرض کہ پورے ملک کی عبادت گاہیں مدارس، مزارات، پبلک پوائنٹ حتی کہ گلی کوچہ گھر اور دکان کی چار دیواری تک دھماکوں سے گونج رہی ہیں اور خوف وہراس کی فضا روز بروز وسیع ہوتی جارہی ہے۔
کریمٹ کا تیسرا نقطہ نظریہ تھا کہ لیڈر شپ اور عوام کے درمیان منافرت کی آہنی دیوار کھڑی کردی جائے اور اپنے من پسند لوگوں کو اقتدار میں لایا جائے موجودہ سیاست دیکھ کر یہ بات سچ محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ان دیکھا انجانا چہرہ پس پردہ ہمارے محب وطن سیاسی رہنمائوں کی کردار کشی کررہا ہے۔ کریمٹ روز ویلٹ کا آخری اور خطرناک نقطہ نظر یہ تھا کہ دشمن ممالک میں کسی بھی مذہبی رہنما کو ابھرنے نہ دیا جائے اور جو ابھرتا نظر آئے اولاً اس کو خرید کر درباری مولوی بنادیا جائے یا پھر قتل کردیا جائے۔
چنانچہ آپ پچھلے 13 برس کے اعداد وشمار جمع کرلیں اس عرصے میں جتنے حق گو علمائے کرام شہید کیے گئے ہیں اڑسٹھ سالہ تاریخ میں اتنے شہدا نہیں ہیں۔ سرزمین پاکستان کے ان تمام ناموافق حالات اور زمینی حقائق کے پیش نظر امریکا اور اس کی استعماری طاقتیں ایک جانب مسلم کش فسادات، تعصب، نفرت، امتیاز وافتخار اور ناانصافی کے بیج بو کر عوام اور لیڈر شپ کے درمیان خلیج پیدا کررہی ہیں تو دوسری جانب پاکستان کو کمزور، شکست خوردہ، ناقص اور ڈی اسٹیبلائز کرنا چاہتی ہیں اور پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان، عراق، شام اور شمالی کوریا وغیرہ میں دہشت گردی کی آگ پھیلانا چاہتی ہیں۔
اور اس مبینہ دہشت گردی کو عام کرکے اس کی آڑ میں ایک مسلم ملک کے بعد دوسرے مسلمان ملک پر خونیں یلغار کی خواہش مند ہیں۔ اب جب یہ تمام طاقتیں پاکستان کو سیاسی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی طورپر سازشی جال میں جکڑ چکی ہیں تو محب وطن ہونے کے ناتے ہمیں متحد ویک جاں ہوکر اس اس جال کے تانے بانے تار تار کرنے ہوں گے کیوں کہ جب قومیں خود اجتماعی طورپر بے حس اور ظلم کی فرماں روائی کا شکار ہوجاتی ہیں تو ان کے حکمران بھی منافق اور غیروں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔
لہٰذا اگر ہمیں اپنی زندگی، عزت اور وقار کا تحفظ اور آزادی کی سانسیں لینی ہیں تو پہلے اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کی زندگی، غمی وخوشی اور ناموس وعزت کا خیال رکھیں اور باطل کی سازشوں سے آگاہی حاصل کرتے رہیں۔