زندگی پیار کا گیت ہے
زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہماری زندگی آسان ہو،
زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہماری زندگی آسان ہو، مسلسل طور پر منصفانہ ہو اور زیادہ سے زیادہ راحت انگیز ہو ۔ اس میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم نہ ہوں۔ ہم ہر وقت خوش رہیں بدقسمتی سے یہ ہماری خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ حقیقت ان کے برعکس رہتی ہے۔ تاہم حقیقت ایک عظیم استاد بھی ہے وہ ہمیں سیکھنے میں مدد دیتی ہے، گوکہ اس کے سکھانے کا عمل بہت دھیما ہے اور درد و اذیت سے بھرا ہوا ہوتا ہے وہ ہمیں زندگی کے چند نہایت قابل قدر سبق سکھاتی ہے ان میں سے ایک سبق یہ ہے کہ دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے خود کو کبھی وقف نہیں کرے گی۔
ہم اسے پسند کریں یا نہیں۔ یہ ہماری زندگی ، یہ ہماری زندگی کا ایک عظیم سچ ہے۔ حقیقت میں ہمارا پہلا اور سب سے قابل قدر سبق ہے۔ ہزاروں سالوں سے اس موضوع پر لکھتے چلے آئے ہیں کہ زندگی جیسی ہوتی ہے وہ ویسی کیوں ہوتی ہے لیکن یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کس طرح کام کرتی ہے اگر وہ نہیں سمجھتے اور زندگی کو جیسی وہ ہے ویسی ہی قبول کرلیتے ہیں تو پھر ہم کسی چیز کی خواہش کرتے رہیں گے لیکن اسے پھر بھی نہیں پاسکیں گے ہم شکوے کرتے رہیں کہ معاملات کبھی ویسے نہیں ہوتے یہ زندگی کا ایک سب سے زیادہ قابل قدر سبق ہے کیونکہ جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے خود کو وقف نہیں کرے گی تو ہم اپنی ذمے داری قبول کرنے لگتے ہیں۔
کسی نے مجھ سے پوچھا ''کیا تمہیں یقین ہے کہ تم زندگی پر منفی اثرات کو مضمون میں لکھنا چاہتے ہو؟'' میں تو انھیں منفی نہیں سمجھتا کہ بنیادی سچ ہیں۔ اس لیے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ یہ بہت اہم ہیں۔ میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ اب میں کمپیوٹر پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں چلا سکتی ہوں، جب کمپیوٹر نیا نیا آیا تھا تب میں اسے اتنے بہتر انداز میں نہیں چلا سکتی تھی اس کی وجہ ہے کہ میں نے یہ جاننے کے لیے وقت صرف کیا ہے یہ کس طرح کام کرتا ہے یہ عمل آسان نہیں تھا (حالانکہ کمپیوٹر کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ یوزر فرینڈلی'' (User Friendly) ہے۔ زندگی کی مثال بھی ایسی ہی ہے جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتی ہے تو ہم اس سے بہت کچھ حاصل کرنے لگتے ہیں۔ جیسے میں آج کل اپنے آئی پیڈ سے حاصل کر رہی ہوں۔
زندگی کٹھن ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بات سب سے پہلے ایک قدیم ترین فلسفی نے کہی تھی تقریباً 2500 سال پہلے گوتم بدھ نے ''چار سچائیاں'' بیان کی تھیں۔ پہلی سچائی یہ تھی کہ ''زندگی رکی ہے'' یہ بات کہنے والا وہ پہلا شخص ہے ، تاہم میرا خیال ہے کہ اس سے بہت پہلے بہت سے لوگوں نے اس حقیقت کو جان لیا ہوگا۔ میرے لیے یہ یقین کرنا دشوار ہے کہ دنیا کے اولین باشندوں کے لیے زندگی آسان ہوگی۔ زندگی کٹھن ہے۔ یہ ہمیشہ کٹھن رہے گی۔
نفسیات داں اسکاٹ پیک کی مشہور کتاب The Roadless Travelled کے ابتدائی تین لفظ ہیں ''زندگی مشکل ہے'' پیک اسے ایک عظیم ترین سچ کہتا ہے۔ کیونکہ جب ہم اسے جان لیتے ہیں اور اسے قبول کرلیتے ہیں تو ہم زیادہ موثرانداز میں جی سکتے ہیں ہم اپنے مسائل پر گریہ و زاری کرنے کے بجائے ان کے حل تلاش کرسکتے ہیں۔ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ ناکام ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات کے حوالے سے کیسی سوچ رکھتے ہیں۔
ناکامیاب لوگ اپنے مسائل کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کامیاب لوگ اپنے مسائل کو قبول کرتے ہیں اور ان کے ذریعے عمل کرتے ہیں خواہ اس کے دوران انھیں دکھ ہی کیوں نہ سہنا پڑے مسائل سے نبرد آزما ہونے اور ان کے حل ڈھونڈنے سے زندگی کو معنی ملتے ہیں ناکام لوگ ایسے لوگوں کی زندگی کو پیار کا گیت سمجھتے ہیں جب کہ وہ مسائل کو Face کرتے ہوئے وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے ہیں۔
عمر سے قطع نظر بیش تر لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو وہ اس حقیقت کو سمجھتے نہیں یا اسے قبول نہیں کرتے۔ زندگی میں خاص حد تک مشکلات برداشت کرنے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ اپنے مسائل کے زیادہ ہونے کا شکوہ خود سے اور دوسروں سے کرتے رہتے ہیں وہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے ان کی مشکلات منفرد نوعیت کی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنے سوا باقی ہر کسی کی زندگی آسان دکھائی دیتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہمارے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرہ ہم پر بالکل مختلف پیغامات کی روزانہ بمباری کرتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ''پش بٹن'' (Push Button) مہیا کردیا ہے ہم صرف بٹن دبا کر اپنے گیراج کا دروازہ کھول سکتے ہیں، ڈنر تیار کرسکتے ہیں،مزید یہ کہ ہمیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ ہر کام کو فوراً اور آسانی سے کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
میں نے گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا کہ آپ سو پونڈ وزن کم کرسکتے ہیں، غیر ملکی زبان روانی سے بولنا سیکھ سکتے ہیں، ٹی وی کے مشہور اسٹار بن سکتے ہیں، کنڈیکٹر کا لائسنس حاصل کرسکتے ہیں اور جائیداد کے کاروبار میں ایک کروڑ روپے کماسکتے ہیں آپ یہ کام چند دنوں کے اندر اندر کرسکتے ہیں اور وہ بھی کسی کوشش کے بغیر۔
اس قسم کے اشتہار کی بھرمار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں کام کرنے والے لوگ انسانی رویوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بیش تر لوگ اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے کہ زندگی مشکل ہے اس کے بجائے وہ فوری اور آسان طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں ابھی میں نے تھوڑا پیچھے کہا تھا کہ کامیاب لوگ زندگی کو ویسے ہی قبول کرتے ہیں جیسے وہ ہیں۔
اس باب میں، میں اسی حقیقت پر مستزاد یہ حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ جو چیزیں حاصل کیے جانے کے لائق ہوتی ہیں وہ کبھی فوراً اور آسانی سے حاصل نہیں ہوتیں ان کے حصول کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ وقت صرف کرکے محنت جدوجہد اور کوشش کرکے قربانیاں دے کر اور درد و کرب سہہ کر حاصل ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ کہ زندگی مشکل ہے۔ جن لوگوں کو اپنے بڑوں سے یہ چیزیں پلیٹ میں رکھ کر ملتی ہیں ان کے لیے ''زندگی پیار کا گیت ہے'' انھیں یہ چیزیں حاصل کرنے میں محنت نہیں کرنا پڑی۔
زندگی مشکل ہے۔ اور یہ ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اچھی، ثمر آور اور مسرت بخش نہیں ہوسکتی۔ جس خدا نے اپنی مہربانی سے اسے بنایا اور سجایا ہے اس نے ہر مسئلے کا حل بھی رکھا ہے اور انعام بھی کہیں صبر سے اس کا مقابلہ سکھایا ہے تو کہیں آگے بڑھ کر تدبیر اور تدبر سے اس پر جھپٹنا سکھایا ہے پوری نسل میں کامیابی اور خوشی انھی لوگوں کو ملی ہے جو مشکلوں اور ناکامیوں پر رونے نہیں بیٹھ گئے بلکہ نئے عزم اور زیادہ ہمت کے ساتھ اگلے معرکے کی تیاری میں جت گئے وہ چاہے تیمور ہو، محمود غزنوی ہو، بابر ہو، محمد بن قاسم ہو، یا سائنسدان ہو یا محقق ہو۔
ہم اسے پسند کریں یا نہیں۔ یہ ہماری زندگی ، یہ ہماری زندگی کا ایک عظیم سچ ہے۔ حقیقت میں ہمارا پہلا اور سب سے قابل قدر سبق ہے۔ ہزاروں سالوں سے اس موضوع پر لکھتے چلے آئے ہیں کہ زندگی جیسی ہوتی ہے وہ ویسی کیوں ہوتی ہے لیکن یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کس طرح کام کرتی ہے اگر وہ نہیں سمجھتے اور زندگی کو جیسی وہ ہے ویسی ہی قبول کرلیتے ہیں تو پھر ہم کسی چیز کی خواہش کرتے رہیں گے لیکن اسے پھر بھی نہیں پاسکیں گے ہم شکوے کرتے رہیں کہ معاملات کبھی ویسے نہیں ہوتے یہ زندگی کا ایک سب سے زیادہ قابل قدر سبق ہے کیونکہ جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے خود کو وقف نہیں کرے گی تو ہم اپنی ذمے داری قبول کرنے لگتے ہیں۔
کسی نے مجھ سے پوچھا ''کیا تمہیں یقین ہے کہ تم زندگی پر منفی اثرات کو مضمون میں لکھنا چاہتے ہو؟'' میں تو انھیں منفی نہیں سمجھتا کہ بنیادی سچ ہیں۔ اس لیے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ یہ بہت اہم ہیں۔ میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ اب میں کمپیوٹر پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں چلا سکتی ہوں، جب کمپیوٹر نیا نیا آیا تھا تب میں اسے اتنے بہتر انداز میں نہیں چلا سکتی تھی اس کی وجہ ہے کہ میں نے یہ جاننے کے لیے وقت صرف کیا ہے یہ کس طرح کام کرتا ہے یہ عمل آسان نہیں تھا (حالانکہ کمپیوٹر کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ یوزر فرینڈلی'' (User Friendly) ہے۔ زندگی کی مثال بھی ایسی ہی ہے جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتی ہے تو ہم اس سے بہت کچھ حاصل کرنے لگتے ہیں۔ جیسے میں آج کل اپنے آئی پیڈ سے حاصل کر رہی ہوں۔
زندگی کٹھن ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بات سب سے پہلے ایک قدیم ترین فلسفی نے کہی تھی تقریباً 2500 سال پہلے گوتم بدھ نے ''چار سچائیاں'' بیان کی تھیں۔ پہلی سچائی یہ تھی کہ ''زندگی رکی ہے'' یہ بات کہنے والا وہ پہلا شخص ہے ، تاہم میرا خیال ہے کہ اس سے بہت پہلے بہت سے لوگوں نے اس حقیقت کو جان لیا ہوگا۔ میرے لیے یہ یقین کرنا دشوار ہے کہ دنیا کے اولین باشندوں کے لیے زندگی آسان ہوگی۔ زندگی کٹھن ہے۔ یہ ہمیشہ کٹھن رہے گی۔
نفسیات داں اسکاٹ پیک کی مشہور کتاب The Roadless Travelled کے ابتدائی تین لفظ ہیں ''زندگی مشکل ہے'' پیک اسے ایک عظیم ترین سچ کہتا ہے۔ کیونکہ جب ہم اسے جان لیتے ہیں اور اسے قبول کرلیتے ہیں تو ہم زیادہ موثرانداز میں جی سکتے ہیں ہم اپنے مسائل پر گریہ و زاری کرنے کے بجائے ان کے حل تلاش کرسکتے ہیں۔ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ ناکام ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات کے حوالے سے کیسی سوچ رکھتے ہیں۔
ناکامیاب لوگ اپنے مسائل کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کامیاب لوگ اپنے مسائل کو قبول کرتے ہیں اور ان کے ذریعے عمل کرتے ہیں خواہ اس کے دوران انھیں دکھ ہی کیوں نہ سہنا پڑے مسائل سے نبرد آزما ہونے اور ان کے حل ڈھونڈنے سے زندگی کو معنی ملتے ہیں ناکام لوگ ایسے لوگوں کی زندگی کو پیار کا گیت سمجھتے ہیں جب کہ وہ مسائل کو Face کرتے ہوئے وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے ہیں۔
عمر سے قطع نظر بیش تر لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو وہ اس حقیقت کو سمجھتے نہیں یا اسے قبول نہیں کرتے۔ زندگی میں خاص حد تک مشکلات برداشت کرنے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ اپنے مسائل کے زیادہ ہونے کا شکوہ خود سے اور دوسروں سے کرتے رہتے ہیں وہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے ان کی مشکلات منفرد نوعیت کی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنے سوا باقی ہر کسی کی زندگی آسان دکھائی دیتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہمارے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرہ ہم پر بالکل مختلف پیغامات کی روزانہ بمباری کرتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ''پش بٹن'' (Push Button) مہیا کردیا ہے ہم صرف بٹن دبا کر اپنے گیراج کا دروازہ کھول سکتے ہیں، ڈنر تیار کرسکتے ہیں،مزید یہ کہ ہمیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ ہر کام کو فوراً اور آسانی سے کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
میں نے گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا کہ آپ سو پونڈ وزن کم کرسکتے ہیں، غیر ملکی زبان روانی سے بولنا سیکھ سکتے ہیں، ٹی وی کے مشہور اسٹار بن سکتے ہیں، کنڈیکٹر کا لائسنس حاصل کرسکتے ہیں اور جائیداد کے کاروبار میں ایک کروڑ روپے کماسکتے ہیں آپ یہ کام چند دنوں کے اندر اندر کرسکتے ہیں اور وہ بھی کسی کوشش کے بغیر۔
اس قسم کے اشتہار کی بھرمار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں کام کرنے والے لوگ انسانی رویوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بیش تر لوگ اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے کہ زندگی مشکل ہے اس کے بجائے وہ فوری اور آسان طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں ابھی میں نے تھوڑا پیچھے کہا تھا کہ کامیاب لوگ زندگی کو ویسے ہی قبول کرتے ہیں جیسے وہ ہیں۔
اس باب میں، میں اسی حقیقت پر مستزاد یہ حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ جو چیزیں حاصل کیے جانے کے لائق ہوتی ہیں وہ کبھی فوراً اور آسانی سے حاصل نہیں ہوتیں ان کے حصول کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ وقت صرف کرکے محنت جدوجہد اور کوشش کرکے قربانیاں دے کر اور درد و کرب سہہ کر حاصل ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ کہ زندگی مشکل ہے۔ جن لوگوں کو اپنے بڑوں سے یہ چیزیں پلیٹ میں رکھ کر ملتی ہیں ان کے لیے ''زندگی پیار کا گیت ہے'' انھیں یہ چیزیں حاصل کرنے میں محنت نہیں کرنا پڑی۔
زندگی مشکل ہے۔ اور یہ ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اچھی، ثمر آور اور مسرت بخش نہیں ہوسکتی۔ جس خدا نے اپنی مہربانی سے اسے بنایا اور سجایا ہے اس نے ہر مسئلے کا حل بھی رکھا ہے اور انعام بھی کہیں صبر سے اس کا مقابلہ سکھایا ہے تو کہیں آگے بڑھ کر تدبیر اور تدبر سے اس پر جھپٹنا سکھایا ہے پوری نسل میں کامیابی اور خوشی انھی لوگوں کو ملی ہے جو مشکلوں اور ناکامیوں پر رونے نہیں بیٹھ گئے بلکہ نئے عزم اور زیادہ ہمت کے ساتھ اگلے معرکے کی تیاری میں جت گئے وہ چاہے تیمور ہو، محمود غزنوی ہو، بابر ہو، محمد بن قاسم ہو، یا سائنسدان ہو یا محقق ہو۔