پاکستان میں 2 ہزار ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کا انکشاف
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کارروائی کے لیے رپورٹ وزیراعظم، وزیر خزانہ اور نیب کو بھجوادی، سینئر افسر ایف بی آر کی۔۔۔
پاکستان میں 2 ہزار ارب روپے سالانہ سے زائد کی ٹیکس چوری کی رپورٹ کارروائی کیلیے وزیراعظم میاں نوازشریف، وزیر خزانہ اور نیب کو بھجوادی گئی ہے۔
اس ضمن میں ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے وزیراعظم کو بھجوائی جانیوالی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 2 ہزار ارب روپے سالانہ سے زائد کی ٹیکس چوری ہورہی ہے جبکہ ایف بی آر کے سینئر افسر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پراجیکٹ (ٹارپ) کیلیے کرائی جانیوالی اسٹڈی میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ پاکستان میں سالانہ 1800 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری ہورہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں امیر ترین لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے ٹیکس چوری میں ملوث 3 لاکھ سے زائد لوگوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جن میں سے 1 لاکھ 20 ہزار افراد کو گزشتہ مالی سال کے دوران نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں اور مزید 1 لاکھ 20 ہزار افراد کو رواں مالی سال نوٹس جاری کیے جائیں گے۔ ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹارپ کیلیے کرائی جانے والی مذکورہ رپورٹ عالمی بینک کو بھی بھجوائی جاچکی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی طرف سے بین الاقوامی سینٹر برائے پبلک پالیسی کے ذریعے جارجیا یونیورسٹی سے کرائی جانیوالی اسٹڈی پر مبنی اس رپورٹ میں کے مطابق پاکستان میں 1855.254 ارب روپے سالانہ کی ٹیکس چوری ہورہی ہے جو ایف بی آر کی طرف سے حاصل کردہ ٹیکس وصولیوں سے بھی زیادہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ شرح کے حساب سے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری مائننگ اور کان کنی میں ہورہی ہے جو 103.4 فیصد سالانہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق رقم کے لحاظ سب سے زیادہ ٹیکس چوری فنانس اینڈ انشورنس کے شعبے میں ہورہی ہے جس کی مالیت 1283.516 ارب روپے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں آئل اینڈ گیس سیکٹر کی طرف سے 119.154 ارب روپے،کیمیکلز سیکٹر میں 48.480 ارب روپے، آٹو موبائلز سیکٹر میں 45.261 ارب روپے، آئرن اینڈ اسٹیل کے شعبے میں 4.118 ارب روپے، ٹیکسٹائل شعبے میں 4.076 ارب روپے، کھانے کے تیل کے شعبے میں 14.746 ارب روپے، سیمنٹ سیکٹر میں 16.549 ارب روپے، شوگر سیکٹر میں 144.977 ارب روپے، فارماسیوٹیکل سیکٹر میں 1.499 ارب روپے، فرٹیلائزر سیکٹر میں 2.371 ارب روپے، ٹیلی کام سیکٹر میں 357.537 ارب روپے، فنانس اینڈ انشورنس سیکٹر میں 1283.516 ارب روپے، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی طرف سے 16.880 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جارہی ہے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سروسز سیکٹر کی طرف سے ٹیکس کمپلائنس کی شرح بہت کم ہے اور اس میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے اوراس میں بینکنگ انڈسٹری بہت اہم حصہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھاری ٹیکس شرح ملک میں ٹیکس چوری کی بڑی وجہ ہے جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے وزیراعظم، وزیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور نیب کو بھجوائی جانے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں 2 ہزار ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری ہورہی ہے۔
اس ضمن میں ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے وزیراعظم کو بھجوائی جانیوالی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 2 ہزار ارب روپے سالانہ سے زائد کی ٹیکس چوری ہورہی ہے جبکہ ایف بی آر کے سینئر افسر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پراجیکٹ (ٹارپ) کیلیے کرائی جانیوالی اسٹڈی میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ پاکستان میں سالانہ 1800 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری ہورہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں امیر ترین لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے ٹیکس چوری میں ملوث 3 لاکھ سے زائد لوگوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جن میں سے 1 لاکھ 20 ہزار افراد کو گزشتہ مالی سال کے دوران نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں اور مزید 1 لاکھ 20 ہزار افراد کو رواں مالی سال نوٹس جاری کیے جائیں گے۔ ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹارپ کیلیے کرائی جانے والی مذکورہ رپورٹ عالمی بینک کو بھی بھجوائی جاچکی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی طرف سے بین الاقوامی سینٹر برائے پبلک پالیسی کے ذریعے جارجیا یونیورسٹی سے کرائی جانیوالی اسٹڈی پر مبنی اس رپورٹ میں کے مطابق پاکستان میں 1855.254 ارب روپے سالانہ کی ٹیکس چوری ہورہی ہے جو ایف بی آر کی طرف سے حاصل کردہ ٹیکس وصولیوں سے بھی زیادہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ شرح کے حساب سے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری مائننگ اور کان کنی میں ہورہی ہے جو 103.4 فیصد سالانہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق رقم کے لحاظ سب سے زیادہ ٹیکس چوری فنانس اینڈ انشورنس کے شعبے میں ہورہی ہے جس کی مالیت 1283.516 ارب روپے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں آئل اینڈ گیس سیکٹر کی طرف سے 119.154 ارب روپے،کیمیکلز سیکٹر میں 48.480 ارب روپے، آٹو موبائلز سیکٹر میں 45.261 ارب روپے، آئرن اینڈ اسٹیل کے شعبے میں 4.118 ارب روپے، ٹیکسٹائل شعبے میں 4.076 ارب روپے، کھانے کے تیل کے شعبے میں 14.746 ارب روپے، سیمنٹ سیکٹر میں 16.549 ارب روپے، شوگر سیکٹر میں 144.977 ارب روپے، فارماسیوٹیکل سیکٹر میں 1.499 ارب روپے، فرٹیلائزر سیکٹر میں 2.371 ارب روپے، ٹیلی کام سیکٹر میں 357.537 ارب روپے، فنانس اینڈ انشورنس سیکٹر میں 1283.516 ارب روپے، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی طرف سے 16.880 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جارہی ہے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سروسز سیکٹر کی طرف سے ٹیکس کمپلائنس کی شرح بہت کم ہے اور اس میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے اوراس میں بینکنگ انڈسٹری بہت اہم حصہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھاری ٹیکس شرح ملک میں ٹیکس چوری کی بڑی وجہ ہے جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے وزیراعظم، وزیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور نیب کو بھجوائی جانے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں 2 ہزار ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری ہورہی ہے۔